0
Monday 3 Nov 2014 16:55

ترک صدر رجب طیب اردگان کے پرتعیش صدارتی محل پر نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا

ترک صدر رجب طیب اردگان کے پرتعیش صدارتی محل پر نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا
اسلام ٹائمز۔ ترکی کے نو منتخب صدر رجب طیب اردگان کے لئے نئی سرکاری رہائش گاہ کا انتظام کیا گیا ہے جو کہ وائٹ ہاؤس، کریملن اور بکنگھم محل سے بڑا ہے۔ عرب ٹی وی کے مطابق جنگل کی 50 ایکڑ زمین پر تعمیر کیا گئے اس محل میں ایک ہزار کمرے، زیر زمین سرنگیں، انسداد جاسوسی کے لئے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ محل جدید اور قرون وسطیٰ کے ادوار کے فن تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اس پرتعیش محل کی قیمت 350 ملین ڈالر سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے ترکی کی حزب اختلاف کے رہنماؤں اور ماحولیات کے ماہرین کو مایوسی ہوئی ہے۔ اردگان نے ترکی کے 91 ویں یوم جمہور کے موقع پر "آک سرائے" [سفید محل] کے نام سے پہچانے جانے والے اس شاہانہ کمپلیکس کا افتتاح کیا۔ یوم جمہور جدید ترکی کے قیام اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے گروپوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا اور اور اس محل کو ایردوآن کے آمرانہ رجحانات کا مظہر قرار دے کر اس پر تنقید کی۔ اپوزیشن کے رہنما اوموت اوران کا کہنا تھا کہ، "اس پیسے سے کیا نہیں کیا جا سکتا تھا؟" انہوں نے دعویٰ کیا کہ صدارتی بجٹ برطانوی شاہی خاندان کے بجٹ سے تین گنا زیادہ بڑا تھا اور اس رقم سے مریخ پر تین سیٹلائٹ بھیجے جا سکتے ہیں۔

ترک اخبار 'ٹو ڈے زمان' کے مطابق اوران نے کہا "ترکی کے بارویں صدر کے بجٹ کے سامنے تو ملکہ ایلزبتھ دوئم بھی غریب لگیں گی۔" اوران کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر بارک اوباما 214 سال قدیم وائٹ ہاؤس سے اپنے ملک کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔اوران نے مزید کہا "بارویں ترک صدر کے سرکاری گھر کے مقابلے میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کریملن محل ایک جھونپڑی لگتا ہے۔ وہ شاید سب سے زیادہ فرانسیسی صدر اولاندے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے۔ امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ترک ماحولیاتی ماہرین نے اس بڑے کمپلیکس کی جنگل کی زمین پر تعمیر کے خلاف بھی بھرپور احتجاج کیا تھا۔ اس محل کی تعمیر 2011 میں شروع کی گئی تھی۔ ترک دارالحکومت انقرہ کے مضافات میں واقع اس نئے محل میں اردگان کے منتقل ہونے کے ساتھ ہی انقرہ میں موجود کانکایا صدارتی محل سے علیحدگی اختیار کر لی ہے جس میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے بعد سے گیارہ ترک صدور رہائش رکھے ہوئے تھے۔ یہ زمین خود اتاترک کی ملکیت تھی جو کہ انہوں نے بعد میں ریاست کو عطیہ کر دی تھی اور اردگان اس کی تاریخی حیثیت سے واقف تھے۔

امریکا سے کام کرنے والے حالات حاضرہ کی ویب سائٹ المانیٹر کے مطابق اردگان کا کہنا تھا "ترکی اب پرانا ترکی نہیں رہا ہے۔ نئے ترکی کو کچھ انداز میں تبدیل کرنا پڑے گا۔ "ہمیں یہ پیغام دینے دینے کی ضرورت ہے کہ انقرہ سلجوق دارالحکومت ہے۔ ہم نے اس حوالے سے بہت زیادہ توجہ دی ہے۔ ہم نے اندرونی تفصیل میں عثمانی دور کی یاد کو تازہ رکھا گیا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ جدید دور کی عکاسی کرنے والے عناصر بھی شامل کئے گئے ہیں۔ ٹو ڈے زمان نے اردگان کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہوں نے اپنے مخالفین کا جواب دیتے ہوئے کہا "ان کے پاس اگر طاقت ہے تو وہ اسے مسمار کر دیں۔ انہوں نے بہت کوششیں کی مگر وہ اس کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میں اس کو کھولوں گا اور اس میں بیٹھوں گا۔"
خبر کا کوڈ : 417843
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش