0
Wednesday 23 Apr 2014 00:28

فاطمہ (س) کا گھرانہ (2)

ولادت سیدہ فاطمۃ الزھراء (س) کی مناسبت سے خصوصی تحریر
فاطمہ (س) کا گھرانہ (2)
تحریر: سید اسد عباس تقوی

(گذشتہ سے پیوستہ)
الہی و روحانی تربیت اور کفالت کا عظیم شاہکار ایک خانوادہ کی صورت میں زندگی بسر کرنے لگا۔ یہ زمانہ مسلمانوں کے لیے انتہائی کٹھن تھا تاہم مکہ کی نسبت زندگی بہت آسودہ تھی۔ نبی کریم (ص) اکثر و بیشتر بیٹی کے گھر تشریف لاتے، کبھی تسبیح کی تعلیم دیتے تو کبھی تقسیم کار کرتے ۔سید المرسلین (ص) کا دستور تھا کہ سیدہ کے دروازے پر تشریف لاتے اونچی آواز سے سلام کہتے۔ مدینہ کے لوگ رسول اکرم (ص) کے اس حسن ترتیب اور طریقہ کار کو بغور دیکھتے رہے۔ ایک دن وہ بھی آیا کہ مسجد نبوی میں کھلنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی کے گھروں کے دروازے سوائے دروازہ رسول (ص) و علی (ع) کے بند کروا دیئے گئے۔ رسول خدا (ص) کا یہ رویہ اہل مدینہ کے لیے نیا تھا ۔ امہات المومنین (رض) جو اس وقت خانہ رسول (ص) میں موجود تھیں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ فاطمہ (س) و علی (ع) سید کائنات کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

اسی اثنا میں ہجرت کے تیسرے سال علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے آنگن میں ایک کلی کھلی۔ سید المرسلین (ع) نے بچے کا نام ہارون علیہ السلام کے فرزند ’’شبر‘‘ کے نام پر ’’ حسن ‘‘ رکھا ۔ آئمہ اہل بیت کی روایات میں ملتا ہے کہ علی و بتول علیہم السلام نے اپنے بچوں کے نام سید المرسلین (ص) کے سپرد کیے کہ آپ ہی ان کے نام تجویز فرمائیں۔14

ہجرت کے چوتھے سال خانوادہ عصمت و طہارت میں حسین (ع) نے آنکھیں کھولیں، نورانی گھر حسین (ع) کی آمد سے اور بھی نورانی ہو گیا۔ مدینہ کی فضائیں بالخصوص مسجد نبوی، علی و بتول علیہم السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک حسن و حسین علیہما السلام کی معصوم صداؤں سے گونجنے لگیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ جب یہ شہزادے اپنے نانا کو یا جدی، یا رسول اللہ کہہ کر پکارتے ہوں گے تو سید المرسلین (ص) کا دل خوشی سے چھلک اٹھتا ہو گا۔ بدر و احد، خیبر و خندق کی تمام تر سختیاں، اہل مکہ کی چیرہ دستیاں، منافقین مدینہ کی سازشیں سب بھول جاتی ہوں گی۔ رسالت مآب (ص) نے ان بچوں سے اپنی برملا محبت کا اظہار منبر و محراب سے شروع کیا۔

کہیں فرمایا:
عن ابی سعید الخدری قال: قال رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الحسن والحسین سید ا شباب اہل الجنۃ۔15
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
کبھی اس خانوادے کے افراد کو جمع کیا اور فرمایا:
عن ام سلمۃ رضی اللہ عنھا، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جمع فاطمہ وحسنا وحسینا ثم دخل تحت ثوبہ ثم قال: اللٰھم ھولاء اھل بیتی۔16
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام کو جمع فرما کر اپنی چادر میں لے لیا اور پھر فرمایا، اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
پھر ایک روز رسول خدا (ص) کی لسان صدق، گویا ہوئی کہ فاطمہ کی اولاد میری اولاد ہے اور میرا نسب روز قیامت بھی منقطع نہ ہو گا۔
عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول:کل سبب و نسب منقطع یوم القیامۃ ما خلاسببی و نسبی کل ولد اب فان عصتھم لابیھم ما خلا ولد فاطمہ فانی انا ابوھم و عصبتھم۔17
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا، قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سوا ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا۔ ہر بیٹے کی باپ کی طرف نسبت ہوتی ہے ماسوائے اولاد فاطمہ کے کہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک دن مسجد نبوی کی جانب کھلنے والے تمام دروازے بند کرواتے ہوئے کہا:

