1
0
Thursday 3 Jul 2014 11:24

کوہ پیمائی سکھانے کیلئے سکول قائم کرنیکی خواہش ہے

مائونٹ ایورسٹ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے والے حسن سد پارہ سے ملاقات کا احوال
کوہ پیمائی سکھانے کیلئے سکول قائم کرنیکی خواہش ہے
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ارض پاکستان کے بلند و بالا کہساروں اور برف سے ڈھکی، خوبصورت سرسبز و شاداب چوٹیوں میں پرورش پانے والے ہمارے ملک کے مایہ ناز کوہ پیما جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی کارنامے سرانجام دیئے اور اپنے ملک و مادر وطن کا نام روشن کیا اور نوجوانوں کیلئے ایک مثال بن گئے، پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کو چھونے والے عزم و ہمت کی مثال فرزند ارض شمال حسن سدپارہ سے اسکردو میں خصوصی ملاقات ہوئی تو ان کے حالات و واقعات زندگی سے آگاہی ہوئی۔ گفتگو و ملاقات میں ان کے عظیم کارناموں اور حکمرانوں کی زیادتیوں پر ان کے دکھی دل اور ناراضگیوں کا بھی علم ہوا، جس کے بعد یہ سوچا کہ اس سادہ انسان کی آواز کو اپنے تئیں عوام تک پہنچائیں گے، تاکہ کسی حد تک تو حق ادا ہوسکے، فرزند ارض شمال، عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے کوہ پیما حسن سدپارہ سے خصوصی ملاقات کا احوال حاضر خدمت ہے۔

میں نے ان سے تجسس بھرے انداز میں جب یہ پوچھا کہ آپ کو کوہ پیمائی کا مشکل، خطرناک اور جان لیوا شوق کیسے پیدا ہوا؟ اور کس طرح آپ نے اس فیلڈ میں سفر کو جاری رکھا تو وہ اپنے مخصوص بلتی لہجے میں یوں جواب دینے لگے۔۔، دراصل ہمارے والد اور تایا جان بھی معروف کوہ پیما تھے، ان کو بچپن سے دیکھتا آیا کہ وہ اس فیلڈ میں تھے، ہم ان کو دیکھتے تھے، وہ غیر ملکیوں کیساتھ کوہ پیمائی کرتے تھے جو ہمارے ملک کی بلند ترین چوٹیوں کو سَر کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے آتے تھے، ان کو بھی دیکھتا اس طرح میرے دل میں بھی شوق پیدا ہوا کہ دوسرے ممالک کے لوگ اپنے ملک کا پرچم یہاں بلند کرتے آتے ہیں، مجھے بھی اپنا سبز ہلالی پرچم ان چوٹیوں پر لہرانا چاہیے۔ اس طرح اس شوق اور ملک کی محبت سے مجبور میں نے بلندیوں کو چھونے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے میں نے قاتل پہاڑ (Killer Mountain) جسے لوگ نانگا پربت کے نام سے بھی جانتے ہیں، اس کو سَر کیا۔ نانگا پربت 8126 میٹر بلند ہے، یہ میں نے 1999ء میں سَر کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹیK-2 کو سَر کیا۔ یہ 8611 میٹر بلند ہے، جسے 27 جولائی 2004ء کو میں نے چار دنوں میں سَر کیا۔ K-2 کے بعد میں نے اپنے بھائی ساجد سدپارہ کے ساتھ مل کر سات دن کے فرق سے گشا بروم 1(8088 میٹر بلند) 29 جولائی 2006ء اور گشا بروم 2(8035 میٹر بلند) 22 جولائی 2006ء کو سَر کیا۔ کامیابیوں کا یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہا۔ بلو پیک (8047 میٹر بلند) اسے 19 دن میں سَر کیا۔۔۔
 
حسن سد پارہ سے گفتگو کافی دلچسپ جا رہی تھی، میں نے اس موقعہ پر یہ سوال کر دیا کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو کیسے سَر کیا، اس کارنامے کا احوال بتائیں؟ تو وہ یوں گویا ہوئےْ ۔۔۔ میں نے پاکستان کی تمام بلند ترین چوٹیاں جو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں سَر کرلیں، ان میں پانچ بغیر آکسیجن کے سَر کیں، اس کے بعد میں نے مئی 2011ء میں نیپال کا سفر کیا اور دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانے کی ٹھان لی۔ خدا کا شکر کہ میں نے 12 مئی 2011ء کو ماؤنٹ ایورسٹ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ میں واحد پاکستانی ہوں جس نے چار دن بغیر آکسیجن کے یہ اعزاز حاصل کیا۔ یہ عالمی ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے 11 دن میں ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کا ریکارڈ گنز بک میں درج ہے، میں نے بغیر آکسیجن کے چار دن میں یہ ریکارڈ قائم کیا۔ مگر گینز بک میں میرا نام درج نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں دنیا کا پہلا کوہ پیما ہوں جس نے ماؤنٹ ایورسٹ پر عَلم امام حسین ؑ لہرایا۔ میں نے جو ریکارڈ قائم کیا ہے اس کو ابھی تک کسی نے نہیں توڑا۔ اس کے باوجود اس عزت اور مقام سے محروم ہوں جو اس ملک کی اتنی بڑی خدمت کرنے والے کو ملنی چاہیے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو آج تک 600 سے زائد لوگوں نے سَر کیا ہے۔ کئی لوگ اس راہ میں مارے گئے۔ الحمد للہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ 4 دن بغیر آکسیجن کے، جان جوکھوں میں ڈال کے دنیا کی بلند ترین چوٹی پر پاکستان کا سبزہلالی پرچم لہرایا۔۔۔ 

میں جانتا تھا کہ یہ بہت ہی دشوار گذار، مہنگا شوق ہے، جس میں موت ہر دم آپ پر سوار ہوتی ہے، اسی بات کو پیش نظر رکھ کے میں نے ان سے پوچھا کہ یہ تو ایک مہنگا اور جان لیوا شوق ہے، آپ نے اس مشکل راہ کو منتخب کیا اور عظیم کارنامہ سرانجام دیا اس کارنامے پر حکومت نے کوئی انعام وغیرہ دیا؟۔۔ کارنامے اور حکومت کی بات پر وہ بے حد سنجیدہ ہوگیا اور اپنے دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے کہنے لگا۔۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ یہ ایک مہنگا شوق ہے اور خطرات تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ میں نے اس شعبہ میں جو کچھ کمایا تھا ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے پہ لگا دیا۔ مجھے کسی نے سپانسر نہیں کیا، نہ حکومت نے تعاون کیا۔ میں نے 28 لاکھ روپے نیپال حکومت کو ایورسٹ سَر کرنے کی رائیلٹی دی۔ تقریباً سات لاکھ روپے کا تو صرف لباس خریدا، چار دن بھوکا رہ کر اس کارنامے کو سرانجام دیا۔ اگر ہم کھانا کھائیں تو مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ رکاوٹیں آتی ہیں۔ میں نے جب یہ کارنامہ سرانجام دیا تو حکومت گلگت و بلتستان کے CM مہدی شاہ نے 10 کینال اراضی دینے کا اعلان کیا، اس اراضی کی نشاندہی بھی کی گئی اور کاغذات بھی بنائے گئے، مگر یہ سب کچھ دھوکہ اور جھوٹ ثابت ہوا۔ مہدی شاہ نے سیاسی مقاصد کے لیے یہ اعلان تو کیا اور فوٹو وغیرہ بنوائے مگر عمل درآمد نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے آج بھی مالی مشکلات میں زندگی بسر کر رہا ہوں۔۔۔

بات چیت کا سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہا تو میں نے پوچھا کہ آپ کی سابق صدر زرداری سے بھی تو ملاقات ہوئی، اس میں کیا بات ہوئی، انہوں نے کوئی امداد کی۔۔۔ ہاں صدر زرداری سے ملاقات ہوئی تھی، مہدی شاہ بھی ساتھ تھے، صدر زرداری سے ملاقات میں میں نے کوہ پیمائی کو اگلی نسلوں تک پہنچانے اور سکھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس مقصد کے لیے ایک سکول قائم کرنے کی بات کی مگر مجھے کسی قسم کے وسائل نہیں دیئے گئے۔ میں حسین الاصغر کا شکر گذار ہوں، انہوں نے مجھے پانچویں گریڈ کی پولیس میں نوکری دی۔ میری تنخواہ 26 ہزار ہے، آپ خود سوچیں کہ اس سے بھلا بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات کیسے پورے کئے جاسکتے ہیں۔۔۔ تو حکومت سے آپ کے کیا مطالبات ہیں میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ حسن سدپارہ نے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ سب سے پہلے تو میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مشن کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے ادارہ بنائے۔ میں نے جو ریکارڈ قائم کیا ہے اسے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروائے۔ یہ عالمی ریکارڈ ہے اور اس کو ابھی تک کسی نے نہیں توڑا۔ مجھے جو زمین اور انعامات الاٹ کیے گئے تھے وہ ملنے چاہیں، اس طرح کا سیاسی ڈھونگ قومی ہیروز کے ساتھ نہیں رچانا چاہیے جو مہدی شاہ نے رچایا ہے۔ اپنے رشتہ داروں کو زمین الاٹ کر دی ہے، میں آج تک محروم ہوں، میرے نام پر سیاست چمکائی گئی ہے۔
 
کوہ پیمائی شائد دنیا کا مشکل ترین کھیل اور شوق کہا جا سکتا ہے، میں جاننا چاہتا تھا کہ اس راہ میں انہیں کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، لہذا سوال کیا کہ کس قسم کی مشکلات آپ کو اس مشن کی تکمیل میں حائل ہوتی ہیں، ان کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟۔۔ اس کام میں کئی قسم کی مشکلات ہوتی ہیں، سب سے بڑی مشکل تو موسم ہوتا ہے۔ برفباری ہوتی ہے، ہوا ہوتی ہے، راستہ تو خطرناک ہوتا ہے، معمولی لغزش اور غلطی موت کے منہ میں ڈال دیتی ہے۔ میرے سامنے کئی لوگ مارے گئے، میں نے چار دن میں بغیر آکسیجن کے بیس کیمپ سے ایورسٹ اور پھر واپسی کا سفر مکمل کیا۔ یہ دنیا میں سب سے خطرناک کام ہے۔ رسی ٹوٹنے کا خطرہ ہے، ہوا اڑا کر لے جاتی ہے، ہاتھ پاؤں جل جاتے ہیں، جو کرکٹ کھیلتا ہے، ہاکی کھیلتا ہے، وہ کسی مشکل میں نہیں ہوتا، ہم تو مکمل رسک (Risk) پر ہوتے ہیں۔ ہم رات دن سفر کرتے ہیں، چونکہ موسم کے بارے اطلاعات پہلے سے لی جاتی ہیں اور یہ بہت محدود مدت ہوتی ہیں۔۔۔

حسن سد پارہ نے دنیا میں ایک اور کارنامہ سرانجام دیا جسے کسی دوسرے نے آج تک سوچا بھی نہیں، اس نے دنیا کی سب سے بلند چوٹہ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانے کیساتھ ساتھ پرچم امام حسین ؑ بھی لہرایا تھا، اس بارے میں نے پوچھا کہ آپ کو حرم امام حسین ؑ نے عراق میں بلوایا تھا اور انعامات سے نوازا۔ عَلم حضرت امام حسینؑ ایورسٹ پر لہرانے کا خیال کیسے آیا؟۔۔۔ وہ بے حد خوشی سے جواب دیتے ہوئے کہنے لگا۔۔ عراق حکومت اور حرم امام حسین ؑ والوں نے انٹرنیٹ پر میری تصاویر دیکھ کر مجھ سے رابطہ کیا اور 14 شعبان کے موقعہ پر مجھے سرکاری دعوت دی اور میرا ایسا استقبال کیا جو کبھی نہیں بھول سکتا۔ حرم امام حسین ؑ کی طرف سے مجھے جو انعامات دیئے گئے وہ میرے لیے اثاثہ و سرمایہ ہیں۔ پرچم امام حسین ؑ جو گنبد پر لہراتا ہے میرے لئے ہدیہ کیا گیا، جس کی اہمیت سے آپ آگاہ ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے چار کلو سونے کا تحفہ دیا گیا، اس کا تعلق بھی روضہ امام حسین ؑ ہے۔ یہ عزت اور اعزاز یقیناً امام حسین ؑ سے عشق و محبت کے باعث حاصل ہوا۔ آپ نے سوال کیا کہ مجھے ایورسٹ پر عَلم امام حسین ؑ لہرانے کا خیال کیسے آیا تو عرض ہے کہ جب میں نے 2004ء میں K-2 کو سَر کیا تو اس کی چوٹی پر بیٹھ کر مجھے یہ خیال آیا تھا اور یہ ارادہ باندھا تھا کہ جب ایورسٹ سَر کروں گا تو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کے ساتھ عَلم امام حسین ؑ جو استقامت و جرأت کی نشانی ہے، وہ بھی لہراؤں گا۔ اللہ کے فضل و کرم سے میں اس میں کامیاب ہوا۔

میں یہاں پر یہ بات ضرور کروں گا کہ ہمارے لیے یہ بات کس قدر شرمناک ہے کہ دوسری حکومت نے مجھے انعام و اکرام سے نوازا ہے اور اپنی حکومت نے جھوٹی طفل تسلیاں دے کر چلتا کیا ہے، حالانکہ جو لوگ شہروں میں گراؤنڈز میں چوکے چھکے لگاتے ہیں، انہیں بڑے بڑے انعامات و خطابات سے نوازا جاتا ہے جبکہ میں نے منفی 65 ڈگری پر دنیا کی بلند ترین چوٹی پہ جاکر چھکا مارا ہے اور پاکستان کا نام روشن کیا ہے مگر مجھے نظر انداز کیا گیا ہے۔۔۔۔ بات چیت کا سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہا اور میں اپنی معلومات میں اضافہ کرتا رہا۔ مایوسیوں میں گھرے اس شیر دل انسان سے میں نے ہلکے سے انداز میں یہ سوال بھی کر دیا۔۔ سنا ہے آپ کو کئی دوسرے ممالک میں نیشنلٹی اور رہائش کی بھی آفرز ہیں۔۔۔ حسن سد پارہ نے برملا اعتراف کیا کہ۔۔: جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے، مجھے دوسرے ممالک سے آفرز ہیں نیشنلٹی کے حوالے سے مگر میں پاکستان کا بیٹا ہوں، مجھے اس ملک کی مٹی سے پیار ہے، میں اپنے معاشی حالات، حکومتوں کے حالات اور رویوں کو دیکھتا ہوں تو کئی بار یہ ملک چھوڑنے کا دل کرتا ہے، مگر پھر وطن کی محبت غالب آجاتی ہے۔ دراصل میں اب بھی اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں، اگر حکمران میری سرپرستی کریں تو۔۔۔۔ 

آپ کے ذہن میں مزید کیا کرنے کا منصوبہ ہے؟۔۔ اس نے جواب دیا ۔۔ میں نے کہا تھا کہ میں صرف 4 سال کے عرصہ میں دنیا کے بلند ترین 14 پہاڑوں کو سَر کروں گا۔ مجھے وسائل درکار ہیں، اگر حکومت یہ کام کرے تو میں یہ کارنامہ سرانجام دے سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ ایک ٹریننگ سکول قائم کرنا چاہتا ہوں، تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کارناموں کو سرانجام دیتی رہیں۔ کامیابیوں کا سلسلہ پاکستان کے نام لگتا رہے۔۔۔۔ ایک اور بات مجھے یاد آگئی، میں نے اس بارے دریافت کیا۔۔ آپ سے پہلے بھی ایک پاکستانی نذیر صابر نے ایورسٹ کو سَر کیا، آپ اس بارے کیا کہیں گے؟ میں یہ بات چیلنج سے کہتا ہوں کہ نذیر صابر کے پاس نیپال حکومت کے محکمہ سیاحت کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے، نہ ہی اس کی تصاویر اس مخصوص مقام جہاں نیپال کی حکومت نے وہاں کے لوگوں کے خدا "بدھا" کا مجسمہ رکھا ہے، جو بھی ایورسٹ سَر کرتا ہے اس مقام پر تصاویر بناتا ہے، مگر نذیر صابر کی تصاویر اس مقام کی نہیں ہے اور نیپال کی وزارت سیاحت کی طرف سے اس کے پاس سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہیں، جس سے معاملہ مشکوک لگتا ہے۔ بہرحال وقت آنے پر اس کے راز کھل جائیں گے۔۔۔۔
 
جیسے آپ کو یہ شوق ورثہ میں ملا ہے، آپ کے بچے بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ میں نے اس کے ذہن کو پڑھتے ہوئے یہ سوال کیا تو اس کا جواب یہ تھا۔۔۔ میرا ایک چھوٹا بچہ ہے، جو اس میں دلچسپی رکھتا ہے اور کہتا ہے وہ کم عمر ترین پاکستانی کوہ پیما بننا چاہتا ہے، میں نے اسے کہا ہے کہ میری مثال کو سامنے رکھو، میں نے عالمی کارنامہ سرانجام دیا ہے اور حکومت نے جو رویہ اور سلوک روا رکھا ہے وہ دیکھو، یہاں ہیروز کو کوئی نہیں پوچھتا، اس لیے میں نے اسے روکا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ بھی میری طرح مالی مشکلات کا شکار رہے۔۔۔۔ مایوسیوں میں گھرے اور حکومت گلگت بلتستان کی زیادتیوں کے شکار حسن سد پارہ نے بتایا کہ وہ ان پڑھ ہے، تعلیم حاصل نہیں کرسکا، اگر حکومت وسائل مہیا کرے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اور ملک کا نام روشن کیا جاسکتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ پنجاب حکومت نے کئی جعلی ریکارڈ قائم کرکے جعلی گینز بک ورلڈ ریکارڈ ٹیم کے دورے بھی کروائے، یہاں ایک ورلڈ ریکارڈ ہولڈر دھکے کھاتا پھر رہا ہے، اس کا ریکارڈ ہی درج نہیں کراوایا جاسکا، عجیب چیز ہے یہ تعصب و تنگ نظری اور نااہلیت۔!
خبر کا کوڈ : 396711
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

good work Irshad bhai..keep it up.......Maula apko salamat rkhy..
ہماری پیشکش