0
Friday 19 Oct 2012 20:09

غیر فعال او آئی سی اسباب اور راہ حل

غیر فعال او آئی سی اسباب اور راہ حل
تحریر: سید اسد عباس تقوی

منظمة الموتمر الاسلامی جسے ہم او آئی سی کے نام سے جانتے ہیں، 1969ء میں معرض وجود میں آئی۔ خلافت عثمانیہ کے بعد مسلم دنیا میں ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی اور آج تک کی جاتی ہے، جو عالمی سطح پر مسلم امہ کے مفادات کے لیے آواز بلند کرے اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے۔ کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کا سب سے بڑا حکومتی اتحاد ہے، جس کے 57 ممبر ہیں۔ اس تنظیم کے بہت سے ادارے، شعبے اور مقاصد ہیں۔ اسلامک سمٹ مسلم ممالک کے بادشاہوں، حکمرانوں اور سربراہان کا فورم ہے، جسے اس تنظیم میں سب سے اعلٰی حیثیت حاصل ہے۔ وزرائے خارجہ کی کونسل او آئی سی کی پالیسیاں مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیم کے فیصلوں پر عملدرآمد پر نظارت کی ذمہ داریاں انجام دیتی ہے۔ جنرل سیکریٹریٹ او آئی سی کا اجرائی ادارہ ہے جو قبل ازیں بیان کردہ فورمز کے فیصلہ جات پر عملدرآمد کا ذمہ دار ہے۔
 
او آئی سی کے اب تک 11 سربراہی اجلاس ہوچکے ہیں۔ اس وقت سینیگال اس تنظیم کا چیئرمین ہے۔ اس تنظیم کے کئی ایک شعبہ جات بھی ہیں جو مسلم ممالک کے مابین سیاسی، معاشی، ثقافتی، سماجی، روحانی اور سائنسی میدانوں ہم آہنگی کے لیے سر گرم عمل ہیں۔ اس تنظیم میں بہت سی کمیٹیاں بھی ہیں، جن میں القدس کمیٹی، انفارمیشن اور ثقافتی امور سے متعلق کمیٹی، سائنسی اور تکنیکی امور سے متعلق امور کی ہم آہنگی کمیٹی قابل ذکر ہیں۔ تنظیم کے چارٹر کے مطابق اس تنظیم کے چند ایک اہم مقاصد درج ذیل ہیں:
 
1۔ ممبر ممالک کے مابین اخوت و اتحاد کے رشتے کو بہتر بنانا اور مضبوط کرنا 
2۔ مشترکہ مفادات کی حفاظت اور ممبر ممالک کے قانونی اہداف کی حمایت، نیز عالمی سطح پر درپیش چیلنجوں کے مقابلے میں ممبر ممالک کی کوششوں کو متحدہ اور ہم آہنگ کرنا
3۔ ہر ممبر ملک کے حق خودارادیت اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا احترام، نیز ہر ممبر ملک کی آزادی، استقلال اور علاقائی سالمیت کا احترام
4۔ کسی بھی ممبر ملک پر جبری قبضے کی صورت میں عالمی قوانین کے تحت اس کی مکمل آزادی اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرنا، نیز اس سلسلے میں عالمی و علاقائی تنظیموں سے تعاون کرنا
5۔ عالمی سطح پر ہونے والے سیاسی، معاشی اور سماجی فیصلوں میں ممبر ممالک کی بھرپور شرکت کو یقینی بنانا، تاکہ وہ اپنے مشترکہ مفادات کی حفاظت کر سکیں
 6۔ ریاستوں کے مابین عدل، باہمی احترام اور ہمسائیگی کی بنیاد پر بہتر تعلقات کی ترغیب دینا، تاکہ عالمی امن، تحفظ اور ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
 
7۔ فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرنا اور انھیں اس قابل بنانا کہ وہ علاقے کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اور اس خطے میں موجود مقدس مقامات کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی ریاست تشکیل دے سکیں، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو
8۔ معاشی ہم آہنگی اور مشترکہ اسلامی مارکیٹ کے حصول کے لیے، اسلامی ممالک کے مابین معاشی اور کاروباری تعاون کو فروغ دینا
9۔ اسلام کی تعلیمات اور اقدار کی تشہیر، فروغ اور حفاظت کے لیے جدت اور برداشت کی بنیاد پر اقدامات کرنا
10۔ اسلام کے حقیقی چہرے کا تحفظ، اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کے خلاف مبارزہ، تہذیبوں اور ادیان کے مابین مکالمے کو فروغ دینا
 11۔ عالمی سطح پر مشترکہ مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے اقدامات کرنا
12۔ ناگہانی آفات اور ایمرجنسی کے حالات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا اور ہم آہنگی پیدا کرنا
 
اس چارٹر کی اور بھی بہت سی شقیں ہیں، جن میں سائنسی، سماجی، علمی میدانوں میں ایک دوسرے سے تعاون اور اسی قسم کے دیگر شعبہ جات میں ہم آہنگی کو او آئی سی کے مقاصد میں سے بیان کیا گیا ہے۔ او آئی سی کا مندرجہ بالا چارٹر دنیا کی کسی بھی عالمی یا علاقائی تنظیم کے کاغذی چارٹر سے کم نہیں، فرق ہے تو دائرہ اختیار کا۔ کچھ تنظیمیں اس قسم کے دلکش و دیدہ زیب نکات کا پلندہ عالمی تناظر میں بناتی ہیں تو کچھ علاقائی یا ملکی تناظر میں۔ 

سوال تو یہ ہے کہ کاغذوں پر لکھے ہوئے ان نکات پر عمل درآمد کی کیا صورتحال ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کی اس تنظیم نے آج تک رپورٹوں اور چارٹروں کے میدان میں طالع آزمائی کی، جبکہ عملی سطح پر اس تنظیم کا کردار صفر رہا، بلکہ اگر اس کردار کو منفی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بیان کردہ مقاصد کی کونسی ایسی شق ہے جس کے بارے میں کہا جائے کہ اس کے حصول کے لیے عملی اقدامات کیے گئے۔ نذیر ناجی صاحب نے کیا خوب لکھا:
جہاں تک مجھے یاد ہے اس تنظیم نے مسلمانوں کے کسی گروہ یا ریاست کے لیے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ یہ ہمیشہ اس وقت حرکت میں آتی ہے جب امریکہ اور اس کے حواریوں کو اسلام کا نام استعمال کرکے اپنے اسٹریٹجک مقاصد کو آگے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ 

نذیز ناجی صاحب نے ”اسلامی کانفرنس، یااللہ خیر!“ کے عنوان سے لکھے گئے اس کالم میں او آئی سی کے متعدد کارناموں کا بھی ذکر کیا، جن میں اسرائیل سے امن معاہدے کے بعد مصر کو مسلم امہ میں واپس لانا، روسی افواج کو امریکی ایما پر افغانستان سے نکال باہر کرنے میں او آئی سی کا کردار قابل ذکر ہیں۔ اگر ہم ان کارناموں میں نائن الیون کے بعد کے واقعات مثلاً عراق پر حملہ، افغانستان پر حملہ، اسلام کے چہرے کو منظم انداز میں مسخ کرنا، مقدسات اسلام کی مسلسل توہین اور سب سے بڑھ کر رسول اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی گستاخی کے مسلسل واقعات پر غیر موثر احتجاج کو بھی شامل کر لیں تو قطعاً بے جا نہ ہوگا۔
 
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہمیں یعنی امت مسلمہ کو اس ادارے سے اس قدر توقعات کیوں ہیں؟
کیا ہم نہیں جانتے کہ اس ادارے میں موجود ممبران کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اپنے عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتے، بلکہ اس کے برعکس یہ حکمران اپنے وقتی اقتدار کو طول دینے کے لیے اپنے ہی عوام کے خلاف انتہائی اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں اس تنظیم سے یہ توقع رکھنا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے مشترکہ مفادات کے لیے کوئی موثر آواز اٹھائے گی، احمقوں کی جنت میں رہنا نہیں تو اور کیا ہے۔؟
 
اس امر میں دو رائے نہیں کہ مسلم امہ کو ایک ایسے عالمی ادارے کی ضرورت ہے، جس کے مقاصد او آئی سی کی طرح واضح اور آشکار ہوں اور یہ ادارہ ان مقاصد کے حصول کے لیے موجودہ ”او آئی سی“ کے برعکس موثر عملی جدوجہد کرے۔ پس حل کیا ہے؟ کیا ہم اس وقت کا انتظار کریں، جب اس تنظیم میں ایسے اہل افراد کی اکثریت ہو جو امت مسلمہ کے حقیقی نمائندے ہوں یا کچھ اور؟ 

میری نظر میں ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ او آئی سی میں مسلم امہ کی امنگوں کے ترجمان اور ان کے مفادات کے محافظ اہل نمائندوں کی آمد کا انتظار کرنے کے بجائے، عالم اسلام میں موجود دین اسلام کی حقیقی تعلیمات پر یقین رکھنے والی نیز ان تعلیمات کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک ایسا عالمی فورم تشکیل دیا جائے، جو عالمی سطح پر نہ صرف امت کے مشترکہ مفادات کی نگہبانی کرے، بلکہ حکومتی ممبران پر مشتمل او آئی سی کو بھی ایک مثبت اپوزیشن فراہم کرے، تاکہ عوام میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ادارہ صرف رپورٹیں شائع کرنے کے بجائے کسی حد تک عملی اقدامات بھی سرانجام دے۔ 

میری حقیر رائے میں عالم اسلام کی نمائندہ تنظیموں کا یہ فورم نہ صرف مندرجہ بالا مقاصد کو پورا کرے گا، بلکہ عالم اسلام کے حقیقی ترجمان کی حیثیت سے امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات کا محافظ اور نگہبان بھی ہوگا۔ الغرض یہ کہ وہ تمام توقعات جو ہم او آئی سی سے وابستہ کئے بیٹھے ہیں، کے پایہ تکمیل کو پہنچنے کی سبیل ممکن ہو پائے گی۔ علاوہ ازیں اس فورم کے ذریعے امت مسلمہ کے مختلف خطوں میں، اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے چلنے والی مختلف تحریکوں کو بھی ایک عظیم تر سائبان مہیا ہوگا، جس میں یہ تحریکیں نہ صرف ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں گی، بلکہ ایک دوسرے کی حامی و ناصر بھی ہوں گی۔
خبر کا کوڈ : 204830
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش