0
Sunday 6 Jul 2014 04:04
داعش ہرگز اہلسنت کی نمائندہ جماعت نہیں

دشمن کی بھرپور کوشش ہے کہ عراق میں جاری بدامنی کو شیعہ سنی کی جنگ کے طور پر پیش کرے، حسن کاظمی قمی

عراق میں ایران کے سابق سفیر کاظمی قمی کا تفصیلی انٹرویو
دشمن کی بھرپور کوشش ہے کہ عراق میں جاری بدامنی کو شیعہ سنی کی جنگ کے طور پر پیش کرے، حسن کاظمی قمی
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے چند روز قبل 30 جون کے شہداء کے اہلخانہ سے ملاقات کے دوران خطاب میں فرمایا تھا کہ عراق میں جاری جنگ درحقیقت مغرب نواز دہشت گردی اور قومی خود مختاری کے خواہاں دہشت گردی کے مخالفین کے درمیان جنگ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عراق میں جاری اس بدامنی میں مغربی محاذ، رجعت پسند عرب حکومتوں، سابق بعث پارٹی سے وابستہ عناصر اور تکفیری عناصر کا کیا کردار ہے؟ عراق میں جاری پراکسی وار اور بدلتے سیاسی حالات کا بغور جائزہ لینے کیلئے عراق میں ایران کے سابق سفیر حسن کاظمی قمی سے تفصیلی انٹرویو لیا گیا ہے۔ انہوں نے اس انٹرویو میں مغربی طاقتوں کی جانب سے عراق کے امن و امان اور سیاسی استحکام کو نابود کرنے کیلئے بعثی اور تکفیری عناصر کو استعمال کرنے کی نوعیت کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔

سوال: گذشتہ دو ہفتے سے عراق میں جاری بدامنی کے بارے میں امریکہ کی کیا رائے ہے؟ امریکہ ان حالات میں کس موقف کی تقویت کرنا چاہتا ہے۔؟
حسن کاظمی قمی: اس سوال کا جواب دینے کیلئے ضروری ہے کہ ہم گذشتہ 13 برس کے دوران خطے میں امریکہ کے مداخلت پسندانہ اقدامات کا جائزہ لیں۔ امریکہ نے نائن الیون کے حادثات کے بعد انہیں بہانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ عالمی امن اور سکیورٹی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ لہذا افغانستان اور اس کے بعد عراق پر فوجی چڑھائی کر دی۔ افغانستان اور عراق پر امریکی فوجی حملہ درحقیقت عالمی سطح پر اس فرضیے کو تقویت کرنے کی کوشش تھی کہ عالمی امن اور سکیورٹی کو شدید خطرہ درپیش ہے اور یہ کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی قیادت سنبھال رکھی ہے۔ یہ وہ واقعات تھے جو سابق امریکی صدر جارج بش کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے ایک سال بعد رونما ہوئے۔ اس کے بعد امریکہ میں نیوکنزرویٹو حکمران برسراقتدار آنا شروع ہوگئے، جن کی بنیادی پالیسی مشرق وسطٰی کے نقشے کو تبدیل کرنا تھا اور انہوں نے اس مقصد کے حصول کیلئے بھرپور منصوبہ بندی شروع کر دی۔

اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز افغانستان سے شروع ہوا۔ امریکہ نے خطے میں اپنی فوجی موجودگی کیلئے پہلے قدم پر افغانستان کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ ہمیں اس نکتے کی جانب توجہ کرنی چاہئے کہ افغانستان تین تہذیبی خطوں کے ملاپ کا مرکز ہے۔ "چینی تہذیب کنفیوشس"، "روس کی مشرقی نژاد قدامت پسند (آرتھوڈوکس) تہذیب" اور "اسلام کی تہذیب"۔ امریکہ اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی کے ذریعے ان تین تہذیبی خطوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ کا دوسرا قدم عراق تھا۔ امریکہ عراق میں کیا اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا؟ عراق میں امریکہ کا اصلی ترین ہدف مشرق وسطٰی میں تیل کے ذخائر پر اپنا کنٹرول قائم کرنا تھا۔ امریکہ نیو مڈل ایسٹ (گریٹر مڈل ایسٹ) کے منصوبے کے تحت ان ممالک میں جمہوریت کے نام پر ایسے انتخابات منعقد کروانا چاہتا تھا جن سے اس کے مطلوبہ اور دلخواہ نتائج سامنے آتے، تاکہ تیل پر منحصر عالمی اقتصاد پر اپنا قبضہ جما سکے۔