عن ام سلمۃ رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الا۔۔۔ !لا یحل ہذا المسجد لجنب ولالحائض الا لرسول اللہ و علی وفاطمۃ والحسن والحسین۔ الا! قد بینت لکم الاسماء ان لا تضلوا۔18
حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، خبردار! یہ مسجد کسی جنب (مرد) اور حائضہ (عورت) کے لیے حلال نہیں سوائے اللہ کے رسول، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم الصلوٰۃ والسلام کے۔ (ان برگزیدہ ہستیوں کے علاوہ کسی کے لیے اس مسجد میں آنا جائز نہیں) آگاہ ہو جاؤ! میں نے تمہیں نام بتا دیئے ہیں تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ۔

سید الانبیاء نے حسنین کریمین سلام اللہ علیہما کی محبت کو خدا کی محبت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
عن سلمان رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول: من احبھما احبنی، ومن احبنی احبہ اللہ ومن احبہ اللہ دخلہ الجنۃ۔19
سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ فرماتے ہیں جس نے حسنین کریمین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی اور جس سے اللہ نے محبت کی، اسے اس نے جنت میں داخل کردیا۔
کئی ایک مقامات پرسید المرسلین نے اس خانوادے سے جنگ اور دشمنی کو اپنے سے جنگ اور دشمنی قرار دیا:
عن زید بن ارقم ، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لعلیّ و فاطمۃ والحسن والحسین رضی اللہ عنہم انا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم۔20
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا، جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہوگی، اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہوگی۔
مسجد نبوی میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارواحنا لہ الفداہ محو نماز ہیں کہ علی و بتول علیہما السلام کے پیارے مسجد میں پہنچے اور اپنے نانا کی پشت پر سوار ہوگئے ۔لوگوں نے روکا تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما قال: کان النبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم یصلی والحسن والحسین علی ظہرہ، فباعدہما الناس، و قال النبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم دعوہما بابی ہما وامی۔21
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ نے فرمایا، ان کو چھوڑ دو ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔

ایک اور روایت میں یہ واقعہ یوں مذکور ہے:
عبداللہ بن شداد اپنے والد شداد بن ہاد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ نے انہیں زمین پر بٹھا دیا اور نماز کے لیے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنے لگے۔ نماز کے دوران آپ(ص) نے طویل سجدہ کیا، (شداد نے کہا) میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ شہزادہ سجدہ کی حالت میں آپ (ص) کی پشت مبارک پر سوار ہیں، میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور (ص) نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ (ص) آپ نے نماز میں اتنا طویل سجدہ فرمایا کہ ہمیں خیال ہونے لگا کہ کوئی امر الٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ (ص) پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ (ص) نے ارشاد فرمایا، ایسی کوئی بات نہ تھی مگر میرا بیٹا مجھ پر سوار تھا اس لیے مجھے سجدہ سے اٹھنے میں عجلت کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔22

روایات اور بھی بہت ہیں۔ اکثر مورخین اور محدثین نے اس محبت کو رسول اکرم (ص) کی بچوں اور بیٹی سے محبت پر محمول کیا۔ آپ نے بھی اکثر سنا ہو گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربوں کے وطیرے کے برخلاف بیٹی کا بہت احترام کرتے تھے۔ آپ ڈھونڈ لیجیے اس دعوی کی تصدیق میں آپ کو اکثر یہی روایات ملیں گی۔ شک نہیں کہ رحمت للعالمین بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ بیٹی سے محبت آپ نے ہی زمانے کو سکھائی لیکن یہ کہنا کہ نبی کریم (ص) اس محبت میں اس حد تک بڑھ گئے کہ مسجد نبوی کو ہر حال میں ان پر حلال کر دیا، نماز میں بھی ان کے بارے میں سوچنے لگے، ان کی مرضیوں کو اللہ کی مرضی بنا دیا۔ میری نظر میں عصمت و عدالت نبوی پر بہت بڑا بہتان ہے۔ اگر مذکورہ بالا روایات سچ اور صحیح ہیں تو عام فہم انسان بھی کہنے کا حق رکھتا ہے کہ ختمی مرتبت (ص) کا اس خانوادے سے خصوصی محبت کا برملا اظہار کسی بڑے ہدف و مقصد کے تحت تھا۔ رسالت مآب (ص) کی اس روش پر غور و فکر کے بعد جو ہدف و مقصد مجھے سمجھ آیا حسب ذیل ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہم سے پہلی اقوام پر بھی الہی کتب کا نزول ہوا اور ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ ان کتب میں تحریف کی گئی۔ اسی سبب خداوند کریم نے اپنی آخری نازل کردہ کتاب جسے قیامت تک کے انسانوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دینا تھا کی حفاظت کا ذمہ لیا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ [23]
ہم نے ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
رسالت مآب (ص) کی حدیث مبارکہ ہے جس میں امام علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی۔ 24
(اے علی) تمہاری منزلت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسی مضمون کی ایک حدیث مسند احمد، اور صحیح بخاری میں بھی ان الفاظ میں درج ہے،
او ما ترضی ان تکون منی بمنزلہ ہارون من موسی الا النبوۃ۔ 25
کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ نبوت کے علاوہ تیری نسبت مجھ سے وہی ہو جو ہارون کو موسی سے تھی۔
رسول مقبول (ص) نے اسی نسبت سے اپنے نواسوں کے نام ہارون علیہ السلام کے فرزندوں کے نام ’’شبر و شبیر‘‘ پر ’’ حسن و حسین ‘‘ رکھے۔ اس خانوادے کی مرضیوں کو اللہ کی مرضی قرار دینا، اس خانوادے سے جنگ کو اپنے ساتھ جنگ کہنا، ان کی محبت کو محبت خدا قرار دینا، انہیں سردار جنت کہنا یہ فقط پدری محبت نہیں بلکہ میری نظر میں یہ حسن ترتیب ہے جس کے ذریعے رسول اکرم (ص) دین الہی کی بقاء کا ایک ایسا انتظام کرنا چاہتے ہیں جسے وقت اور زمانے سے تحریف کا خطرہ لاحق نہ ہو۔

موسی علیہ السلام اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو وزیر بنا کرتیس روز کے لیے کوہ طور پر گئے، ابھی اکتیسواں دن شروع نہ ہوا تھا کہ بنی اسرائیل طریق موسوی سے منحرف ہونا شروع ہو گئے اور جب موسی علیہ السلام کوہ طور سے واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ بنی اسرائیل گوسالہ پرستی کر رہے ہیں۔ ہارون علیہ السلام سے جب پوچھا گیا کہ تم کو میں اپنا وزیر بنا کر گیا تھا تو ہارون علیہ السلام نے معذرت چاہی اور فرمایا کہ قوم نے مجھے بےبس کر دیا تھا۔ رسول خدا (ص) جناب امیر کو کلی طور پر اپنے بعد اپنا وزیر بنا گئے یا صرف ایک موقع پر وزیر بنایا سے فرق نہیں پڑتا۔ میری نظر میں خانوادہ علی و بتول (ع) کو رسالت مآب (ص) نے دین کے ایک حقیقی مدافع کے طور پر متعارف کروایا۔ لوگوں کے سامنے اس خانوادے کے اس قدر مناقب بیان کیے کہ کسی کو شک نہ رہے کہ اس خانوادے کا رسالت مآب (ص) کی بارگاہ میں کیا مقام تھا ۔

تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اکرم (ص) کی اس تدبیر نے واقعی اپنا کام دکھایا۔ علی (ع) نبی کریم (ص) کے فوری بعد خلیفہ وقت بنے یا نہیں یہ حقیقت اپنی جگہ مگر امت مسلمہ کا کوئی اہم معاملہ ایسا نہ تھا جس میں امیر المومنین (ع) نے اپنے سے قبل آنے والے خلفاء کی راہنمائی نہ کی ہو۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسی عنوان سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ لولا علی لھلک العمر اگر آج علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔26

اس حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے قیام کو بھی بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ 60ہجری میں حسین ابن علی علیہ السلام کے سوا کوئی بھی ایسا نہ تھا جو فی ذاتہ معیار حق ہوتا۔ فی ذاتہ معیار حق بن جانا فقط اور فقط رسول اکرم (ص) کے اس حسن ترتیب کے سبب ہوا جو آپ نے مدینہ میں اس خانوادے کے متعلق اپنایا۔ امت جانتی ہے کہ مستند احادیث رسول اکرم (ص) کی روشنی میں حسین (ع) جوانان جنت کے سردار ہیں اب جو بھی حسین (ع) کے مخالف آیا چاہے وقت کا حاکم ہی کیوں نہ ہو باطل ہے اور اس کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی آج ان احادیث کو پڑھ کر سنی ان سنی نہ کر دیں، رسالت مآب (ص) کے ان اقوال کو ہلکا نہ لیں بلکہ غور و فکر کریں۔ خداوند کریم ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

حوالہ جات:

14۔ ارشاد مفید ج 2ص403
15۔ ترمذی، الجامع الصحیح،252:5،ابواب المناقب، رقم3768
16۔ طبرانی ، المعجم الکبیر،53:3، رقم:2663،حاکم، المستدرک، 58:3، رقم4705
17۔ احمدبن حنبل، فضائل الصحابہ626:2
18۔ بیہقی، السنن الکبریٰ،65:7،رقم:13178-13179
19۔ حاکم، المستدرک،181:3،رقم:4776
20۔ ترمذی، الجامع الصحیح،299:5، ابواب المناقب، رقم:3870
21۔ طبرانی، المعجم الکبیر،47:3،رقم:2644
22۔ نسائی، السنن،229:2،کتاب التطبیق، رقم:1141
23۔ الحجر:9
24۔ الکافی ، شیخ کلینی، ج 8، ص107
25۔ مسند احمد، الامام احمد بن حنبل ، ج 1،ص170،صحیح بخاری ، البخاری ، ج 5، ص129،باب غزوہ تبوک
26۔ تاویل مختلف الحدیث ، ابن قتیبۃ ، ص 152۔مواقف ، ایجی ، ج 3 ، ص 627 و 636۔شرح مقاصد ، تفتازانی ، ج 2 ، ص 294 ۔التفسیر الکبیر ،فخررازی ، ج 21 ، ص 22۔شرح نہج البلاغۃ ، ابن ابی الحدید، ج 1 ، ص 18و ج 12 ، ص 179۔تمھید الاوائل ، باقلانی ، ص 476 ۔مناقب علی ابن ابیطالب ، ابن مردویہ اصفہانی ، ص 88۔ینابیع المودۃ ، قندوزی حنفی ، ج 1 ، ص 216و ج 2 ، ص 172و ج 3 ، ص 147 ۔تاویل مختلف الحدیث ، ابن قتیبہ، ج 1 ، ص 162۔تمھید الاوائل فی تلخیص الدلائل ، باقلانی ، ج 1 ، ص 476 و 547 ۔الحاوی الکبیر ، ماوردی شافعی ، ج 12 ، ص 115 و ج 13 ، ص 213 ۔ تفسیر سمعانی ، ج 5 ، ص 154 ۔ المفصل فی صنعۃ الاعراب ، زمخشری ، ج 1 ، ص 432 ۔ العواصم من القواصم ، ابوبکر بن عربی ، ج 1 ، ص 203۔حاشیہ الرملی ، رملی ، ج 4 ص 39 ۔الجد الحثیث ، سعودی غزی عامری ، ج 1 ، ص 186۔بریقہ محمودیہ ، محمد بن محمد خادمی ، ج 2 ص 108۔منع الجلیل ، محمد علیش ، ج 9 ، ص 648۔ دستور العلماء، قاضی عبدالنبی نکری، ج 1 ، ص 80
خبر کا کوڈ : 375507
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش