0
Thursday 7 Aug 2014 22:25

شیعہ و سنی اتحاد میں رکاوٹ دست پنہاں کو پہچانیں

شیعہ و سنی اتحاد میں رکاوٹ دست پنہاں کو پہچانیں
تحریر: ساجد رسول
متعلم شعبہ صحافت سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر

ایران میں اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کے ساتھ ہی دنیا میں اتحاد بین المسلمین کا نعرہ ایک بار پھر بلند ہو گیا اور زمینی سطح پر لوگوں میں تبدیلی عام ہونے لگی، ہر طرف اتحاد اتحاد کی صدائیں بلند ہونے لگییں، امام خمینی (رہ) کا نعرہ ’’لا شیعہ و لا سنیہ اسلامیہ اسلامیہ‘‘ نہ صرف عرب ممالکوں نے تسلیم کیا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانان اس سے متعارف ہو کر اس نعرہ سے متاثر ہوئے، امام خمینی (رہ) نے اس وقت فرمایا کہ مسلمانوں کا اتحاد ہی ان کے سارے مسائل کا حل ہے اور جب تک وہ آپس میں متحد نہ ہو جائیں اور ایک دوسرے کو اپنے بھائی نہ سمجھیں گے، ایک دوسرے کا دکھ درد نہ سمجھیں، ایک دوسرے کی مدد کو تیار اور آمادہ نہ ہو جائیں گے تب تک وہ ہرگز بھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں، اس طرح سے امام خمینی ؒ نے مسلمانان کو شیعہ اور سنی جیسی مسلکی منافرت سے باہر آ کر وقت کے یزید سامراج اور صہیونیت سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی، انہوں نے فرمایا کہ شیعہ اور سنی اسلام کے دو بازوں کے برابر ہیں خدا نخواستہ اگر یہ آپسی اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے بیٹھے تو اسلام کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہے گا اور اگر یہ دونوں آپس میں متحد ہوکر رہیں گے تو دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا، اسطرح سے پوری دنیا میں اتحاد بین المسلمین کا جذبہ پیدا ہوگیا، لوگ ایک دوسرے کے گلے ملنے لگے، حتی شیعہ سنی آپس میں ایک دوسروں کی نماز جماعتوں میں شریک ہونے لگے۔ شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ عام ہونے لگا، خصوصا جو ریاستیں جابروں اور ظالموں کے ہاتھوں قابض ہیں ان کی سلامتی اور آزادی کے لئے یہ ایک مفید قدم ثابت ہونے لگا تھا۔ جونہی مغرب نے اس مرد آہن، مجاہد اعظم کے نعرے کی پذیرائی اور زمینی سطح پر اسکی سراہنا کو دیکھا ان کے اندر تھرتھراہٹ پیدا ہونے لگی، بالخصوص امریکہ اور اسرائیل اور ان کے حامیوں میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا۔

امریکہ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اگر دنیا کے مسلمانان بالخصوص مشرق وسطیٰ میں مسلمان متحد ہو گئے تو وہ شیطانی طاقتوں کی جڑیں اکھاڑ پھینکے گے، فلسطین اور دیگر مقبوضہ ریاستیں ایک دن ضرور آزاد ہو جائیں گی اور ہمیں اپنی شیطانی دکانیں بند کرنی پڑیں گی، چونکہ امام خمینیؒ نے امریکا کو پہلے ہی شیطان بزرگ کہا تھا اور مسلمانوں کو اس کی سازشوں سے باخبر رہنے کی پیشن گوئی کی تھی لیکن صد افسوس امریکا اور اسرائیل نے مل کر ایسی شیطانی سیاست کھیلی کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے پھر دور کردیا، شیعہ سنی تو دور خود سنیوں کو سنیوں اور شیعوں کو شیعوں سے دور کردیا اور ان کے فرقے فرقے کر دیئے، مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قتل و غارت پر آمادہ کیا۔ اس وقت بھی مسلمانوں کے سامنے اس وقت کا سب سے بڑا جو اندرونی چیلینج بنا ہوا ہے وہ اتحاد اسلامی کا فقدان ہے، مسلمان آج سب سے زیادہ پست، زلالت کا شکار ہوگیا ہے، لیکن اس بات کو سمجھنے کے لئے کوئی بھی آمادہ نہیں کہ مسلمانوں کی اس ابتری اور زلالت کی وجہ کیا ہے، عرب ممالکوں میں اس وقت جس قسم کے حالات بنے ہوئے ہے وہ قابل افسوس بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔

مسلمان اقوام بالخصوص بحرین شام، مصر، عراق، پاکستان اور دیگر ممالک میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بے دردی کے ساتھ قتل کر رہا ہے، انسانیت کا خون بہایا جا رہا ہے، ایک دوسرے انسانوں کے سروں کو کاٹ کر ان کے ساتھ فٹ بال کھیلا جا رہا ہے، مساجد اور دیگر آستانوں اور مقدسات اسلامی کو منہدم کیا جا رہا ہے حتی اصحاب پیغمبروں کی قبروں کے ساتھ توہین اور بےحرمتی کی جا رہی ہے اور عقل یہ سمجنھے سے قاصر ہے کہ اس کی اجازت کون سا مذہب یا فرقہ دے رہا ہے، اس جنگ میں کون شامل ہے اور اس کے پیچھے جو دستِ پنہاں ہے ان کی طرف کسی کا دھیان کیوں نہیں جاتا، ہمارے سامنے تازہ مثال عراق میں جاری بحران کی ہے، کس طرح سے مغربی میڈیا نے اس بحران کو شیعہ سنی جنگ میں بدلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس کے پیچھے کون سے محرکات تھے اور اس کا کیا مقصد تھا وہ یہ کہ عالمی سطح پر شیعہ سنی اختلافات کو جنم دینے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔

دوستو ہمارے اوپر اس وقت کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کس طرح سے ہمیں اتحاد بین المسلمین کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کر کے اسلام کی حفاظت کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اتحاد اسلامی کو نقصان پہنچانے میں کون سے چھپے ہاتھ ہیں، کون خود دور بیٹھ کر مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کر ایک دوسرے کا قتل کروا رہا ہے اس بات کی طرف خصوصی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، جب ہم اپنے مذہب کی طرف نظر کرتے ہیں ہمارا مذہب دنیا کا واحد ایسا مذہب ہے کہ جو نہ صرف اتحاد بین المسلمین کی دعوت دیتا ہے بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور انہیں اپنے حسن اخلاق سے متاثر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ کیا قرآن ہمیں اتحاد اسلامی کی دعوت نہیں دے رہا ہے، ہمارے سامنے قرآن سے بڑھ کر اور کون سی مثال ہو سکتی ہے جو کہتا ہے کہ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘ ہم پھر بھی کیوں فرقہ فرقہ مسلک مسلک کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان معمولی سا مسلکی اختلاف ہے جو کہ ہے اور رہے گا بھی لیکن ہم ان چیزوں کی طرف کیوں دھیان نہیں دیتے ہیں جو کہ ہم دونوں کے درمیان یکساں چیزیں ہیں، ہمیں اس طرح سے فرقہ فرقہ کی رٹ لگانے سے کیا حاصل ہوگا، کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ آپس میں متحد ہوکر اسلام اور اسکے قوانین کی بازیابی کے لئے کام کریں، کیا وقت ہم سے یہ تقاضا نہیں کرتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں پر ہونے والی زبردستی کی قتل و غارت اور بربریت خصوصاً اس وقت جو مسلمانان فلسطین پر ہو رہا ہے، بے تہاشا خونریزی کے خلاف اٹھیں اور مقابلہ کریں۔ ان کی آزادی کے لئے متحدہ طور اقدامات اٹھائیں، کیا ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں یا کہ ہم مظلوم اقوام کی صدائیں سننے کے باوجود ان کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے؟ کیا ہماری آنکھیں اس وقت غزہ پر ہونے والی مسلسل ظالمانہ اور جابرانہ حرکتوں کو نہیں دیکھ رہی ہیں یا کہ ہمارے ضمیر اب مردہ ہو گئے ہیں جو دیکھنے کے باوجود بھی ظلم کو محسوس نہیں کر رہے ہیں، شاید وقت ہم سے ان باتوں کی طرف توجہ کا تقاضا کرتا ہے لیکن ہم پھر بھی دشمنوں کے ریمورٹ کنٹرول پر کٹھ پتلیوں کی طرح آپسی منافرت اور فرقہ وارانہ فسادات میں مبتلا ہیں بلکہ میں یہ کہنا بھی غلط نہیں سمجھتا کہ ہم دراصل اپنے مذہب اسلام سے کوسوں دور ہیں اور خالی زبانوں سے مسلمان ہونے کا دعوا کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 403244
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش