0
Sunday 19 Aug 2012 10:15

او آئی سی کا سربراہی اجلاس، کس کے مفادات پورے ہوئے

او آئی سی کا سربراہی اجلاس، کس کے مفادات پورے ہوئے
تحریر: ہما مرتضٰی 

او آئی سی کی سربراہی کانفرنس اس اعلامیے کے ساتھ ختم ہوگئی کہ شام کے صدر بشار الاسد ملک میں جاری خانہ جنگی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، لہٰذا او آئی سی ممالک نے شام اور اس کے تنظیم سے منسلک تمام اداروں کی رکنیت معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شام کی رکنیت معطل کرنے کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ مسلم امہ تمام معاملات کا پرامن حل چاہتی ہے۔
 
اس انوکھے اور متوقع فیصلے پر ہم یہ سوال اٹھانے کا حق رکھتے ہیں کہ سعودی عرب کے سلطان شاہ عبداللہ کی دعوت پر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اس کانفرنس میں شام کے بارے میں جو فیصلہ کیا گیا، کیا واقعی وہ مسلم امہ کی آرزو کا غماز ہے یا مسلمانوں پر مسلط بادشاہوں، آمروں اور امریکہ کے کاسہ لیس حکمرانوں کی آواز ہے۔ ایک عرصے بعد او آئی سی کا سربراہی اجلاس طلب کیا گیا تو ہو سکتا ہے بعض سادہ لوح مسلمانوں کا خیال ہو کہ اس کانفرنس میں تمام مسلم ممالک کے مسائل کو زیر بحث لایا جائے گا اور ان کے حل کے لیے کسی قابل عمل حکمت عملی کو اختیار کیا جائے گا۔ افسوس کہ ایسے سادہ لوح مسلمان مایوس ہوئے ہوں گے، لیکن جاننے والے جانتے ہیں اور او آئی سی کا ٹریک ریکارڈ اس پر شاہد ہے کہ ایسا کچھ نہ ماضی میں ہوا اور نہ اب ہونا تھا۔ 

21 اگست 1969ء کو مسجد اقصٰی پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 دسمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔ 57 ممالک کی یہ تنظیم ابھی تک صرف راکھ کا ڈھیر ثابت ہوئی ہے، کیونکہ آج تک اس نے کوئی ایسا قابل فخر اقدام کیا ہی نہیں، جس پر یہ تنظیم مسلمانوں کی حقیقی امیدوں کا مرکز بن سکتی۔ پاکستان اس تنظیم کی موجودگی میں دولخت ہوگیا، ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سال تک جنگ جاری رہی۔
 
عراق امریکہ کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگیا اور دس لاکھ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے، افغانستان آج بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں چور چور ہے۔ فلسطینی شب و روز اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں، لبنان پر 2006ء میں 33 روز تک اسرائیل نے وحشیانہ جنگ مسلط رکھی، لیکن او آئی سی نے اپنا کوئی سربراہی ہنگامی اجلاس طلب نہ کیا۔ ظاہر ہے کہ جس تنظیم کا یہ ماضی ہو، اس کا اگر اچانک سربراہی اجلاس 25،26 سال کے بعد طلب کیا جائے تو اسے انہونی ہی کہا جائے گا۔
 
او آئی سی کی تماش بینی کے لیے ویسے تو مذکورہ مثالیں ہی کافی ہیں، لیکن کچھ اور بھی ذکر کر دی جائیں تو کیا مضائقہ ہے۔ لیبیا کی بربادی پر او آئی سی نے کوئی حرکت نہ کی۔ امریکہ کی ایران کیخلاف آئے روز پابندیوں اور دھمکیوں پر او آئی سی کچھ نہ کرسکی۔ بحرین میں عوام نے حکمران شاہی خاندان آل خلیفہ سے اپنے جمہوری حقوق کا مطالبہ کیا تو اس خاندان کو بچانے کے لیے سعودی فوجیں علاقے کے اپنے دیگر حواریوں کے ساتھ مل کر بحرین میں داخل ہو گئیں اور ابھی تک بحرینی عوام کو کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام کا مسئلہ سعودی عرب کے لیے اتنا اہم کیوں ہو گیا ہے۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطٰی کے متعدد ممالک میں عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھے تو سعودی عرب نے زیادہ تر حکمرانوں ہی کا ساتھ دیا۔ تیونس کے آمر کو اپنے ہاں پناہ دی۔ مصر کے حسنی مبارک کی آخری وقت تک حمایت جاری رکھی، یمن کے علی عبداللہ صالح کو محفوظ راستہ دینے میں سرگرمی سے کردار ادا کیا، لیکن شام کے معاملے میں سعودی عرب کا کردار بالکل یو ٹرن کے محاورے کا عکاس ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ایک ہی کلیہ سعودی عرب کے سارے کردار پر فٹ نظر آتا ہے اور وہ ہے امریکی مفادات کی پاسداری۔
 
شام کی حکومت ایک عرصے سے امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے، کیونکہ وہ اسرائیل کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل کی ہمسایہ عرب ریاستوں میں سے شام واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم نہیں کیا۔ فلسطین کی تمام آزادی پسند تنظیموں کی شام آج تک حمایت کرتا چلا آیا ہے۔ یہ درست ہے کہ شام میں بھی آمریت قائم ہے اور ہم آمریت کی حمایت نہیں کر سکتے، بلکہ ہم وہاں پر بھی ایک حقیقی عوام دوست اور عوام کی نمائندہ حکومت کی حمایت کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کے مفادات پورے کرنے کے لیے شام میں غیر ملکی ایجنٹ اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے گروہ داخل کر دیئے جائیں جو شام کے داخلی نظم کو تہ و بالا کر دیں۔ 

سعودی شاہی خاندان اگر شام میں عوام کی نمائندہ حکومت کا خواستگار ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے ہاں شاہی نظام ختم کرکے عوام کی نمائندہ حکومت کے قیام کے لیے قدم آگے بڑھانے چاہئیں۔ ممکن ہے ہمارے قارئین یہ سوچ رہے ہوں کہ مکہ میں شاہی فرمان کے مطابق منعقد ہونے والی او آئی سی کی سربراہی کانفرنس کا کوئی فائدہ نہیں نکلا، ہم کہیں گے کہ مایوسی کی ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ 

امریکہ یو این او کو اپنے مفادات کے لیے مسلسل استعمال کرتا چلا آرہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ آج دنیا کے بیشتر لوگ یو این او کو امریکہ کی کنیز سمجھنے لگے ہیں۔ جن لوگوں کو اقوام متحدہ سے عالمی سطح پر مظلوموں کی حمایت کے حوالے سے کچھ توقعات تھی آج وہ دم توڑ رہی ہیں۔ اسی طرح سے ضروری ہے کہ او آئی سی کی حقیقت بھی مسلمانان عالم پر آشکار ہو، تاکہ وہ اس سے اپنی امیدیں منقطع کرلیں۔ اس لیے کہ استعماری طاقتوں اور طاغوتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی تنظیموں اور اداروں سے مایوسی ہی کے نتیجے میں تبدیلی کا عمل شروع ہوگا۔

حکیم الامت علامہ اقبال نے امامت کے زیر عنوان سے اپنی نظم میں امام برحق کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ جو فرمایا ہے کہ وہ حاضر و موجود سے بیزار کرنے والا ہوگا، اس کا یہی مقصد ہے۔ آئیے اس خوبصورت نظم پر اپنی آج کی گفتگو تمام کرتے ہیں:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
خبر کا کوڈ : 188677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش