1
0
Saturday 26 Jul 2014 18:06

اسرائیلی جارحیت اور مسلم ممالک کے حکمران

اسرائیلی جارحیت اور مسلم ممالک کے حکمران
تحریر: طاہر یاسین طاہر

طاقت کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ یہ کسی ضابطے، قانون اور قاعدے کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہ الگ بات کہ ہم طاقت کے اس سیلاب کے سامنے صرف دعاؤں اور التجاؤں کا ہی بندھ باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل امریکہ اور اپنے مغربی آقاؤں کی تھپکی سے ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ تا دمِ تحریر17روز سے صہیونی ریاست اپنے’’دفاع‘‘ کے حق کو استعمال کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں پر آسمان سے آگ برسا کر ان پر زمین بھی تنگ کرتی جا رہی ہے۔ امریکہ کا کہا ہی دنیا میں تسلیم کیا جائے گا، کیونکہ طاقت اسی کے پاس ہے۔ امریکہ نے کہہ دیا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع میں غزہ پر حملے کرنے کا حق حاصل ہے۔ اب کس میں اتنی مجال ہے کہ وہ امریکہ کے اس کہے کو چیلنج کرے؟ کوئی ایک مسلمان ملک؟ کوئی ایک مسلم ایٹمی طاقت؟ کوئی ایک طاقتور عرب ریاست؟ سب مگر دعائیں مانگنے والے ہیں۔
 
امامِ کعبہ نے فتویٰ جاری کیا کہ غزہ کے محصورین کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ کیا غزہ والوں کو مسلم امہ کے مرکز سے اتنی مدد کافی نہیں؟ جہاں کہیں بھی مسلمان مصیبت میں ہیں، فتویٰ کاری کے اس دور میں ایک ہی فتوے سے ان کی مصیبت کا حل نکل آتا ہے۔ کیا 57 مسلم ممالک اپنے "تزویراتی‘‘ اور ’’فتوہ جاتی‘‘ اختلافات بھلا کر غزہ کے مصیبت زدہ مسلمانوں کے لیے کندھے سے کندھا نہیں ملا سکتے؟ گذشتہ کالم میں بھی یہ سوال اٹھایا تھا۔ مکرر عرض ہے کہ کیا فلسطینیوں کی نسل کشی کے صرف اسرائیل اور امریکہ و یورپ ہی ذمہ دار ہیں؟ عدل کیا جائے تو جواب نفی میں ہے۔ وہ سارے عرب ممالک جنھوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں؟ مسلم حکمرانوں کا امریکہ و یورپ کے ساتھ ذاتی مفادات؟ اور مصر کا شرمناک کردار؟ کیا یہ سارے عوامل غزہ کے محصورین کی تباہی کا باعث نہیں؟ محسن نقوی یاد آتے ہیں۔
ہمارے سچ کی گواہی پہ انگلیاں نہ اٹھا
یہی تو عیب ہم اپنے ہنر میں رکھتے ہیں


مسلم حکمران ہوں یا عام مسلمان۔ ایک المیہ مشترک ہے، ظاہر و آشکار چیزوں کو چھوڑ کر ہم سارے مفروضوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے کسی سازش کی بو سونگھنے لگتے ہیں۔ اس روش کو ترک کرنا ہوگا۔ حماس کے مقابلے میں الفتح امریکہ کو عزیز کیوں ہے؟ ساری دنیا کو جمہوریت اور تحمل کا درس دینے والوں سے حماس کی کامیابی ہضم کیوں نہ ہوئی؟ تسلیم کر لینا چاہیے کہ فلسطینیوں کی آزادی کے لیے الفتح و حماس بھی یکجان نہیں۔ ورنہ کیا غلط کہ حکومت چاہے کوئی بھی بنائے، دونوں کو مل کر صہیونی بربریت کے خلاف برسرِ پیکار ہونا چاہیے۔ مل کر، الگ الگ نہیں۔ اسرائیل کے بارے میں اب بھی کسی کو شک ہے کہ وہ مشرقِ وسطٰی میں امریکہ و یورپی مفادات کا محافظ نہیں؟ بالکل ہے اور رہے گا۔ عرب بہار تو کسی عرب نے نہ دیکھی البتہ اس بہار کے دامن سے خوں رنگ خزاں مشرقِ وسطٰی کے باسیوں کو لہو میں نہلا رہی ہے۔
 
سارے عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں طاقت وروں کے زیر اثر ہیں۔ کیا عرب لیگ کا مقصد بشار الاسد کو دباؤ میں لانے تک ہی محدود ہے؟ یہ او آئی سی کیا بلا ہے؟ سنا ہے مسلم ممالک کی کوئی نمائندہ تنظیم ہے۔ یہ اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے کسی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیوں نہیں کرتی؟ کیا اس کے پلیٹ فارم سے یہ فیصلہ بھی نہیں ہوسکتا کہ تمام عرب حکمران اپنی دولت امریکہ و یورپ کے بینکوں سے واپس لائیں گے اور اس وقت تک تیل کی سپلائی بند رکھیں گے جب تک اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے تحت کارروائی کا آغاز نہیں ہوجاتا۔ یہ مگر میری خواہش ہے اور خواہشوں پہ عالمی معاملات نہیں چلتے۔
 
8 جولائی کو اسرائیلی جارحیت کی ابتدا سے تا دمِ تحریر غزہ کے نہتے محصورین پر 3250 فضائی حملے کیے گئے ہیں، جن میں شہادتوں کی تعداد 800 سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ زخمی مسلمانوں کی تعداد شہید ہونے والوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر فلسطینی بچوں کی تصاویر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ سارے عرب اور دیگر مسلم ممالک مل کر بھی اسرائیل کو جارحیت سے نہیں روک سکتے، اور روکیں بھی کیسے؟ وہ جو اپنی حفاظت کے لیے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں، ان سے یہ توقع کہ وہ اسرائیل ایسے طاقتور امریکی بچے کو ’’مستیاں‘‘ کرنے سے روک لیں گے، ایک طرح کا مذاق ہی تو ہے۔ 

اگر سعودی عرب نے اسرائیل سے لڑائی کرنی ہے تو کیا امریکی افواج اسرائیل کے بجائے سعودی عرب کا ساتھ دیں گی؟ بالکل نہیں۔ اور جب اسلامی دنیا میں محترم سمجھے جانے والے ملک کا اسرائیل سے کسی جھڑپ کا خطرہ ہی نہیں تو پھر انھیں خطرہ کس سے ہے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کے لیے امریکہ پر انحصار کیا ہوا ہے؟ کیا مصر اسرائیل پر چڑھ دوڑے گا؟ کیا اردن ہمت کرے گا؟ کیا ترکی یورپی یونین میں شمولیت کی امید کو مرنے دے گا؟ کیا پاکستان امریکہ کو ناراض کر دے گا؟ سادہ باتیں مگر ہم لوگ مشکل پیرائے میں کرنے کے عادی ہیں۔ نوشتہء دیوار تو یہی ہے کہ اسرائیل اپنی کرنی کرتا رہے گا اور سارے مسلمان مل کر دعا کرتے رہیں گے کہ یااللہ تو اسرائیل کو تباہ و برباد کر دے۔ کیا خبر کسی بڑے اسلامی مرکز سے امریکی حفاظت میں اجتماعی دعا کا بھی بندوبست ہوجائے۔ 

عیدالفطر پر امریکہ و یورپ اور اسرائیل کی تباہی کی دعائیں کی جائیں گی۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ اس سے محصور فلسطینیوں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ ان پر اسرائیل بمباری کر رہا ہے۔ زمینی کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے، وہ محصور ہیں۔ ان کے پاس نہ غذا ہے نہ دوا۔ نہ گھر نہ ٹھکانہ۔ مسلم امہ کا تصور کیا ہے؟ اس پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔ سرِ دست مسلم ممالک کے حکمرانوں بالخصوص عرب حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ امریکہ اور یورپی ممالک کو اس بات پر قائل کریں کہ اسرائیل ایک ظالم ملک ہے، جو نہتے فلسطینیوں کا قتلِ عام کر رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ حکمران کہہ نہیں پائیں گے۔ مسلم حکمران تو ایک طرف، بیشتر مسلم ممالک کی سرپرستی میں مسلمانوں کے ہی خلاف ’’جہاد‘‘ کرنے والے جنگجو اپنی وحشتوں کا رخ غزہ کی جانب کیوں نہیں کرتے؟
 
ملا عمر، مولوی فضل اللہ، عصمت اللہ معاویہ، مولوی عبدالعزیز لال مسجد والے، لشکر جھنگوی، سپاہِ صحابہ، حافظ سعید (لشکر طیبہ والے) اور ان کے دیگر فکری حواری اپنے ایمانی جذبے کو غزہ میں کیوں نہیں آزماتے؟ وہ داعش والا نیا خلیفہ صرف انبیاء علیہ السلام کے مزاراتِ مقدسہ کو ہی کیوں نشانے پہ لیے ہوئے ہے؟ عملاً مسلمان نے ہی مسلمان کو کمزور کیا۔ اسرائیل کو طاقتور کرنے میں جہاں امریکہ و برطانیہ نے خوب کرداد نبھایا وہاں عربوں کی نسلی و قبائلی عصبیتوں نے بھی صہیونی ریاست کی بنیادیں مضبوط کیں۔ بادشاہتیں مگر ظلم کو رواج دینے میں ساجھی بن کر زیادہ دیر قائم نہیں رہتیں۔ 67 سال سے جس طرح اسرائیل من مانی کئے جا رہا ہے اور مسلم حکمران صرف دعاؤں کے ذریعے اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ رویہ ظالم کو مزید دلیر کرے گا۔ اسرائیل کے ساتھ ویسا ہی کیا جانا چاہیے جیسا اس کے ساتھ لبنان میں حزب اللہ نے کیا تھا۔ مگر جہادی فتوؤں نے حزب اللہ کو شام میں الجھا کر رکھ دیا۔ اس فتوی کاری نے مسلمانوں کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔ 

جرات البتہ آج بھی نقشہ بدل سکتی ہے۔ پہل اگر عرب ریاستیں کریں تو اسرائیل کے سرپرست اسے راہِ راست پر لاسکتے ہیں۔ صرف دبئی والے ہی اگر ہمت کریں تو غزہ میں زندگی موت پر غالب آسکتی ہے۔ ہم مگر مسجدوں میں نعرہ بازی اور فتوہ گری سے دنیا پر غالب آنا چاہتے ہیں، جو ممکنات میں سے نہیں۔ مسلم حکمرانوں کو پہلے اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ امریکہ پر انحصار فوری ختم نہیں ہوسکتا مگر حکمتِ عملی سے مل کر اسے کم اور پھر ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب تک مسلمان امریکہ و یورپ پر انحصار کرتے رہیں گے، اس وقت تک نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل بم برساتا رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 401642
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
ji aap ka colam bahut acha hy aur fikri dawat deta hy aap ny baja farmaia ji k daon se qismat ni badlti ya fitry aur zakatyn de k ham log apny murda zameer ko mutmain karny ki by sood koshish kar rahy hyn mujhy yeh bat karty hoy shadeed dukh ho raha hy magr haqeeqt hy k jo log yeh samjhty hyn k yeh azab ghaza tak mehdood rahy ga to woh ahmqon ki janat myn rehty hyn mujhy shdeed ghusa ata hy un logon per bhi jo subah sham masoom bachon k lashon ko fac book numaish lagaty hyn aur myry dost mujhy kehty hyn teri soch intaha pasndana hy to agr aisa hy to mujhy fakhr hy is intha pasndi per k myn munafiqt ka qail ni bahr hal sahib aap apna qalmi jihad jari rakhiy sohna aap ko jaza e khair atta farmay ameen
ہماری پیشکش