0
Tuesday 22 Apr 2014 14:50

ظلم کی داستان

ظلم کی داستان
تحریر: نعیم عباس
جامعۃ الکوثر اسلام آباد


ظلم کی داستان قدیمی ہے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ظلم کی ابتدا  اس وقت ہوئی جب فرزندان آدم میں سے قابیل نے ہابیل  کو قتل کیا جبکہ درحقیقت اس کا آغاز اس سے بھی پہلے ہوا کیونکہ جب ہم قرآن میں تخلیق آدمؑ کے بارے جائزہ لیتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ جب اللہ نے فرمایا۔ انّی جاعل فی الارض خلیفۃ  (البقرہ 30)۔ میں زمین میں ایک جانشین بنانا چاہتا ہوں، میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں جو میرا جانشین ہو گا تو اس پر ملائکہ بول اٹھے۔ اتجعل فیھا من یفسد فیھاویسفک الدماءونحن نسبح بحمدک و نقدس لک قال انّی اعلم ما لا تعلمون (البقرہ 30)۔ کیا تو اس میں ایسا نائب بنائے گا جو اس میں خرابی پیدا کرے گا اور خون خرابہ کرے گا حالاں کہ ہم تیری تعریف کیساتھ تسبیح کرتے اور تیری پاکیزگی کو سراہتے رہتے ہیں اور اس نے کہا۔ "یقین جانو کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے"

فرشتے اللہ کی معصوم مخلوق ہیں اس سوال میں نہ تو اعتراض تھا اور نہ ہی اس میں کوئی جذبہ مخالفت کارفرما تھا بلکہ یہ ایک حقیقت کی جانب اشارہ تھا کہ اس سے قبل وہ کوئی ایسا منظر دیکھ چکے تھے جس کی بنا پر یہ سوال اٹھایا کیونکہ بعض مفسرین کی یہ رائے ہے کہ فرشتوں کی پیشن گوئی اس وجہ سے تھی کہ "آدم روئے زمین کی پہلی مخلوق نہ تھے بلکہ اس سے قبل بھی دیگر مخلوقات تھیں جنہوں نے نزاع ،جھگڑا اور خون ریزی کی تھی۔"(تفسیر نمونہ جلد1 ص151)۔ مفسرین کے اس قول سے  اتنا تو ظاہر ہوا کہ آدمؑ سے قبل بھی ظلم ہوا تھا لہذا ظلم کے بارے سب سے اول آواز اٹھانے والے اللہ کے معصوم فرشتے تھے۔ جس کا جواب اللہ نے دیا کی تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔

اولاد آدمؑ میں ہابیل کے قتل سے لیکر آج تک ہر دور ہر زمانے میں ظلم کی ایک نئی داستان رقم ہوتے چلی آئی اور دوسری جانب اللہ کی طرف سے سلسلہ ہدایت بھی جاری رہا شریعتیں آتی رہیں انبیاءؑ مبعوث ہوتے رہے، یوں یہ دونوں کاروان ہدایت و ظلم ساتھ ساتھ چلتے رہے کبھی ظلم کا لیڈر فرعون تو اس کے مقابل کاروان ہدایت کا سربراہ موسیٰ کلیم اللہ۔ کبھی کاروان ظلم کا علمبردار نمرود تو دوسری جانب ہدایت کا علم اٹھائے ہوئے جناب ابراہیمؑ خلیل اللہ۔ وقت اپنی سانسیں لیتا رہا اور کاروان چلتے رہے یہاں تک کے پرچم ہدایت سلسلہ نبوت و رسالت کے خاتم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں آیا تو آپکے مقابل ابولہب و ابوجہل و ابوسفیان کی صورت میں کاروان ظلم کے راہی رکاوٹ بنے۔ آپ کے بعد سفیانی خون سے پروان چڑھنے والا آپ ہی کے جانشین حضرت علی مرتضیٰ ؑ کے روبرو ہوا  لیکن ہر میدان میں ظلم کو شکست سے دوچار ہونا پڑا  اور کاروان ہدایت اسی شان و شوکت سے سر بلند رہا۔

پھر ایک فیصلہ کن میدان آیا جہاں ایک جانب عصمت و طہارت کے دریاوں میں پروان چڑھنے والے اور حق کو سربلند کرنے والے فرزند رسولؑ حسینؑ تھے تو دوسری جانب مجسمہ نجاست کا لشکر کاروان ظلم کا پرچم تھامے ہوئے تھا اور یہ میدان تلوار پر خون کی فتح کا میدان ثابت ہوا  اور امام حسینؑ نے اپنے اور اپنے قرباء و اصحاب کے لہو سے کاروان ہدایت کی اس طرح سینچائی کی کہ قیامت تک کے لیے کاروان ہدایت کاروان حسینی سے جانا جائے گا اور کاروان ظلم ،کاروان یزیدی کے نام سے جانا جائے گا۔ ظلم کا دائرہ کار وسیع ہے جس کے کئی مصداق ہیں جن میں سے ایک قتل و غارت گری ہے۔ سابقہ شریعتوں میں جس طرح ظلم کی مذمت کی گئی اسلام نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے قرآن و احادیث میں اس کی مذمت کی گئی ہے  اللہ کا ارشاد ہے، "من یقتل مومنا متعمدا فجزائہ جھنم خالدین فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعدّلہ عذاباًعظیماً"۔ (النساء 94) "جو کسی مومن کو قصداً (جان بوجھ کر) قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے  جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہوگی اور ایسے شخص کے لیے اس نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"۔ اس آیت میں کوئی تخصیص نہیں بلکہ اطلاق ہے کہ جو بھی ایسا کرے وہ جھنمی ہے گویا قتل مومن قرآن کی رو سےگناہ کبیرہ ہے اور اس ظلم والے کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی امام صادق ؑنے فرمایا، لا یوفق قاتل المومن متعمداً للتوبۃ۔ (وسائل الشیعہ علامہ حر عاملی جلد19ص5)۔ جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنے والے کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔

اسلام میں قتل و غارت کی اس قدر مذمت کی گئی ہے جس کا بیان یہاں ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح ظالم کا ساتھ دینے والے ،اس کی کسی بھی طرح امداد کرنے والے کی بھی مذمت وارد ہوئی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ الظلمۃ و اعوانھم فی النار (کنزالعمال علی متقی ہندی حدیث نمبر7589)
ظالم اور اس کے مددگار جھنم میں ہونگے۔

ظالم کی تین اقسام حدیث میں بیان ہوئی ہیں
العامل بالظلم، المعین علیہ، الراضی بہ شرکاء ثلاثہ۔ (میزان الحکمت محمدی اشتھاردی جلد5ص679)۔ "ظلم کا مرتکب، اسکی اعانت کرنے والا اور اس کے فعل پر راضی ہونے والا تینوں ظالم ہیں"۔ اسلام میں اسقدر مذمت کے باوجود آج ہمارا وطن پاکستان ہی ظلم کا گہوارہ بنا ہوا ہے جس کی بنیاد ہی اسلام پر ہے پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔ جہاں آئے روز انسانی اعضاء زمین پر بکھرے ہوتے ہیں اور انسانیت کا قتل عام ایک معمول بن چکا ہے۔ اس میں ایک بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ظلم، ظلم ہے چاہے کسی پر ہو اس میں کسی فرقہ پر، قوم پر، یا کسی شخصیت پر ظلم معیار نہیں ہے، لہذا ہمیں فرقہ پرستی کی دیواروں کو گرا کہ یک جان ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔

ہمیں امام علیؑ کی آخری وصیت کو سامنے رکھنا ہو گا جب امام عالی مقام ؑنے حسنین کریمین علیھما السلام  سے فرمایا۔ کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا (نہج البلاغہ مکتوب 47)
"ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہو"۔ ظالم جہاں عراق میں شیعہ کو قتل کر رہا ہے وہاں فلسطین میں اہل سنت کو مار رہا ہے پاکستان میں  شیعہ و سنی سب کی مساجد دشمن کا نشانہ بنتی ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ظالم ہمیں ایک سمجھ رہا ہے مگر ہم  ایک دوسرے کو ایک نہیں سمجھ رہے۔ جب تک ہماری صفوں میں اتحاد نہیں آئے گا اور ظلم کے خلاف ہم یک زبان، دو جسم ایک جان ہو کر آواز نہیں اٹھائیں گے، ہماری مساجد خون سے رنگین رہیں گی اور آئے دن ہمارے گھروں سے جنارے اٹھتے رہیں گے۔ تفرقہ پھیلانے والا چاہے عدالت کی کرسی پہ ہوں یا پارلیمنٹ کے ممبر ہوں ہمیں اصل دشمن کی شناخت کرنی ہو گی کیونکہ دشمن شناس ہی اس کی سازشوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاو گے اے جہان والو
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں
خبر کا کوڈ : 375192
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش