0
Wednesday 3 Apr 2013 20:00

بلیک سائیٹس اور اقوام متحدہ

بلیک سائیٹس اور اقوام متحدہ
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم 
 
جس طرح ایک کنبے میں اگر والدین انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں تو اس کنبے کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، بالکل اسی طرح چھوٹے اداروں سے لیکر قومی اور پھر بین الاقوامی سطح پر اگر انصاف کا نظام مفلوج ہو جائے تو ادارے، قومیں اور بڑی بین الاقوامی طاقتیں بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے بین الاقوامی امن کے لئے لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا، لیکن یہ بین الاقوامی تنظیم صرف امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئی اور کمیونسٹ بلاک کا اس ادارے پر کوئی اعتماد نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ سویت یونین کے صدر لینن نے لیگ آف نیشنز کے لئے "چوروں کے باورچی خانے" کے الفاظ استعمال کئے۔ 

دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر اقوام متحدہ کا وجود قائم ہوا تو اقوام عالم نے یہ سمجھا کہ اب بین الاقوامی سطح پر شائد غریب قوموں کو بھی انصاف ملے گا، لیکن بدقسمتی سے ساتھ ہی سلامتی کونسل بنا دی گئی، جس میں چند بڑی طاقتوں کو ویٹو کا حق مل گیا، اس لئے ابتدا سے ہی اقوام متحدہ کی بنیادوں میں ایک ایسا بارود بھر دیا گیا ہے جس نے اس کو اڑا کر رکھ دیا۔ اب اقوام متحدہ بین الاقوامی طاقتوں کا ایک طفیلی ادارہ بن کر رہ گیا ہے، جو وہی کچھ کرتا ہے جس کا اس کو بڑی طاقت امریکہ سے حکم ملتا ہے۔ چین کو بہت عرصہ اس ادارے کا رکن نہیں بننے دیا گیا، کشمیر کا مسئلہ پچھلے 65 سالوں سے حل طلب ہے۔ 

امریکہ کو عراق، افغانستان اور لیبیا پر حملہ آور ہونے کی کھلی چھٹی مل گئی، پاکستان کے اوپر غیر قانونی ڈرون حملے ہوئے، لیکن اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کے برعکس بین الاقوامی تنقید کا راستہ روکنے کے لئے اقوام متحدہ والے کئی دفعہ امریکہ سے وہ سوالات پو چھنے کی جسارت بھی کرتے رہے، جس کی ان کو اجازت نہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک انوسٹی گیٹر Ben Emmerson نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ ان خفیہ دستاویزات کو عام کرے، جن میں CIA کی طرف سے دوسرے ممالک کی امریکی جیلوں میں زیر حراست قیدیوں پر ٹارچر کے الزامات ہیں۔ یہ انسانیت سوز مظالم قیدیوں پر سابقہ صدر بش کے دور میں ڈھائے گئے۔
 
Ben Emmerson نے کہا ہے کہ امریکی حکومتوں نے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی ہیں اور اب وہ ان CIA کے لوگوں کو چھپا رہے ہیں، جو جنگی جرائم میں ملوث تھے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے نے Human Rights Council سے کہا کہ
"Despite this clear repudiation of the unlawful actions carried out by the Bush - era CIA, many of the facts remain classified, and no public official has so far been brought to justice in the United States".
یعنی بش کے دور حکومت میں سی آئی اے کے غیر قانونی اقدامات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے اور کسی سر کاری آفیسر کو ابھی تک سزا نہیں ملی۔
اقوا م متحدہ کے علم میں یہ آیا ہے کہ قیدیوں پر ظلم ہوا، ان کو پانی میں غوطے دئیے گئے، ان کو سونے نہیں دیا گیا اور ان پر کتے بھی چھوڑے گئے۔
 
سی آئی اے نے خفیہ جیل خانے یا ٹارچر سیلز بنائے ہوئے ہیں، جن کو "Black Sites" کہا جاتا تھا۔ اقوام متحدہ کے آفیسر نے کہا
"There is now credible evidence to show CIA 'Black Sites' were located on the territory of Lithuania, Morocco, Poland, Romania and Thailand, and that the officials of at least 49 other states allowed their airspace and airports to be used for rendition flights".
یعنی اب ایسی مصدقہ اطلاعات مل چکی ہیں کہ سی آئی اے کے ٹارچر سیلز جن کو بلیک سائٹس کہا جاتا ہے، لیتھوانیا، مراکش، پولینڈ، رومانیہ اور تھائی لینڈ میں واقعہ ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 49 دوسرے ممالک نے بھی امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے اور ہوائی راستے اس ٹارچر میں استعمال ہونے کے لئے دیئے۔ 

اقوام متحدہ کے آفیسر Ben Emmerson نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ ان آفیسروں کو سزا دی جائے۔ صدر اوباما نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس غیر انسانی کارروائی کو بند کروانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں کیا۔
قارئین، اقوام متحدہ کے اس آفیسر کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی تو نہیں کہ وہ امریکی حکومت کو ان سی آئی اے کے آفیسروں کو سزا دینے پر مجبور کرسکے، لیکن اس سے صدر اوباما پر دباؤ میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ بہر حال دنیا میں انصاف کی توقع اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بین الاقوامی ادارے برائے انصاف بڑی طاقتوں کے چنگل سے آزاد نہیں ہو جاتے۔
خبر کا کوڈ : 251234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش