2
0
Tuesday 3 Sep 2013 10:18

غادہ عویس کی کہانی، محض پروپیگنڈہ یا سچائی!!!

غادہ عویس کی کہانی، محض پروپیگنڈہ یا سچائی!!!
تحریر: این اے بلوچ

قطر کے عربی ٹی وی الجزیرہ کی رپورٹر غادہ عویس باغیوں کی جنسی حوس کا نشانہ بننے کے بعد کچھ عرصہ تو بولیں لیکن اب ان کی جانب سے مکمل سکوت ہوگیا ہے، اس کی کیا وجہ بنی کہ غادہ نے خاموشی اختیار کرلی ہے، دوسرا یہ کہ واقعہ پیش کیسے آیا اور اس میں کتنی صداقت ہے، اس بارے میں جب تحقیقات کیں تو ہمارے اوپر کئی بھید کھلے، وہ حقائق جس سے لوگ ابھی تک ناآشنا ہیں۔ غادہ کا تعلق لبنان سے ہے، وہ الجزیرہ سے قبل بی بی سی ریڈیو اور ٹی وی کیلئے کام کر چکی ہے، اس کے علاوہ غادہ نے ایک لبنانی ٹی وی الجدید میں بھی کچھ عرصے کیلئے کام کیا اور 2006ء میں اس نے الجزیرہ میں بطور رپورٹر کام کا آغاز کیا۔

غادہ سے متعلق چپھنے والی خبروں پر تحقیقات کا آغاز کیا تو پتہ چلا کہ وہ شام کے صنعتی شہر حلب کے اس حصے میں رپورٹنگ کے لئے داخل ہوئی جس پر القاعدہ نواز گروہ النصرہ فرنٹ یا جبھۃ النصرہ کا کنٹرول تھا، غادہ حلب کے اس حصے کی مکمل کوریج کرنا چاہتی تھیں اور اس کی خواہش تھی کہ وہ الجزیرہ کیلئے کچھ خاص رپورٹنگ کرکے دنیا کو حیران کرے، حلب النھر نامی مقام سے حسب معمول اس نے ایک اسپیشل رپورٹ ارسال کی، جس کے بعد غادہ اور الجزیرہ کے درمیان رابط منقطع ہوگیا، اس رپورٹ میں غادہ نے اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ وہ النصرہ فرنٹ کے اہم کمانڈروں سے انٹریوز کو اپنی اگلی رپورٹس میں نشر کرینگی، الجزیرہ کے لئے یہ ایک انتہائی اہم بات تھی کہ وہ کافی عرصے بعد شام سے براہ راست کوئی رپورٹ نشر کریگا، کیونکہ دمشق کی جانب سے الجزیرہ پر باغیوں کے حق میں رپورٹنگ کے الزام میں پابندی عائد تھی۔

24 گھنٹوں تک الجزیرہ غادہ سے رابط نہ کرسکا تو پہلے اس نے صرف ٹکر چلانے پر اکتفاء کیا، جس میں بتایا گیا کہ حلب میں ان کی رپورٹر غادہ سے ان کا رابط نہیں ہو پا رہا، امید ہے کہ وہ خیریت سے ہوں گیں، لیکن مسلسل کوششوں کے بعد جب رابطہ ممکن نہ ہوسکا تو الجزیرہ نے حلب میں النھر کے علاقے میں قابض گروہ سے گذارش کی کہ وہ غادہ کی تلاش میں ان کی معاونت کریں، لیکن تین دن تک غادہ کا کچھ پتہ نہ چل سکا، تیسرے روز غادہ نے اپنے ٹیوٹر پر پیغام چھوڑا کہ وہ حلب میں النصرہ فرنٹ کیخلاف بول رہی تھیں، جنہوں نے اس کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا۔

اس کے بعد غادہ اردن کے ایک ہوٹل میں اچانک نمودار ہوئیں، جہاں سے اس نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ اس قدر پریشان اور دکھی ہیں کہ اب میڈیا میں مزید کام نہیں کرسکتیں، استفسار پر اس نے اس موضوع پر مزید کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔ ادھر النصرہ فرنٹ ہی کے ذرائع نے یہ خبر نشر کردی کہ غادہ نے النصرہ فرنٹ کے حلب میں بیٹھے کمانڈر سے ملاقات کی اور ان کا تفصیلی انٹرویو لیا اور دو دن تک ان کے پاس مقیم رہیں، اس خبر کے نشر ہونے کے بعد غادہ کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں، جس پر غادہ نے دوبارہ ایک ٹوئٹ کیا کہ خود کو مجاہد کہنے والوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے، ان کا یہ ٹوئٹ کسی دھماکے سے کم نہ تھا، الجزیرہ میں گویا کہ ایک زلزلہ آگیا اور انہوں نے غادہ کو مجبور کیا کہ وہ ہرحال میں اردن کو چھوڑ کر فوراً قطر پہنچے۔

ادھر زنا کے الزام کے بعد النصرہ کمانڈر کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ غادہ عویس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی بلکہ وہ خود راضی تھیں کہ ان کے ساتھ معروف متنازعہ فتویٰ "جہاد النکاح" کیا جائے۔ دوسری طرف الجزیرہ نے غادہ کو اس بات پر رام کرلیا کہ وہ الجزیرہ چھوڑ کر نہیں جائینگی، اس کی عوض وہ اسے ایک لاکھ ڈالر، قیمتی ترین گاڑی اور رپورٹر سے ترقی دیکر اینکر بنا دیں گے (جو اب وہ بن چکی ہے)۔ واضح رہے کہ جہاد النکاح کی اصطلاح پہلی مرتبہ سعودی مشہور مبلغ العریفی کی جانب سے سامنے آئی، جس پر عالم اسلام اور خود سعودی عرب میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا، جس کے بعد فوراً وہ فتویٰ واپس لیا گیا اور بعد میں اس کا انکار کیا گیا، لیکن شام میں دنیا بھر سے آئے ہوئے دین سے ناواقف اور جرائم پیشہ افراد کے لئے بس ایک بہانہ چاہیے تھا اور اب وہ اس فتوے کی وضاحت اور واپسی کے بعد بھی عملی طور پر اس پر عمل پیرا ہیں۔

دوسری جانب ابھی بھی بہت سے عرب ممالک خاص طور پر تیونس اور مراکش سے لڑکیوں کو بہکا کر شام روانہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ آئے روز اخبارات اور ٹی وی پر ایسے متاثرہ خاندانوں کی فریادیں سننے کو ملتیں ہیں جن کی بیٹیاں شام کے محاذ پر پہنچی ہوئی ہیں۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ خود ترکی جو کہ شام میں شدت پسندوں کی ترسیل کا اصل ذریعہ ہے، سے بھی لڑکیوں کی شام روانگی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، تاہم یہ تعداد باقی ملکوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ دوسری جانب غادہ نے رپورٹر سے اینکر، تنخواہ میں اضافہ، قیمتی ترین گاڑی اور ایک لاکھ ڈالر پر خاموشی سادھ لی ہے، وہ اب اس موضوع پر مزید کچھ نہیں کہنا چاہتیں۔
ذرائع:
1۔ الاحرار اخبار
2۔ الجدید چینل
3۔ زھرۃ الخلیج میگزین
4۔ الجزیرہ آرکائیو
خبر کا کوڈ : 298026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ۔ ۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ خود ترکی جو کہ شام میں شدت پسندوں کی ترسیل کا اصل ذریعہ ہے۔ ۔ ۔
مگر بحیثیت اسلامی ویب سایٹ کے رپورٹر کے انہیں اس لفظ یعنی دلچسپ کے بجایے افسوسناک لکھنا چاہیے تھا، کیونکہ اس فتویٰ کے بعد رونما ہونے والے واقعات عالم اسلام کیلیے دلچسپ نہیں بلکہ انتہائی افسوسناک اور باعث بدنامی ہیں۔
Pakistan
توجہ دلانے کا بہت بہت شکریہ
ہماری پیشکش