2
0
Saturday 6 Apr 2013 17:33

عرب حکمران "موساد" کی عینک اتار کر دیکھیں

عرب حکمران "موساد" کی عینک اتار کر دیکھیں

اسلام ٹائمز- کویت کے اخبار "القبس" میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق عرب حکمرانوں کے رویئے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مضمون کے بارے میں مختصر رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ایک بڑی حقیقت جسے عرب دنیا کی جدید نسل فراموش کر چکی ہے یہ ہے کہ یہ پروگرام ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل رضا شاہ کی آمریت کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ ایرانی ڈکٹیٹر محمد رضا شاہ نے اپنے ایٹمی پروگرام کی بنیاد امریکہ اور مغربی ممالک کے تعاون سے رکھی تھی۔ چونکہ اس وقت ایران اور اسرائیل کے درمیان نہایت خوشگوار تعلقات استوار تھے لہذا بعید نہیں کہ اسرائیل ان ممالک میں سے ہو جو ایران اور امریکہ کے درمیان پائے جانے والے تعلقات کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ تھے۔ 

اس تاریخی پس منظر کے مد نظر اور امریکہ اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں مغربی دنیا کی موجودہ پریشانی کی وجہ کیا ہے؟ اور عرب خلیجی ریاستوں کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اس قدر نالہ و فریاد آخر کیوں؟ کیا ایران کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ عالمی برادری سے یہ سوال پوچھ سکے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایران میں سیاسی نظام کی تبدیلی اور ایران کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کی مرضی کے خلاف ایک آزاد اور خود مختار خارجہ سیاست اپنائے جانے پر اس قدر منفی پراپگنڈہ اور دشمنی کا اظہار کیا جا رہا ہے؟

انسانی اقدار کی پابندی:
ایران کے بارے میں ایک اور حقیقت بھی پائی جاتی ہے جس سے عرب دنیا کی نئی نسل غافل ہے اور نئی نسل کو جان بوجھ کر اس حقیقت سے غافل رکھا گیا ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے 1981ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کو اعلی انسانی اقدار کی خلاف ورزی کی بنیاد پر روک دیا تھا۔ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ محمد رضا شاہ کے دور میں شروع ہونے والا ایران کا جوہری پروگرام فوجی مقاصد کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ سب سے زیادہ تعجب والی بات یہ ہے کہ ایران کے روحانی پیشوا اس قدر اعلی انسانی اقدار کے پابند تھے کہ انکی یہ پابندی ملک کے جوہری پروگرام کے رک جانے کا باعث بن گئی۔ 

آج بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایران کا موجودہ ایٹمی پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کیلئے ہے اور کسی قسم کے فوجی مقاصد کا حصول اس پروگرام کا حصہ نہیں۔ لیکن دوسری طرف مغربی اور عرب حکام اس بات کا یقین نہیں کرتے بلکہ اس بات کو سننے پر بھی تیار نہیں۔ کیا عرب حکام کے درمیان کوئی بالغ اور عاقل شخص موجود نہیں جسکے ذہن میں یہ سوالات جنم لیں اور وہ انکا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرے؟ یا یہ کہ عرب حکام صرف ایسی رپورٹس اور اخبار پر توجہ دیتے ہیں اور ان پر یقین کرتے ہیں جو اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے "موساد" کی جانب سے ان کیلئے چنی جاتی ہیں اور انکے بارے میں اپنی مرضی کی وضاحتیں بیان کی جاتی ہیں؟

اجازت دیں عرب حکام کی سیاست کے بارے میں ایک اہم راز سے پردہ اٹھاوں۔ امریکہ کے ایک تحقیقاتی ادارے نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک سروے رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ عرب حکام عام طور پر ایران کے بارے میں مثبت نظر کے مالک نہیں کیونکہ وہ سب ایران کو اسرائیل کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے لئے فوری اور سیریس خطرہ نہیں سمجھتے جبکہ امریکہ اور اسرائیل کو ایسا سمجھتے ہیں۔ 

یہ بات واقعا انتہائی عجیب ہے کہ امریکہ میں چھپے ہوئے حقائق سے باخبر بعض افراد عرب حکام میں پائی جانے والی اس سوچ کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میرے اس دعوے کا ذریعہ ایک ایسا امریکی محقق ہے جس کی جانب سے پیش ہونے والے اعداد و ارقام پر کسی کو شک و شبہ نہیں۔ وہ شخص جنرل جارج لی بٹلر ہے جو امریکی فوج میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکا ہے جن میں سے آخری عہدہ امریکی وزارت دفاع میں اسٹریٹجک سروسز کا تھا۔ وہ 1994ء میں رٹائر ہو چکا ہے۔ اگر ان کی بایوگرافی کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیں تو بات لمبی ہو جائے گی اور ویسے بھی انکے بارے میں معلومات انٹرنٹ پر موجود ہیں۔ 

یورینیم انرچمنٹ ایران کا مسلمہ حق ہے:
نان الائنڈ موومنٹ کی جانب سے برگزار شدہ کانفرنس کی طرف پلٹتے ہیں جس میں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کچھ اہم سفارشات پیش کی گئی تھیں۔ 

اس کانفرنس میں انجام پانے والے دو اہم فیصلے ایسے ہیں جو ہمارے موضوع سے مربوط ہیں۔ پہلا یہ کہ یورینیم انرچمنٹ کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنا ایران کا بنیادی حق ہے۔ اور دوسرا یہ کہ مشرق وسطی کو ایٹمی ہتھیاروں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کر کے جوہری ہتھیاروں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی جانب سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ 

ان دو سفارشات کا نتیجہ کیا تھا؟ آخر مغربی ممالک اور مغربی ذرائع ابلاغ کیوں ان سفارشات سے چشم پوشی کر رہے ہیں؟

یہاں ایک اور نکتہ کی جانب توجہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ایک بے آسرا رژیم جو چاروں جانب سے خطرات سے گھر چکی ہے ! اور اس بے چاری کے پاس صرف 500 ایٹم بم ہیں ! جی، یہی امن پسند جمہوری رژیم ! یعنی اسرائیل، اسے نے اس کانفرنس کی سفارشات کے بارے میں کیا موقف اختیار کیا ہے اور اس کی بنیاد پر کیا فیصلے کئے ہیں؟ 
خبر کا کوڈ : 252044
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

good very nice
zabardast....................
ہماری پیشکش