ان اقدامات سے امریکہ کا دوسرا بڑا ہدف اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا اور اس کی قومی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے امریکہ خطے میں اپنے مخالف ممالک یا اسلامی مزاحمتی بلاک جسے وہ دہشت گردی کا مصداق بھی قرار دیتا ہے، کو کمزور کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ افغانستان سے فارغ ہوا تو اس نے عراق کا رخ کیا اور عراق پر فوجی حملہ کرنے کیلئے حتی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری لینے کا انتظار بھی نہ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بعد میں خطے میں رونما ہونے والے اکثر سیاسی حالات میں ہاری ہوئی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ امریکہ عراق میں، گذشتہ تین سال کے دوران شام میں، لبنان میں جاری اسلامی مزاحمتی تحریک کے بارے میں، فلسطین میں حماس کے خاتمے کے سلسلے میں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوا ہے۔ ایران کے خلاف امریکہ اور مغرب کی جانب سے اقتصادی پابندیاں اور دباو بھی اسی خاطر ہے کہ فوجی راستہ امریکہ کیلئے بے سود ثابت ہوا ہے۔ اس وقت عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" کی موجودگی بھی اس ملک میں امریکہ کی پراکسی وار کا حصہ ہے۔ امریکہ عراق میں فوجی موجودگی نہیں رکھ سکتا، کیونکہ وہ خود کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ خطے میں امریکہ کا ناکامیوں کا سہرا اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمتی تحریک کے سر ہے۔ اس شکست نے امریکہ کو انتقامی کارروائیاں انجام دینے پر مجبور کر دیا ہے۔

سوال: یعنی آپ کی نظر میں امریکی حکام عراق میں بدامنی پھیلا کر ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک سے انتقال لینا چاہتے ہیں۔؟
حسن کاظمی قمی: جی، میرا تجزیہ یہی ہے۔ امریکہ اپنے جدید منظرنامے میں خطے میں بدامنی اور عدم استحکام پھیلانا چاہتا ہے اور اس بدامنی کا اصلی نشانہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ "امریکہ اور رجعت پسند عرب حکمرانوں کی حمایت"، "تکفیری دہشت گرد عناصر کے اقدامات"، "سابق بعث پارٹی سے وابستہ فوجی کمانڈرز کی موجودگی" ان تمام اقدامات کا دائرہ عراق تک محدود نہیں۔ ان اقدامات کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے سامنے ایک نیا محاذ کھڑا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ زمینی حقائق کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اگرچہ میدان میں حاضر تکفیری دہشت گرد گروہ خطرناک ہیں، لیکن حقیقی خطرہ امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم سے ہے۔ ان کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران، ایران کے اتحادی ممالک اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے سامنے ایک نیا محاذ کھولنا ہے۔ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ یہ امر تحقق پذیر نہ ہو۔ امریکہ نے یہ پراکسی وار شروع کرکے مشرق وسطٰی کو اپنے حال پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ اپنی طاقت کو بڑھانے کی کوشش میں ہے، البتہ اب وہ ماضی کی طرح جانی نقصان سے بھی محفوظ رہ سکے گا، جبکہ خطے میں موجود قوتوں کو اپنے ہی اندرونی مسائل میں الجھا کر مصروف کر دے گا۔

سوال: اس سارے منصوبے میں بعثی کمانڈرز اور تکفیری دہشتگردوں کا کیا کردار ہے۔؟ امریکی حکام اور رجعت پسند عرب حکومتوں نے وہ کون سے ابتدائی اقدامات انجام دیئے، جن کی بدولت آج وہ بعثی کمانڈرز اور تکفیری دہشتگرد عناصر کو اپنے اہداف کیلئے استعمال کر رہے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں امریکہ، رجعت پسند عرب حکام، بعثی کمانڈرز اور داعش کے درمیان کس نوعیت کا رابطہ برقرار ہے۔؟
حسن کاظمی قمی: اگر آپ 2003ء میں صدام حکومت کے خاتمے سے لے کر آج تک عراق کی تاریخ پر مختصر نظر دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ عراق میں دہشت گردی کا مسئلہ وہاں پر امریکہ کے فوجی قبضے کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عراق پر امریکہ کے فوجی قبضے نے دہشت گردی کو جنم لینے کیلئے مناسب ماحول مہیا کیا اور اسی طرح دہشت گردی کی نشوونما، مدد اور دہشت گردانہ اقدامات کی حمایت میں بھی اسی فوجے قبضے نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کو اس دہشت گردی سے یقیناً کوئی نہ کوئی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اگر ہم اس نکتے کا بغور جائزہ لیں کہ عراق میں جنم لینے والی دہشت گردی کا کس کس کو فائدہ پہنچا ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ان میں سے ایک امریکہ ہے۔ دوسری قوت جسے اس دہشت گردی کا فائدہ پہنچا ہے وہ سابق عراقی رژیم کی باقیات ہیں، جن کی محوریت بعث پارٹی کو حاصل ہے۔ بعث پارٹی نے ابھی تک اپنا تنظیمی ڈھانچہ اور نیٹ ورک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی سرنگونی کے بعد بعث پارٹی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ لہذا اسے جدید ملکی آئین کے تحت اظہار وجود کا موقع نہ مل سکا، جس کی وجہ سے اس نے دہشت گردانہ گروہ تشکیل دینے کا کام شروع کر دیا۔

البتہ بعث پارٹی نے عراق کی جدید فضا کے پیش نظر اپنے گروہوں کی تنظیم نو اور سرگرمیوں کو بہتر بنانے کیلئے انہیں اسلامی رنگ و لعاب دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو بیرونی قابض قوتوں کے خلاف اسلامی اور جہادی سرگرمیوں کے طور پر متعارف کرواتے رہے۔ حتی ان گروہوں نے بعض عرب ممالک میں افرادی قوت اور جہادی فورس جمع کرنے کیلئے باقاعدہ دفاتر بھی کھول رکھے تھے۔ دوسرے الفاظ میں داڑھی مونڈنے والے بعثی عناصر نے داڑھی رکھنا شروع کر دی۔ ان کا یہ اقدام افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ عناصر سے ملتا جلتا تھا۔ جب طالبان نے اپنے کام کا آغاز کیا تو ان کے پاس کافی حد تک فوجی تجربہ نہیں تھا۔ خاص طور پر بھاری اسلحے کو استعمال کرنا انہیں نہیں آتا تھا۔ کس نے انہیں منظم کیا اور فوجی ٹریننگ دی؟ افغانستان کی سابق کمیونسٹ رژیم سے وابستہ کمیونسٹ فوجی جرنیلوں نے یہ کام انجام دیا۔ سب نے دیکھا کہ اچانک ان تمام فوجی جرنیلوں نے داڑھی رکھنا شروع کر دی۔ مثال کے طور پر جب جنرل موسٰی نے اپنا نام تبدیل کرکے مولوی احمد آخوند رکھ لیا اور ایک جھڑپ میں مارا گیا تو تب سابق کمیونسٹ فورسز نے اسے پہچانا اور انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو وہی جنرل موسٰی ہے۔ عراق میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ یعنی بعثی عناصر نے مذہبی رنگ اپنا لیا ہے اور اپنے چہرے اسلامی کر لئے ہیں جبکہ حقیقت میں وہی بعثی ہیں۔

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نام نہاد جہادی فورس ایجاد کی اور مختلف عرب ممالک سے تکفیری دہشت گردوں کو جہاد کے نام پر شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ خلاصہ یہ کہ عراق میں دہشت گردانہ نیٹ ورک کو تشکیل دینے والی اصلی قوت بعث پارٹی ہے۔ بعث پارٹی سے وابستہ عناصر نے جو سب سے پہلی جہادی فورس بنائی، اس کا نام "جیش الاسلام" تھا۔ کربلا میں ہمارے سفارتکار کو اغوا کرنے میں بھی اسی گروہ کا ہاتھ تھا۔ بعثی عناصر نے ہمارے اغوا شدہ سفارتکار سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد اسے ابو مصعب الزرقاوی کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک نیا جہادی گروہ تشکیل دیا، جس کا نام "جیش توحید و جہاد" رکھا گیا۔ اس کے بعد "القاعدہ بین النھرین" نامی جہادی گروہ تشکیل دیا گیا اور اس کے بعد "دولت اسلامی عراق" کے نام سے نیا گروہ بنایا گیا۔ بعثی عناصر کی جانب سے ایجاد کردہ جدید ترین تکفیری گروہ "دولت اسلامی عراق و شام" یا وہی "داعش" ہے۔

لہذا عراق میں دہشت گردوں کی اصلی حامی قوت جو انہیں کنٹرول کرتی ہے، سابق بعث پارٹی سے وابستہ عناصر ہیں۔ عراق میں جاری حالیہ بدامنی میں بعثی عناصر کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ بعثی عناصر کی خصوصیت کیا ہے؟ بعثی عناصر چند خصوصیات کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ خطے میں موجود رجعت پسند عرب حکومتوں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات استوار ہیں۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کے ساتھ ان کا کوئی نظریاتی اختلاف نہیں۔ تیسرا یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے شدید دشمن ہیں۔ اسی طرح عراق کی جدید حکومت کے بھی شدت سے مخالف ہیں۔ انہیں حکومت چلانے کا کافی حد تک تجربہ حاصل ہے اور عراق میں دوبارہ برسراقتدار آنے کیلئے شدت سے کوشاں ہیں۔ لہذا بعثی عناصر اپنی تخریبی سرگرمیوں کی بدولت جدید عراق کیلئے شدید خطرہ شمار ہوتے ہیں، کیونکہ عراق میں منعقدہ حالیہ انتخابات فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہیں۔ لہذا ان کی پوری کوشش ہے کہ نئی پارلیمنٹ اور نئی حکومت تشکیل نہ پا سکے۔ لہذا یہ ایک واضح امر ہے کہ بعثی عناصر عراق میں انارکی پھیلانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ داعش کی لاجسٹک صلاحیتیں اور ان کی فنی اور فوجی ٹریننگ بھی اسی امر کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کی جانب سے فوجی چھاونی پر قبضہ کیا جانا اور جنگی ہیلی کاپٹرز کو ہوا میں اڑانا ثابت کرتا ہے کہ یا ان کو ان کاموں کی ٹریننگ دی گئی ہے یا پھر بعثی پائلٹس نے یہ کام انجام دیا ہے۔ پس عراق کے اندر داعش کو بعثی عناصر کی حمایت حاصل ہے۔

لیکن عراق سے باہر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو رجعت پسند عرب حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔ کیوں؟ عرب ریاستیں جو خود جمہوریت اور جمہوری عمل سے عاری ہیں، اس بابت شدید پریشانی کا شکار ہیں کہ عراق میں ایک جمہوری نظام تشکیل پا جائے جو سیاسی استحکام کا حامل ہو اور ملک میں امن و امان قائم ہو جانے کے بعد خطے میں ایک موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے۔ خاص طور پر ایسے میں جب یہ عرب ریاستیں اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف ہیں اور بدقسمتی سے ایران اور لبنان کے بارے میں اسرائیل کے ساتھ ان کی سیاسی ہماہنگی بھی زیادہ ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے اور ہم کسی پر الزام تراشی نہیں کر رہے۔

عراق میں جاری بحران کا دوسرا بڑا عامل امریکی حکام ہیں۔ امریکی حکام عراق کے میدان میں شکست کھا چکے ہیں اور حالیہ انتخابات کے نتائج ان کی مرضی کے مطابق نہیں تھے۔ امریکہ عراق کے ساتھ انجام پانے والے سکیورٹی معاہدے سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ عراق میں جمہوریت کی آڑ میں امریکی ماڈل کا سیاسی نظام لانے میں ناکامی کا شکار ہوا ہے۔ اسی طرح وہ عراق کے دفاعی اور سکیورٹی ڈھانچے کو امریکی کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ اسے عراق میں اپنے فوجی اڈوں کو مستقل بنیادوں پر باقی رکھنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اسی طرح وہ عراق اور ایران کے درمیان تعلقات کو ختم کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ لہذا ان تمام دعووں کے برعکس جو بظاہر کئے جاتے ہیں، امریکہ عراق میں اپنی ناکامی اور شکست کے باعث شدید غصے کا شکار ہے۔ حالیہ انتخابات میں جو امریکی فوج کی غیر موجودگی میں منعقد ہوئے عراقی عوام کی شرکت 59 فیصد سے بڑھ کر 73 فیصد تک جا پہنچی ہے اور ساتھ ہی ان انتخابات کے نتائج بھی امریکہ کے حق میں اچھے نہیں نکلے۔

