1
1
Friday 21 Mar 2014 00:34

عید نوروز مبارک

از کوئے یار می آید نسیم باد نوروزی
عید نوروز مبارک
تحریر: عرفان علی

21 مارچ، عید نوروز عالم افروز مبارک ہو۔ ایران و افغانستان کے مسلمانوں کو نیا سال مبارک ہو۔ کوئٹہ سے سے ڈیرہ اسماعیل خان تک اور گلگت بلتستان سے کراچی تک پھیلے ہوئے شیعہ مسلمان بھی عید بہار منانے میں مصروف ہیں۔ وسطی ایشیاء کے ترک و فارسی زبان مسلمان میلوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ قفقاز کے عجمی ہوں یا شام و لبنان کے علوی عرب یا مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے کرد ہوں، سبھی کی ثقافت عید نوروز کے بغیر ادھوری ہے۔ یہ عرب عجم اور سنی شیعہ مسلمانوں کے اتحاد کی عید ہی نہیں بلکہ یہ مسلمانوں اور زرتشت پارسیوں کے مابین محبتوں کے فروغ کی عید بھی ہے۔

فضا یا مقلب القلوب والابصار، یا مدبر اللیل والنھار، یا محول الحول والاحوال، حول حالنا الی احسن الحال کے ورد سے معطر ہو رہی ہے۔ اہل فارس یہ عید زمانہ قدیم سے مناتے چلے آئے ہیں۔ اس دن کی اپنی تاریخی اہمیت اسلام میں بھی ہے۔ بعض افراد دعویٰ کرتے ہیں کہ مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت و وصایت کا رسمی اعلان اسی دن ہوا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس دن منجی عالم بشریت کے ظہور فرمائیں گے۔ ایک مصنف نے لکھا کہ پہلی بار سورج اسی دن دنیا پر طلوع ہوا تھا۔ طوفان نوح ختم ہوا تھا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ایک پہاڑ پر رکی تھی۔ نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفٰی (ص) پر وحی کا آغاز اسی دن ہوا تھا۔ درختوں پر شگوفے پھوٹے تھے۔

مجھے نہیں معلوم کہ یہ ساری باتیں اسی دن سے مخصوص ہیں یا نہیں، لیکن مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے دیہات میں بھی بہار کی آمد کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پاکستان و ہند میں بسنت یا جشن بہاراں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہندی ثقافت میں ماگھ کے مہینے میں بھی بہار کا استقبال کیا جاتا ہے۔ میری نظر میں یہ اپنی جگہ خود ایک کارنامہ ہے کہ ایران میں ہجری شمسی کیلنڈر رائج ہے، ہم ہجری قمری کیلنڈر پر عمل پیرا ہیں۔ کائنات میں کارفرما چار موسم شمسی کیلنڈر کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ سردی، گرمی، خزاں اور بہار، یہ چار موسم نظام قمری نہیں بلکہ نظام شمسی اور عیسوی کیلنڈر کے مہینوں کے مطابق آتے جاتے ہیں۔

وسطی ایشیائی ممالک، ایران اور قفقاز کی اس ثقافت کے پیش نظر اقوام متحدہ نے بھی اسے سالانہ بنیادوں پر منانے کا اہتمام کیا ہے۔ چند سال قبل عراق کے صدر جلال طلبانی، تاجکستان اور دیگر ممالک کے حکمران ایران میں عید نوروز منانے جمع ہوئے تھے۔ یہ خاکسار بھی اپنے خانوادے کے ہمراہ ایک مرتبہ نوروز کے ایام میں ایران ہی میں موجود تھا، لیکن سال 2007ء میں عید نوروز ایام عزا میں آئی تھی۔ ہم انیس صفر کو قم پہنچے تھے۔ چہلم میں وہاں کی عزاداری میں شریک ہوئے۔ شہادت جناب رسول خدا (ص) اور امام حسن (ع) اور اس کے بعد شہادت امام علی رضا علیہ السلام کی عزاداری مشہد میں کی تھی۔ حرم مطہر امام الرؤف حضرت علی ابن موسٰی الرضا (ع) کے باب جواد سے ملحق صحن میں عید نوروز کے دن نائب امام زمان امام خامنہ ای کے خطاب کو سنا اور ان کی زیارت کی۔ ایک ایرانی نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو، میں نے جب پاکستان کا نام لیا تو امام خامنہ ای کی ایک تصویر مجھے تحفے میں دی۔ مجھے کئی سال پہلے تہران یونیورسٹی میں ادا کی گئی نماز جمعہ یاد آگئی، جب ساتھ بیٹھے ایرانی کو معلوم ہوا کہ میں پاکستانی ہوں تو مجھے مہمان بننے کی دعوت دی اور زیارت عاشورا کے کارڈ کا تحفہ دیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ پاکستان آچکے ہیں۔

عزاداری کے ایام میں ایرانی نوروز سادگی سے مناتے ہیں۔ مداح اہلبیت (ع) سعید حدادیان نے رواق امام خمینی میں دعائے کمیل کی قرات کی۔ میرا بیٹا مہدی شاید رو رہا تھا، وہاں ایک بزرگ ایرانی خاتون نے ٹافی نکال کر دیں اور اس کی دلجوئی کرنے لگیں۔ شور مچاتے بچوں پر ایرانیوں کو گرجتے برستے نہیں دیکھا۔ نوروز کے ایام میں مشہد سے براستہ تہران قم واپسی کے سفر میں جگہ جگہ ایرانیوں کو بچوں کے ساتھ چھٹیاں مناتے دیکھا۔ اصل میں ہمارے معاشرے کی طرح ایرانی عید بھی بچے ہی صحیح طور پر منا رہے ہوتے ہیں۔

عید نوروز کے حوالے سے پاکستان میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ بعض چینلز پر اس کی مذہبی حیثیت پر شکوک و شبہات پھیلانے کی سازش کی گئی، لیکن عید بہار منانے سے روکنے والے خزاں کے پتوں کی طرح جھڑ گئے۔ بہار سے منہ کیسے موڑا جاسکتا ہے۔ عالم اسلام کی ایک بہت بڑی عید ربیع الاول میں منائی جاتی ہے۔ اس عربی لفظ ربیع کا مطلب بھی تو بہار ہی ہے، عرب دنیا میں انقلاب کو بھی عرب بہار سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ فلسفہ عید نوروز ہی نے دنیا کو دیا ہے کہ دنیا میں بہار کا موسم ہر سال ایک نیا پن لاتا ہے۔ سورج اور زمین سمیت اس پورے نظام شمسی میں ایک تحول جنم لیتا ہے، ایک گردش ہوتی ہے اور زمین ایک نئی زندگی پاتی ہے۔ کسان ہی بتا سکتے ہیں کہ ربیع کی فصل کیا ہوتی ہے۔

بات یہ ہے کہ ہمیں عید نوروز سے اس لئے بھی دلچسپی ہے کہ یہ کوئے یار سے نئے دن کی خوشبو دار تازہ ہوا کا جھونکا لاتی ہے۔ روزنامہ کیہان میں شایع ہونے والے ایک اشتہار پر شایع یہ شعر مجھے پسند آیا کہ زکوی یار می آید نسیم باد نوروزی۔ اب میرے ہم وطن مجھ پر برس نہ پڑیں کہ اتنی مشکل فارسی کیوں لکھی۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کر دوں کہ کوئے یار ایسی اصطلاح ہے جو اردو ادب میں رائج ہے۔ فیض احمد فیض نے بھی تو لکھا تھا جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔ فارسی میں بڑی ے میں نے نہیں دیکھی۔ اور وہ افراد جو سپر انقلابی بنے پھرتے ہیں اور ہر بات میں اسلام اسلام جن کا ورد زبان ہے، ان کی خدمت میں عرض کردوں کہ نائب مہدی امام خمینی کی شاعری کے مجموعے دیوان امام کی پہلی نظم کا عنوان ہی عید نوروز ہے۔ یہ انسان کامل کہتے ہیں کہ:
باد نوروز وزیدہ است بہ کوہ و صحرا 
جامہ عید بپوشند، چہ شاہ و چہ گدا
ہمہ در عید بہ صحرا و گلستان بروند 
من سرمست زمیخانہ کنم رو بہ خدا
عید نوروز مبارک بہ غنی و درویش 
یار دالدار! زبتخانہ دری را بگشا

اگر امام خامنہ ای کا پوچھتے ہیں تو وہ ہر عید نوروز پر ملت ایران کے نام اپنا پیغام ریکارڈ کرواتے ہیں اور اسی عید بہار کی مناسبت سے ہر سال مشہد میں حرم پاک امام رضا (ع) میں قوم سے خطاب کرتے ہیں۔ ویسے بھی سلمان فارسی (رض) کی قوم کے بارے میں ہی خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) (روحی و جسمی لہ الفداء) نے فرمایا تھا کہ اگر ایمان اوج ثریا پہ ہو تو وہاں سے بھی اسے زمین پر اتار لائے گی، سلمان فارسی (رض) کی قوم۔ اب مجھ سے نہ پوچھیں کہ اسلام اور نوروز میں کیا ربط ہے۔ امام خمینی کی یہ نظم پڑھیں، نافلہ پڑھیں، بچوں کو عیدی دیں، فقراء و مساکین کی مدد کریں اور عید نوروز انجوائے کریں۔ 
بہ ہمہ جہان عید سعید نوروز مبارک! سلام از پاکستان۔
خبر کا کوڈ : 364121
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

دنیا کے تمام فطرت پسند انسانوں کو فطرت کے حسن کی تجدید کی عید مبارک ہو
ہماری پیشکش