1
1
Friday 12 Sep 2014 20:30

اسرائیل کے قیام میں امریکہ کا کردار (آخری قسط)

اسرائیل کے قیام میں امریکہ کا کردار (آخری قسط)
تحریر: عرفان علی 

وڈرو ولسن کے تذکرے سے کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ پہلے صہیونی امریکی صدر تھے۔ ان کے پیشرو دیگر امریکی صدور بھی صہیونی اہداف کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ صہیونی سیاسی تحریک کے آغاز سے قبل ہی امریکی صدور جون ایڈمز، جون کوئنسی ایڈمز اور ابراہم لنکن نے فلسطین میں یہودیوں کے وطن کی بات کی تھی۔ جیوش ورچوئل لائبریری نے اس موضوع پر امریکی صدور کی رائے کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے۔ صدر ولسن کے بعد وارن ہارڈنگ، کیلوین کولج، ہربرٹ ہوور اور فرینکلن روزویلٹ بھی صہیونیوں کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ کیلوین کولج نے فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے بارے میں یہودیوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

ہربرٹ ہوور نے فلسطین مینڈیٹ میں برطانوی حکومت کی جانب سے فلسطین میں یہودیوں کی خواہش کے مطابق ان کے وطن کے قیام کے بارے میں پائی جانے والی گرمجوشی کا تذکرہ کیا تھا۔ 29 اگست 1929ء کو میڈیسن اسکوائر گارڈن میں جیوش آرگنائزیشن کے احتجاجی جلسے کے لئے تحریری بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے اشارہ کیا کہ ’’پچھلے دس سالوں میں اس سلسلے میں (یعنی یہودی وطن کے قیام کے لئے) کافی پیش رفت ہوئی ہے اور اس میں امریکی یہودیوں کا بڑا اہم کردار ہے۔‘‘ انہوں نے 11 جنوری 1932ء کو امریکن فلسطین کمیٹی کو پیغام میں بھی فلسطین میں یہودیوں کے وطن کا تذکرہ کیا۔ بالفور اعلامیہ کی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے 29 اکتوبر 1932ء کو امریکی صہیونیوں کی تنظیم (زایونسٹ آرگنائزیشن آف امریکا) کو جاری پیغام میں لکھا کہ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ فلسطین میں یہودی وطن کے کاز کے لئے امریکا کے صہیونی و غیر صہیونی یہودیوں نے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے وقت امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ امریکی صدر تھے۔ اسی نے ہٹلر کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ انہوں نے اپنے یہودی دوست ہنری مورجنتھاؤ کو اپنی حکومت میں وزیر خزانہ مقرر کیا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے ہنری نے اسرائیل کے قیام کے لئے بھرپور کردار ادا کیا۔ یہی شخص 1947ء تا 1950ء تک وہ یونائٹڈ جیوش اپیل کا چیئرمین رہا۔ اس تنظیم نے مذکورہ مدت کے دوران 46 کروڑ 50 لاکھ ڈالر جمع کئے۔ بعد ازاں یہی شخص ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد 1951ء سے 1954ء تک امریکن فائنانشل اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن فار اسرائیل کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین رہا۔ اس ادارے نے اسرائیل کے لئے 50 کروڑ ڈالر بونڈ کا اجرا کیا تھا۔ روزویلٹ کے دور صدارت میں امریکی وزرات خارجہ و دفاع کے بارے میں صہیونی یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ صہیونیوں کی طرفداری میں تساہل سے کام لے رہے ہیں۔ تب اسی ہنری مورجنتھاؤ جونیئر نے یورپ کے یہودیوں کے لئے امریکی امداد کے کاموں کی سربراہی کی۔ یہ شخص روزویلٹ کے ذریعے صہیونی مقاصد و اہداف کی تکمیل میں پیش پیش تھا۔ ہیری ٹرومین کے دور میں بھی یہ وزیر تھا لیکن بعد ازاں اس نے استعفٰی دے دیا تھا۔

روز ویلٹ کے دور صدارت میں ڈیوڈ نائلز بھی ان کا سیاسی مشیر رہا۔ یہ آدمی روز ویلٹ کے جانشین ہیری ٹرومین کے دور میں بھی بااثر مشیر تھا۔ اس نے بھی صہیونیوں کی بہت مدد کی۔ وائٹ ہاؤس اور صہیونیوں کے مابین اعلٰی سطحی روابط اور صہیونیوں کے حق میں راہ ہموار کرنے میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ صدر روز ویلٹ کی تقاریر تیار کرنے والا صہیونی سیموئل روزن مین ہی نہیں بلکہ صہیونی بن کوہن بھی ڈیوڈ نائلز اور فرینکفرٹر کی مانند صدر روز ویلٹ کے انتہائی قریبی معتمدین میں سے ایک تھا۔ متشدد نظریات کا پیروکار یہودی ریبائی اسٹیفن ایس وائز بھی روز ویلٹ تک رسائی رکھتا تھا۔ صہیونیوں کا لیڈر ہائیم وائز مین بھی روز ویلٹ پر اثر انداز تھا۔

یاد رہے کہ صہیونیوں نے فلسطین پر دہشت گردی اور سازشانہ طریقے اختیار کرکے قبضہ کیا اور امریکی صدر ہیری ٹرومین کے دور حکومت میں ناجائز نسل پرست یہودی یعنی صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کا یکطرفہ اعلان کیا تھا۔ ٹرومین، صدر روز ویلٹ کے دور میں نائب صدر تھا۔ ٹرومین 13 اپریل 1945ء کو صدر بنا اور 20 اپریل کو عالمی صہیونیت کی امریکی شاخ کا ترجمان ریبائی اسٹیفن وائز سے ملاقات کی۔ جب ٹرومین سینیٹر تھا تو ایک بالفور اعلامیہ پر بروقت عملدرآمد کا مطالبہ کرنے والی ایک تنظیم کا رکن بھی تھا۔ ٹرومین پر کتاب ’’پلین اسپیکنگ:این اورل بائیوگرافی آف ہیری ایس ٹرومین‘‘ کے مصنف مرلے ملر نے لکھا کہ ٹرومین نے ان سے گفتگو میں اسٹیفن وائز سے ملاقات کے بارے میں بتایا کہ وہ جانتے تھے کہ وہ فلسطین کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے اور یہ علاقہ دنیا کا ایسا حصہ ہے جس سے مجھے بے حد دلچسپی ہے۔ صہیونیوں اور ناجائز صہیونی ریاست پر کئی کتابوں کے مصنف کینیڈا کے دانشور پروفیسر پاؤل چارلس مرکلے کی نظر میں ٹرومین یہودی ریاست کے قیام کے لئے امریکی کمٹمنٹ کا قائل تھا۔(کتاب بعنوان: امریکی صدور، مذہب اور اسرائیل)۔

ناجائز صہیونی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے ریبائی ابا ہلل سلور، ڈیوڈ بن گوریان اور موشے شیرٹ بھی ٹرومین پر اثر انداز تھے، لیکن وہ ہائیم وائز مین سے متاثر ہوا تھا۔ چونکہ ٹرومین بھی بائبل کا قاری تھا اور وائز مین بھی مسیحیوں کو اپنا حامی بنانے کے لئے بائبل میں تحریر پیشن گوئیاں سناتا تھا۔ 16 اکتوبر 1947ء کو وائزمین نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں بھی حضرت اشعیاء کی پیشن گوئی بیان کی (یعنی مغربی ممالک کے عیسائی حکمرانوں کو لبھانے کی کوشش کی تھی)۔(حوالہ: صہیونی ابا ایبان کی خودنوشت)۔ روز ویلٹ کے انتقال پر اہم صہیونیوں کا خیال تھا کہ وہ ’’اپنے بہترین دوست سے محروم ہوگئے ہیں۔‘‘ وائز مین نے دسمبر 1945ء کو ٹرومین سے ملاقات کی اور اس کے بعد اپنا رویہ تبدیل کیا۔ صہیونی ریاست کے قیام سے قبل ان کی آخری ملاقات 18 مارچ 1948ء کو ہوئی۔ درمیانی عرصے میں ان کے درمیان مستقل رابطہ تھا۔

نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب تقسیم فلسطین کی قرارداد پیش ہوئی تھی تو امریکی حکومت نے اس کے حق میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر ان غیر مسلم ممالک پر دباؤ ڈالا جو گومگو کی کیفیت میں تھیں۔ یہ انکشاف صہیونیوں کی جانب سے امریکی دفتر خارجہ میں لابنگ کرنے والے سمر ویلیز نے اپنی کتاب وی نیڈ ناٹ فیل میں کیا۔ سمر ویلیز خود روز ویلٹ دور حکومت میں وزارت خارجہ کا انڈر سیکریرٹری تھا۔ یاد رہے کہ جب مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ میں زیر بحث تھا تو مغربی اقوام کی بڑے سیاسی معاملات میں امریکہ کی پیروی نے صہیونی کاز کو بہت فائدہ پہنچایا۔ یکم فروری 1944ء کو امریکی سینیٹ میں فلسطین میں یہودی وطن کے حق میں اور بالفور اعلامیہ میں کئے گئے عزم پر عمل کروانے کے حق میں ویگنر، ٹیفٹ قراردار منظور ہوئی تھی، اور ٹرومین کے دور صدارت میں بھی امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں کانگریس میں اس قراردار کی حمایت کر رہی تھیں اور الیکشن مہم میں بھی بڑھ چڑھ کر اس عزم کے حق میں بیانات جاری کرچکی تھیں۔ (حوالہ: کتاب بعنوان: نیشنل پارٹی پلیٹ فارمز، مدیر: ڈونالڈ بروس جانسن)۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے امریکہ و برطانیہ مختلف بین الاقوامی ایشوز پر ایک ٹیم کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، لیکن مسئلہ فلسطین پر برطانیہ کی لیبر پارٹی حکومت کے وزیر خارجہ ارنسٹ بیوین نے امریکیوں پر الزام لگایا کہ امریکی فلسطین میں یہودیوں کے وطن میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ نیویارک کے یہودیوں کی اصل زندگی سے انہیں اتنی دلچسپی نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اور دیگر ممالک نے برطانوی موقف کے خلاف اس مسئلے پر قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ امریکہ کے بعض سفارتکار فلسطین کو ٹرسٹی شپ نظام کے تحت رکھنا چاہتے تھے جیسا کہ اقوام متحدہ میں امریکی وفد کے سربراہ وارن آسٹن نے ٹرسٹی شپ کی حمایت کی۔ جیوش ایجنسی نے یہ سمجھا کہ امریکی مجوزہ (ناجائز) صہیونی ریاست کے مخالفین کو کنٹرول دینا چاہتے ہیں، لیکن صدر ٹرومین نومبر 1947ء میں یہودیوں سے حمایت کا وعدہ کرچکے تھے اور مارچ 1948ء میں جب یہ مسئلہ پیش آیا تو انہوں نے یہ غلط تاثر دیا کہ یہ تجویز تقسیم فلسطین کی حمایت سے مطابقت رکھتی ہے۔ 18 مارچ 1948ء کو ہائیم وائزمین نے صدر ٹرومین سے خفیہ اور آف دی ریکارڈ ملاقات کی، جس میں ہیری ٹرومین نے صہیونی لیڈر کو یقین دلایا کہ امریکہ مجوزہ صہیونی ریاست کو تسلیم کرلے گا، حالانکہ اس کے دوسرے دن اقوام متحدہ میں امریکی سفارتکار ٹرسٹی شپ کی حمایت کر رہے تھے۔ (کتاب بعنوان: دی پولیٹکس آف کرسچن زایون ازم، مصنف: پاؤل چارلس مرکلے)۔

اصل میں صدر ہیری ٹرومین اور صہیونیوں کے درمیان پل کا کردار ٹرومین کے یہودی دوست ایڈی جیکبسن نے کیا تھا۔ صہیونی ابا ایبان نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ ہیری ٹرومین نے اسے بتایا کہ امریکی وزارت خارجہ کے افراد ان کی اسرائیل نواز پالیسی کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن بہت جلد وہ جان جائیں گے کہ امریکی صدر کون ہے؟ اور مئی 1948ء میں ہیری ٹرومین نے ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کے اعلان کے چند منٹوں میں ہی اسے تسلیم کرنے کا فرمان جاری کرکے ثابت کر دیا کہ امریکی صدر کون ہے!
خبر کا کوڈ : 409374
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شکریہ۔ بے حد معلوماتی آرٹیکل۔
ہماری پیشکش