لہذا ایک طرف شام میں امریکہ کی شکست اور دوسری طرف عراق میں اس کی ناکامیاں باعث بنی ہیں کہ امریکہ عراق میں بدامنی اور عدم استحکام کو ہوا دینے کی پالیسی اختیار کرے۔ 2003ء سے لے کر آج تک امریکہ اور اسرائیل دہشت گردی کی حمایت اور اسے فروغ دینے میں مصروف ہیں، کیونکہ اس سے انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے۔ عراق میں فرق الموت نامی ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل خود امریکہ نے دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا ایک سفیر ایسا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی مہارت ہی ڈیتھ اسکواڈز تشکیل دینے میں ہے۔ برطانوی حکام بھی اس زمرے میں مشکوک ہیں۔ کئی مواقع ایسے بھی ہیں کہ عراقی فورسز دہشت گرد عناصر کو گرفتار کرکے بصرہ، بغداد اور بعض دوسرے شہروں کی جیلوں میں قید کرتی تھیں جبکہ برطانوی فوجی آ کر جیلوں پر حملہ کرتے تھے اور ان دہشت گردوں کو آزاد کروا کر لے جاتے تھے۔ دوسری طرف تقریباً 73 سکیورٹی کمپنیز عراق میں داخل ہوئیں، جن میں سے اکثریت امریکی کمپنیز یا امریکہ کے زیرکنٹرول کمپنیز کی تھی۔ ان میں سے ایک بلیک واٹر تھی۔ ان کمپنیز سے وابستہ افراد مسلح ڈکیتیوں، عام افراد کی قتل و غارت اور دہشت گردوں کی حمایت میں ملوث رہے ہیں۔ اسرائیل بھی عراق میں محققین خاص طور پر فزکس کے محققین کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہا ہے۔

عراق میں شیعہ سنی تفرقہ ایجاد کرنے کا اصلی ذمہ دار بھی امریکہ ہے۔ عراق میں شیعہ سنی جھگڑوں کا ذمہ دار امریکہ کا ایک اور سفیر ہے، جس کے رجعت پسند عرب حکومتوں کے ساتھ رابطے برقرار تھے۔ وہ ہمیشہ اس موضوع پر تاکید کرتا تھا کہ عراق میں شیعہ سنی جنگ جاری ہے۔ خاص طور پر جب سامراء میں امام حسن عسکری اور امام علی نقی علیھما السلام کے روضہ اقدس کو بم سے اڑا دیا گیا تو اس کے بعد یہ پروپیگنڈہ بہت زور و شور سے کیا گیا۔ اسی طرح مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امریکی فوجی ایک شیعہ عالم دین کے پوسٹرز پر نازیبا الفاظ لکھ دیتے تھے اور بعد میں یہ مشہور کر دیتے تھے کہ یہ کام سنی مسلمانوں نے کیا ہے۔ یہ اقدامات حساس صورتحال میں اثربخش تھے۔ البتہ میرا ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ عراق میں ان تمام لڑائیوں اور جھگڑوں کے باوجود شیعہ سنی جنگ کبھی بھی شروع نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان ثقافتی اور معاشرتی خلیج موجود نہیں۔ لیکن دشمن کی پوری کوشش ہے کہ عراق میں جاری بدامنی کو شیعہ سنی کی جنگ کے طور پر پیش کرے۔ حتی داعش کی جانب سے عراق میں اپنی مہم کا آغاز سامراء شہر سے کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ شیعہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جائے اور شیعہ سنی جنگ کا زمینہ فراہم کیا جائے۔

سوال: آپ کی نظر میں عراق میں رونما ہونیوالے حالیہ واقعات کس حد تک ماضی میں اپنی فوجی موجودگی کے دوران کی جانیوالی امریکی منصوبہ بندیوں کا نتیجہ ہیں۔؟
حسن کاظمی قمی: یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے عراق میں دفاعی اور سکیورٹی اداروں کی تشکیل کے دوران اپنے مداخلت پسندانہ اقدامات کے ذریعے ایک اعلٰی فوجی مہارت کی حامل قومی فوج کو تشکیل نہیں پانے دیا۔ ہر ملک میں اس کی فوج ایک قومی سرمایہ محسوب ہوتی ہے، یعنی مختلف حکومتوں میں مختلف سیاسی پارٹیاں آتی اور جاتی رہتی ہیں لیکن انٹیلی جنس ادارے، خارجہ پالیسی ساز ادارے اور مسلح افواج ہمیشہ قومی ہوتی ہیں اور ان کی کسی خاص سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں ہوتی، تاکہ وہ پوری قوم اور ملکی سالمیت اور قومی خود مختاری کا بھرپور دفاع کرسکیں۔ امریکہ نے عراق آرمی کو دنیا کے ساتھ تعلقات بنانے کی اجازت نہیں دی، کیونکہ اگر ایسا ہو جاتا تو پھر اسے امریکہ کی ضرورت نہ رہتی۔ اسی طرح امریکہ نے عراق آرمی کو کمزور کرنے کیلئے ایک اور اقدام بھی انجام دیا اور وہ عراق کے مختلف علاقوں میں بیداری کونسلز (مجالس الصحوات) کو تشکیل دینا تھا۔ اس کے بعد عراقی حکومت کو زبردستی اس بات کا قائل کیا گیا کہ بیداری کونسلز سے وابستہ افراد کو عراق آرمی میں بھرتی کیا جائے۔ یہ کیسی فوج تشکیل پائے گی؟ اگر آج عراق آرمی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ امریکہ نے عراق کی قومی دفاع کی طاقت کو کمزور کر دیا ہے۔

سوال: عراق پر داعش کے حملے کیلئے موجودہ وقت کیوں انتخاب کیا گیا؟
حسن کاظمی قمی: اس وقت عراق ایک بھرپور انتخابات کے انعقاد کے بعد جس میں عوام کی بھاری اکثریت نے شرکت کی، نئی حکومت کی تشکیل کے دہانے پر کھڑا تھا۔ اس کے بعد شام میں بھی انتخابات کا انعقاد ہوا اور دوست اور دشمن اور حامی اور مخالف کے بقول اس ملک میں تین سال کی خانہ جنگی کے بعد ان انتخابات کی حیثیت ایک ریفرنڈم جیسی تھی۔ پہلے نامزد نے عوامی ووٹ کا بڑا حصہ اپنے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے اہلسنت حلقوں کے اکثر ووٹ بھی حاصل کر لئے۔ شام میں انجام پانے والے انتخابات درحقیقت موجودہ حکومتی نظام کے حق میں ایک عظیم ریفرنڈم تھا اور اسی طرح ملک میں جاری دہشت گردانہ سرگرمیوں کے مقابلے میں بڑی "ناں" تھی۔ وہ دہشت گردانہ سرگرمیاں جو شام کی حکومت اور قوم کے خلاف "رجعت پسند عرب"، "صیہونیزم" اور "امریکہ" کی مثلث کی جانب سے عوامی حمایت کے جھوٹے نعرے کے سائے تلے انجام پا رہی تھیں۔

لہذا عراق جدید پارلیمنٹ کے ذریعے نئی حکومت کو تشکیل دینے والا تھا۔ دو ممالک میں منعقدہ انتخابات کے نتائج یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ نئی حکومتیں ماضی کی نسبت زیادہ طاقتور ظاہر ہوں گی۔ جب ہم عراق پر ایک نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ موجودہ مشکلات اور مسائل کے باوجود اور اسی طرح حکومت پر ناکارہ ہونے، عوام کی خوشحالی کے اسباب فراہم کرنے میں ناکامی کا ثبوت دینے اور سکیورٹی مسائل پر قابو پانے میں ناکام رہنے جیسے مختلف الزامات عائد ہونے کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت مرجع عالیقدر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور حکومت کو بھاری مینڈیٹ فراہم کرتے ہیں۔ نئی پارلیمنٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حاصل کردہ سیٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ پارلیمنٹ گذشتہ کی نسبت زیادہ طاقتور ہوگی، کیونکہ اس میں زیادہ عوامی، انقلابی اور محنتی چہرے موجود ہیں۔ دوسری طرف عراق کی سیاسی صورتحال ایک ایسی سمت میں جا رہی تھی کہ نئی حکومت مختلف پارٹیوں کے گٹھ جوڑ پر استوار نہ ہو بلکہ اسے سیاسی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ البتہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نئی حکومت پارلیمنٹ میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں سے تعاون حاصل نہ کرے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ نئی حکومت کی بنیاد محض مختلف اقوام کے آپس میں اتفاق پر نہ ہو، مثلاً یہ کہا جائے کہ صدر فلان قوم سے ہو اور سپیکر فلان قوم سے۔

عراق میں گذشتہ دو حکومتوں کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی کسی سیاسی جماعت کا حکومتی سربراہ کے ساتھ اختلاف رونما ہوتا ہے تو وہ فوراً خود کو حکومت سے علیحدہ کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتی ہے۔ ایک بحران زدہ اور کشمکش کا شکار ملک کو اس طرح سے نہیں چلایا جاسکتا۔ عراق جیسے ممالک جو ابھی مکمل طور پر سیاسی استحکام کے حامل نہیں ہوئے، کا سربراہ صرف ایک مدیر کی حد تک نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اسے ایک کمانڈر جیسا کردار ادا کرنا چاہئے۔ لہذا ایسی صورتحال میں ممکن نہیں کہ ہر وزیر اپنے سیاسی پارٹی کی پالیسیوں کے تحت سرگرم عمل ہو۔ یہ چیز عراق کے بعض حلقوں کو ناگوار گزری اور ان کیلئے پریشان کن ثابت ہوگئی ہے۔ انہیں میں سے ایک سابق بعث پارٹی سے وابستہ عناصر ہیں۔ موجودہ انتخابات اس خاطر فیصلہ کن تھے کہ اگر ملک میں ایک طاقتور پارلیمنٹ اور حکومت تشکیل پا جاتی ہے تو وہ عوام کی حمایت اور مدد سے ملک میں جاری دہشت گردی اور بدامنی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ درحقیقت اس طرح عراق کا سیاسی نظام مکمل طور پر استوار ہوجاتا ہے۔

سوال: آپ کی نظر میں آیا سنی اکثریت کے علاقوں میں داعش کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔؟
حسن کاظمی قمی: درست ہے کہ داعش ایک حد تک ثقافتی اور تبلیغی سرگرمیاں انجام دیتی ہے اور تنظیمی سرگرمیوں کے ذریعے افرادی قوت بھی جمع کرتی ہے، لیکن داعش ہرگز اہلسنت کی نمائندہ جماعت نہیں۔ سنی اکثریت والے علاقوں میں داعش کی موجودگی کی کیا وجہ ہے؟ اول یہ کہ ان علاقوں میں بعثی عناصر زیادہ ہیں، دوم یہ کہ یہ علاقے عراق کی سرحد پر واقع ہیں اور عراق کے ہمسایہ ممالک اس ملک میں جاری بدامنی اور دہشت گردی کی حمایت میں مصروف ہیں۔ مزید یہ کہ داعش سے وابستہ عناصر شام کی سرحد کو استعمال کر رہے ہیں اور ایسے علاقوں سے عراق میں داخل ہوتے ہیں، جہاں ابھی تک شام حکومت کی گرفت مضبوط نہیں ہوئی۔

سوال: آپ کی نظر میں عراق کی حالیہ صورتحال کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی کارکردگی کیسی رہی ہے۔؟
حسن کاظمی قمی: دہشتگردی کا مقابلہ ایک بین الاقوامی ایشو ہے اور فطری طور پر اسلامی جمہوریہ ایران نے اس میدان میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف عراقی حکومت ایک مکمل طور پر جائز اور قانونی حکومت ہے۔ لہذا وہ ایران سے جس قسم کی مدد کی درخواست کرے گی، ہم بھرپور انداز میں اس کا جواب دیں گے اور عراقی قوم کو ہر قسم کی مدد فراہم کریں گے۔ 
خبر کا کوڈ : 396207
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش