0
Sunday 20 Apr 2014 19:11
بحرین کی تحریک عالم کفر کیلئے موت ثابت ہوگی

درندہ صفت طالبان کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا جائے، پیر سعید نقشبندی

درندہ صفت طالبان کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا جائے، پیر سعید نقشبندی
جمعیت علماء پاکستان کے سرگرم رہنما پیر محمد سعید نقشبندی اتحاد بین المسلمین کے داعی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں عملی طور پر نظام مصطفٰی (ص) کے نفاذ کے لئے دن رات مصروف عمل ہیں۔ ارباب اختیار کو للکارنا اور ان کے روبرو شعلہ بیانی آپ کا خاصہ ہے۔ حال ہی میں منعقد ہونے والے عالمی اتحاد امت کانفرنس میں بھی شریک تھے۔ اسلام ٹائمز نے وحدت امت اور عالم اسلام کے دیگر موضوعات پر نقشبندی صاحب کا تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات لاحاصل رہے، ایک دفعہ پھر طالبان نے حملوں کا اعلان کر دیا ہے، اس تمام تر شو کا فائدہ کس کو ہوا۔؟
پیر سعید نقشبندی: اب تک ہونے والے مذاکرات کا فائدہ طالبان کو ہوا، چونکہ طالبان ایک باغی گروہ تھا، ان کا ملک کے آئین اور حکومت پر کسی قسم کا یقین نہ تھا۔ پاکستانی طالبان جنہیں کہا جاتا ہے وہ پاکستانی نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ جنرل (ر) ظہیر الاسلام مرحوم اور معروف جہادی میجر مست گل کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ میں ہم نے کہا تھا کہ مولوی فضل اللہ غیر ملکی ایجنسیوں کی پیداوار ہے، جب وہ چاہتے ہیں اسے میدان میں لے آتے ہیں، جس سے انہوں نے اتفاق کیا۔ اس بات کی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ ان باغیوں کو امریکی سفارتخانوں سے مکمل سپورٹ ملتی ہے۔ ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ ہم ان حکمرانوں
پر حیران ہیں کہ جنہوں نے ریاست کے باغیوں اور دشمنوں کو ریاست کے مقابل لاکھڑا کیا، لامحالہ اس کا فائدہ طالبان کو ہی ہونا تھا۔ پہلے وہ باغی چھپے ہوئے تھے، لیکن اب سرکاری ڈیلی گیشن ان کے پاس جاتے ہیں اور ان باغیوں سے خفیہ مقام پر مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ اگر اتنا خفیہ مقام ہے تو سرکار کا ڈیلی گیشن کیسے پہنچ جاتا ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ سرکاری اہل کار زندہ واپس آئیں گے یا نہیں۔ لیکن اگر حکومت وقت سمجھتی ہے کہ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو ان افراد سے اب پوچھ گچھ کی جائے جو طالبان کے حمایتی اور سربراہ ہیں، چونکہ ان مذاکرات سے ان کے حمایتی اور استاد کھل کر دنیا کے سامنے آگئے ہیں۔
حضرت امام باقر (ع) طواف کعبہ کر رہے تھے۔ آپ کا غلام بھی آپ کیساتھ طواف کعبہ میں مشغول تھا، کہیں سے چیخ و پکار کی آواز آئی۔ آپ نے فرمایا طواف کعبہ چھوڑ دو، اس کی جان بچاؤ۔ اب مسلمان ہے یا غیر مسلم، اس بات کے بارے میں بھی معلوم نہیں۔ اب جب آپ کا غلام واپس لوٹا تو پریشان تھا۔ آپ (ع) نے غلام سے دریافت کیا کہ کیوں پریشان ہو، غلام نے عرض کی اے میرے آقا میں بہت دور سے طواف کعبہ کے لئے آیا تھا، مگر طواف کعبہ سے محروم ہوگیا۔ آپ (ع) نے فرمایا کعبہ گر رہا ہو، اسے گرنے دو، پہلے انسان کو بچاؤ۔ تو ظاہر ہوا کہ کعبہ سے زیادہ عظمت انسان کی ہے۔ اب جن لوگوں نے سربازار مزاروں میں، عوامی مقامات پر بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جانیں لیں۔ اب ان لوگوں سے
مذاکرات کئے گئے، جنہوں نے چرچ، امام بارگاہ حتٰی کہ مزارات تک کو نہیں چھوڑا۔

اسلام ٹائمز: تکفیری ذہنیت کے حامل افراد نے شام میں اصحاب رسول (رض ) کے مزارات تک کو شہید کیا اور جسد خاکی کی بے حرمتی کی، کیا یہ درندے اب بھی انسان کہلانے کے مستحق ہیں۔؟

پیر سعید نقشبندی: ظاہر سی بات ہے شام میں آل سعود کی کارستانیاں جاری ہیں اور اس سے قبل بھی مزارات کو ہی مسمار کیا گیا، جنت البقیع کو منہدم کیا گیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ (س) تمام مکاتب فکر کے نزدیک قابل احترام تھیں۔ میرے آقائے سرکار دوجہاں کی زوجہ محترمہ کا مزار منہدم کیا گیا۔ افغانستان میں بھی طالبان نے مزارات کو تباہ کیا۔ تحریک اخوانہ افغانستان کا دعویٰ ہے کہ حضرت علی (ع) کا مزار افغانستان میں ہے۔ متنازعہ سہی لیکن افغانستان کے لوگوں کی عقیدتیں اس مزار سے وابستہ تھیں اس مزار کو تباہ کر دیا گیا۔ ہم قطعاً ان درندہ صفت لوگوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔ طالبان ساٹھ ہزار سے زیادہ انسانوں کے قاتل ہیں، ان کا نہ تو کوئی قصاص لیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی سزا و جزا کا عمل جاری کیا گیا، کیا وہ انسان نہیں تھے، بھیڑ بکریاں تھی۔ اولیائے کرام نے پرامن طریقے سے اسلام کو پھیلایا ، اسلام مسلک و مذہب کی بنیاد پر لوگوں کے قتل عام کی اجازت نہیں دیتا۔ غیر مسلم تو ہمارے ذمی ہیں، ان کے بارے میں بھی ہم سے پوچھا جائے گا، لیکن مسلمان کی شان اس سے زیادہ بڑھ کر ہے۔

اسلام ٹائمز:
طالبان کے سرغنہ شاہد اللہ شاہد کا بیان منظر عام پر آیا ہے، جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ مختلف قتل و غارت کے واقعات میں ملوث نہیں ہیں، وہ معصوم انسانوں کی جانیں لینا درست نہیں سمجھتے، حکومت کو طالبان کیساتھ مذاکرات کا یہ فائدہ ہوا کہ اب وہ پہلے کی طرح قتل کرکے ذمہ داری تسلیم نہیں کرتے، اس دیدہ دلیری کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
پیر سعید نقشبندی: (مسکراتے ہوئے) بہت اچھا سوال کیا آپ نے، بات یہ ہے کہ پہلے طالبان تسلیم کر لیا کرتے تھے کہ فلاں لوگوں کو ہم نے قتل کیا ہے، اب تسلیم نہ کرنے سے یہ بات بڑی پکی اور یقینی ہوگئی ہے کہ نہتے مسلمانوں کے قاتل طالبان ہی ہیں۔ اب مذاکرات کی آڑ میں انہوں نے اپنی زبان کو تبدیل کر لیا ہے، اب اپنے جرم کی ذمہ داری دوسروں کی کندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اگر پہلے وہ تسلیم کر لیا کرتے تھے، تو اب بھی انہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے کچھ گروہ جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ طالبان کافی جگہ سے کارروائیوں کے دوران پکڑے بھی گئے ہیں، لیکن کچھ اداروں کی پشت پناہی کے باعث انہیں سزائیں نہ مل سکیں۔ جب تک ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں ہوگی، یہ دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ روز ایوان بالا میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور شام میں جاری جنگ میں پاکستانی افراد کی شمولیت کے حوالہ سے گرما گرم بحث ہوئی، ہمارے ملک کو کرائے کے قاتل فراہم کرنے والی ریاست کیوں بنایا جا رہا ہے۔؟

پیر
سعید نقشبندی: اس بارے میں ہمارا موقف روز اول سے واضح ہے، جب سے افغانستان میں جہاد شروع ہوا، اس وقت جمعیت علماء پاکستان نے پشاور میں ایک تقریب منعقد کی، جس کی صدارت سید احمد کاظمی نے کی اور امریکہ سے خصوصی طور پر شاہ محمد جیلانی تشریف لائے، جنہوں نے واضح کیا کہ امریکہ مسلمانوں کو استعمال کرکے روس کو توڑ کر خطہ میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس جنگ میں شریک ہونا ہمارے لئے نقصان دہ ہوگا۔ اسی طرح اس دور میں مولانا شاہ احمد نورانی نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے جہاد کے اصول بیان کئے کہ جہاد ملکی فوج کی نگرانی میں کیا جائے، اور غازی لوٹنے کے بعد ہفتہ میں تین بار متعلقہ تھانہ کا چکر لگائے اور ان جہادیوں پر متعلقہ تھانے کی نظر ہونی چاہیے۔ پاکستان آنے والے مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے اور جہاد ختم ہوتے ہی انہیں واپس اپنے ملکوں میں بھیج دیا جائے، آج ان تمام میں سے ایک چیز پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا، آج آپ دیکھ لیں کہ پاکستان کا کوئی محلہ اور علاقہ محفوظ نہیں ہے کہ جہاد افغانستان کے دوران جو لوگ افغانستان سے پاکستان منتقل ہوئے، ان کی تربیت بہت عجیب سی ہوئی تھی، ہمارا پورا علاقہ، ایک علاقہ غیر بن کر رہ گیا ہے۔ چوری ڈکیتی کے ساتھ ساتھ گذشتہ اداور میں جہاد کے نام پر فسادی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ انہوں نے اسلحہ کے زور پر اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کیا، آج ہم اس دور کے اثرات سمیٹ رہے
ہیں۔ اب بھی اگر ہمارے حکمران ہوش کے ناخن نہیں لیں گے اور چند ٹکوں کی خاطر دوسروں کے کہنے پر کرائے کے قاتل فراہم کریں گے تو ملک مزید مشکلات سے دوچار ہوگا۔ مسلم ممالک میں چلنے والی تحریکوں کو کچلنے کے لئے اور مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے دوسرے ممالک کا رخ کرنا دراصل دشمن کا آلہ کار بننا ہے۔

اسلام ٹائمز: بحرینی عوام کی تحریک کو دبانے کے لئے تازہ ترین کارروائی میں آل سعود نے آیت اللہ سیستانی کے بحرین میں نمائندہ حجۃ الاسلام والمسلمین حسین نجاتی کو ملک بدر کر دیا ہے، کیا اس طرح بحرینی حکمران بحرین میں جاری تحریک کو دبا پائیں گے۔؟

پیر سعید نقشبندی: جب سقوط بغداد ہوا تو لوگوں نے سمجھا کہ اب یہاں اللہ کا نام لینا والا آئندہ کوئی پیدا نہیں ہوگا، لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ وہاں ایک دفعہ پھر اسلام کا بول بالا ہوا۔ میرا یہ یقین اور میرا دعویٰ ہے کہ بحرین کی تحریک عالم کفر کے لئے موت ثابت ہوگی، عالم کفر اپنے انجام کو پہنچے گا۔ لیکن امتحان ان لوگوں کے لئے ہے چاہے وہ آل سعود ہوں یا کوئی بھی حکمران ہوں، انہیں دنیا میں جگہ نہیں ملے گی۔ آل سعود نے اس بات کا حلف اٹھا رکھا ہے کہ وہ عالم اسلام کی بہتری کے لئے کام کریں گے اور امت مسلمہ میں وحدت کو فروغ دیں گے۔ اس حلف کی اب وہ کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے اللہ اور اس کے رسول (ص) کو ناراض کر رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی کا عذاب عنقریب انہیں آلے گا اور وہ تباہ و برباد ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 374698
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش