1
0
Friday 4 Apr 2014 13:14

سانحہ چلاس کو پیش آئے دو سال گزر گئے لیکن قاتل ابتک آزاد

سانحہ چلاس کو پیش آئے دو سال گزر گئے لیکن قاتل ابتک آزاد
رپورٹ: صادق مہدوی

28 فروری 2012ء کو گلگت بلتستان میں تاریخ کے گھناونے ترین جرم کا ارتکاب ملک دشمن دہشت گردوں نے کوہستان کے علاقے میں کیا اور باقاعدہ شناخت کے بعد ڈیڑھ درجن سے زائد موالیان کربلا کو شہید کیا گیا۔ گلگت بلتستان کے غیور عوام نے علماء کی رہنمائی میں صبر و شکر کا دامن تھامے رکھا اور اتحاد بین المسلمین اور علاقے اور ملک کے امن و امان کو قائم و دائم رکھا۔ اس عظیم سانحے کے فوراً بعد کوہستان کے عمائدین کا شہداء سے یکجہتی کرتے ہوئے احتجاج کرنا، دوسرے مسالک کے افراد بالخصوص خواتین کا شیعہ مسلک کے ساتھی مسافرین کو بچانا، اور حالات کی انتہائی خرابی کے باوجود نگر کے مومنین کا چلاس اور دیامر سے تعلق رکھنے والے افراد کو بحفاظت ان کے علاقوں تک پہنچانا اس خطے کے عوام کی عظیم انسان پرور روایات اور مذہبی اقدار کی پیروی کے ثبوت ہیں۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی عوام فرقہ واریت سے متنفر، امن پسند، محب وطن اور انتہائی شائستہ قوم ہے لیکن باہر سے چند دہشت گرد سرکاری ایجنسیوں کی سرپرستی میں عالمی استعمار کی ایماء پر ایسے بزدلانہ اقدام کر کے پورے علاقے اور ملک عزیز کی بدنامی کرا کر اپنے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سانحہ کوہستان کے معصوم شہیدوں کا چہلم بھی نہیں ہوا تھا کہ ان یزیدی پیروکاروں نے دوبارہ اپنے بزدلانہ عمل کا اعادہ کر لیا اور باقاعدہ منصوبے کے تحت گلگت شہر میں امن و امان کو پائمال کر کے دہشت گردانہ حرکات کا سلسلہ شروع کیا۔

3 اپریل کو گلگت میں بزور بازو ہڑتال کرواتے ہوئے ایجنسیوں کی پروردہ کالعدم تنظیم  کے کارکن کے ہاتھوں میں پھٹنے والے گرنیڈ نے چھ افراد کی جان لے لی اور اسی کی آڑ میں تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ایک جمع غفیر نے چلاس میں گلگت اور بلتستان جانیوالے مسافروں کو بالکل اسی انداز میں جس طرح کوہستان میں ایک مہینہ قبل کیا گیا تھا، پوری کانوائے کو روک کر مومنین کے ساتھ بربریت کی جو انتہا کر دی اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس گھناونے فعل کی تفصیل بچ نکلنے والے افراد کی زبانی منظر عام پر آ چکی ہے، جسے سن کے انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ مسافر بسوں کی پوری کانوائے کو روک کر لوٹ مار، مسافروں کی شناخت کے بعد لرزہ خیز قتل، ہاتھ پیر باندھ کر پتھروں سے اذیت دینا اور دریا برد کر دینا، گاڑیوں کا جلایا جانا اور دریا برد کر دینا، ایسے واقعات ہیں جو کہ ایک باقاعدہ تربیت یافتہ ٹیم ہی کر سکتی ہیں اور اس سے چلاس کے عوام کا کوئی تعلق نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس کے بعد صرف چار مہینے کے بعد سولہ اگست کو بابوسر کے مقام پر سانحہ کوہستان کو ری پلے کیا گیا۔ ان سب کے باوجود اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ صرف مقامی افراد نے کیا ہے اور ایجنسیاں ملوث نہیں، تو یہ اس کی جہالت کی انتہا ہوگی۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ چند ایجنسیاں جان بوجھ کر ایسے کام کرواتی ہیں تاکہ استعماری طاقتوں کے ناپاک عزائم کو آسانی سے پورے کروا سکیں۔ ملک کی نام نہاد آزاد عدلیہ اور میڈیا کے مکروہ چہرے بھی واضح ہو گئے اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ کٹھ پتلی ادارے دراصل ان شیطانی استعماری طاقتوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں جو انکے بڑوں کو ایوارڈز، ڈالرز دیتے، دورے کرواتے اور اپنی شہ سرخیوں میں ان کے نام ڈالتے ہیں۔ انہیں ملک کے عوام پر بیتنے والے مظالم اور عوامی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ انسانی اقدار سے ان کا دور سے بھی کوئی تعلق ہے۔ سیاسی کٹھ پتلی حکومت سے نہ کوئی امید پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ اب تو بے اختیار وزیراعلٰی اور اس کے کارندے بہ بانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، ہمیں تو پہلے سے ہی ان کی اوقات کا علم ہے۔

سانحہ کوہستان میں اسی وزیراعلٰی نے بیان دیا تھا کہ چونکہ سانحہ ہمارے علاقے میں پیش نہیں آیا اسلئے ہم کچھ نہیں کر سکتے، مگر اب گلگت ہیڈ کوارٹر اور چلاس کے انسانیت سوز واقعات نے روز روشن کی طرح واضح کر دیا کہ تم کہیں بھی کچھ کرنے کے اہل نہیں ہو۔ سب سے اہم معاملہ یہ کہ خطے کے باشعور افراد اور ذمہ داریوں سے آگاہ مختلف مکاتب فکر کے علماء ان واقعات پر کب تک کف افسوس ملتے رہیں گے؟ کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے، اور کب تک ہم بیرونی اور ایجنسیوں کی پروردہ قوتوں کے مظالم پر ان کے خلاف گلے خشک ہونے تک نعرے لگواتے اور جذباتی تقاریر کرتے رہیں گے؟ وہ بھی ان بےغیرت حکمرانوں کے خلاف جن کی بےبسی و لاچاری سب پر عیاں ہے۔ 

دوسری طرف حکومتی ایجنسیاں اس خطے کے عوام کو پاکستان مخالف ثابت کرنے میں مصروف دکھائی دے رہی ہیں۔ ایجنسیوں کو قاتلوں اور دہشت گردوں سے کوئی مطلب نہیں۔ اگر ایجنسیاں کچھ کرنا چاہتی تو کیا سانحہ کوہستان اور بابوسر کوئی کم اہم واقعہ تھا جس میں دہشت گرد پاکستان آرمی کے لباس میں آ کے خون کی ہولی کھیل کے رفو چکر ہوئے۔ ان دو واقعات پہ پاکستان آرمی نے ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی، چہ جائیکہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے دہشت گردوں کو گرفتار کرتے۔ سانحہ چلاس اور دیگر واقعات اس علاقے کے عوام کے لیے خطرہ کی گھنٹی تھی یا عوام کو متوجہ کرنے کا ایک کھیل کیونکہ ان سانحات کے بعد جن کاموں میں بہت زیادہ تیزی آ گئی ہے وہ امریکی تنظیموں بالخصوص یو ایس ایڈ کی گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 368929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
shame mehdi shah
ہماری پیشکش