0
Saturday 15 Mar 2014 18:47

مغربی ڈبل اسٹنڈرڈ اور عالم اسلام

مغربی ڈبل اسٹنڈرڈ اور عالم اسلام
تحریر: جاوید عباس رضوی

یوکراین (Ukrine ) روس کا ہمسایہ ملک ہے جہاں سہ ماہ قبل اس وقت حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے جب ملک کے صدر نے روس کی طرف سے مالی امداد دینے کی یقین دہانی کے بعد یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا، یوکراین کی عوام چاہتی تھی کہ اس معاہدے پر دستخط ہو جائیں لیکن وہاں کی حکومت مغرب کی بجائے مشرق کے ساتھ سیاسی و اقتصادی تعلقات بڑھانے کے حق میں تھی، لہذا حکومت کے اس فیصلے کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئی اور ملکی دارالحکومت کے آزادی چوک میں مسلسل تین مہینے تک مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا، اس مدت میں یورپی و امریکی اعلیٰ عہدے دار اپنے مفادات کی خاطر یوکراین آتے جاتے رہے اور حسب دستور مظاہروں کو حکومت کے خلاف اکساتے و بھڑکاتے رہے، مخالفین میں تین ماہ سے چلی آ رہی یہ رسہ کشی اس وقت خطرناک مرحلے میں داخل ہوگئی جب کئی اہم حکومتی عمارتوں پر مظاہرین کا قبضہ ہوگیا اور اس طرح سے مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت سو افراد جاں بحق ہوگئے، ان خونین مظاہروں کے نتیجے پر امریکی اور یورپی ممالک کے وزراء خارجہ اس ماجرے میں بنفس نفیس وارد ہوگئے اور یوکراین حکومت کی شدید مذمت کے علاوہ اس کے خلاف شیطانی ہتھکنڈے (اقتصادی پابندیوں) کا منصوبہ پیش کرنے لگی۔

یوکراین کی حکومت اگرچہ اندرونی مظاہروں سے نمٹ سکتی تھی لیکن مغربی طاقتوں کی مداخلت اور دھمکیوں نے حکومت کو بےبس کر دیا اور آخرکار روس نواز یوکراین حکومت مخالفین کے لئے میدان چھوڑ کر مشرق اور مغرب کی اس جنگ میں ہار کر اقتدار کو مغرب نواز قوتوں کے سپرد کر گئی، یہ مغرب کا ایک رخ تھا جہاں مغربی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر اپنے تمام وجود کے ساتھ حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کی حمایت کرتی ہیں اور حکومتوں کو عوامی خواہشات کے سامنے سرنڈر کرنے کے لئے ان پر اقتصادی، سیاسی اور فوجی دباؤ ڈالتی ہیں اور کبھی اپنی لونڈی اقوام متحدہ کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کرتی ہیں تاکہ حکومتوں کو عوام کی بات سننے کے لئے مجبور کردیا جائے، یوکراین میں بالکل ایسا ہی ہوا اور اس سے پہلے بھی جنوبی سوڈان میں ایسا ہی ہوا، اور آج بھی ’’وینزویلا‘‘ میں ایسا ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ مغربی پالیسی کا دوسرا چہرہ بھی ہے جہاں ان کی آنکھوں پر پردے پڑ جاتے ہیں اور بڑے بڑے انسانیت سوز واقعات اور مظالم دیکھ کر بھی یہ طاقتیں اف تک نہیں کہتی بلکہ اکثر خود ظالم کی پشت پناہی اور حمایت کرکے ظلم کا وسیلہ بن جاتی ہیں تاکہ ظلم و ستم میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے یہ پالیسی وہاں پر اپنائی جاتی ہے جہاں ان کے مفادات ظالموں اور ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کے ساتھ وابستہ ہوں، اس موقعہ پر انکی زبان گنگ، انکے کان بھرے، انکی آنکھیں نابینا اور خود کومے میں چلے جاتے ہیں، اس مصلحت اندیشی میں نہ جمہوریت، نہ انسانی حقوق اور نہ آزادی کی باتیں انکے منہ سے نکلتی ہیں اور نہ حکومتوں کے خلاف اقتصادی، سیاسی اور فوجی دباؤ کی باتیں کی جاتی ہیں، خصوصی طور پر مسلمانوں کے متعلق ان کی پالیسی یہ ہے کہ انکے قتل یا انکے حقوق کی پائمالی پر تماشائی رول سے بڑھ کر ظالم کا رول ادا کیا جائے، چنانچہ فلسطین، مصر، سعودی عرب، بحرین، کشمیر اور برما میں ان کی پوری حمایت استعمار اور استبداد کو حاصل ہے۔

اسی بحرین کو لیجئے جہاں کی مظلوم عوام پچھلے 3 سالوں سے مطلق العنان شاہ حمد کے خلاف مظاہرے کررہی ہے، پرامن مظاہروں کا جواب گولیوں سے دیا جارہا ہے، ابھی تک سینکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی کردئے گئے، خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر بھی رحم نہیں کیا گیا، خود کو مسلمان جتانے والے ’’شاہ حمد‘‘ کے حکم سے متعدد مسجدیں منہدم کردی گئیں، خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے مسلسل واقعات رونما ہوتے ہیں زیر حراست اموات کا سلسلہ جاری ہے، یہاں کوئی بحرینی عوام سے نہیں پوچھنے والا کہ تمہارا مطالبہ کیا ہے، آپ کیوں تین سال سے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہو، کیوں تمہیں بےگناہ قتل کیا جا رہا ہے، درحقیقت بحرینی عوام کا کوئی بڑا مطالبہ نہیں ہے کہ جس کی اتنی بڑی سزا دی جائے، انکا مطالبہ صرف یہ ہے کہ انہیں آج کل کی ترقی یافتہ دنیا میں ووٹ دینے کا حق دیا جائے، انسانی حقوق اور آزادی کے ان مغربی ٹھیکیداروں سے پوچھا جانا چاہیئے کہ جب مسلمان کا مسئلہ ہو یا جہاں حقیقی طور پر انسانی حقوق کی پائمالی ہو رہی ہو وہاں کیوں تماری زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں، مشرق وسطیٰ کے ان ہی عرب بادشاہوں کو لیجئے کہ جنہوں نے اپنی عوام سے اپنے لوگوں سے تمام حقوق چھین کر انہیں سیاسی طور پر یرغمال بنایا ہے لیکن مغربی طاقتوں کے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جس کا وہ برملا اور کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں، امریکہ اور یورپی ممالک کو فقط اس صورت میں شیخوں کا اقتدار ناپسند معلوم ہو گا جب وہ انکی نوکری سے دستبردار ہونے کی سوچنے لگیں گے اور جب تک یہ نوکری اور فرمانبرداری برقرار ہے تب تک انکا اقتدار ٹھیک ہے انکی کرسی سلامت ہے اور عام لوگوں کے حقوق پائمال ہوتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 361971
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش