3
0
Wednesday 15 Oct 2014 19:36

تکفیری دہشتگردی اور شیعہ نیریٹیو

Shia Narrative and Takfiri Terrorism
تکفیری دہشتگردی اور شیعہ نیریٹیو
تحریر: عرفان علی
  
سندھی زبان میں ایک کہاوت ہے "لوک لڈن تے، چری اڈن تے" مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب کسی گاؤں کے لوگ نقل مکانی کر رہے ہوتے ہیں تو پاگل وہیں خیمہ زن ہونے آغاز کرتے ہیں۔ مجھے یہ مقولہ اس لئے یاد آیا کہ ابھی تک داعش کا رونا رویا جا رہا ہے جبکہ دنیا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے منظور نظر تکفیری دہشت گرد گروہ حرکت حزم کا تذکرہ زبان زد عام ہے۔ القاعدہ، طالبان وغیرہ وغیرہ کے بعد داعش وغیرہ وغیرہ اور حرکت حزم کے بعد کا بھی انتظام کر دیا گیا ہے۔ امریکہ نے ایک خراسان گروپ نامی نئے تکفیری دہشت گرد گروہ کے قیام کی خبر پھیلائی ہے؟ یہ عمر خالد خراسانی والا گروہ نہیں؟ میکرو لیول پر دنیا کے حالات پر امام خامنہ ای بروقت اپنی رائے بیان کر دیتے ہیں۔ ہمارا کام مائیکرو لیول پر اسی موقف کو زیادہ تفصیل سے بیان کرنا ہے نہ کہ کچھ اور۔ جس طرح ہم برادران اہلسنت سے گفتگو میں صحاح ستہ سمیت ان کے لئے معتبر کتب کا حوالہ دیتے ہیں، اسی طرح دنیا کے ایشوز پر بھی دنیا کے لئے قابل قبول ریفرنس بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ امریکی صہیونی ایجاد ہے بلکہ دنیا میں اس کی دلیل بھی طلب کی جاتی ہے۔ 

یہ تفصیلات بیان کرنے کا مقصد تکفیری دہشت گردی پر شیعہ نیریٹیو کی وضاحت ہے، کیونکہ شیعہ تجزیہ نگار و دانشور امریکیوں کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کرتے کہ جو امریکی خواص اپنی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، وہ بھی پورا سچ نہیں بتا رہے بلکہ آدھے سچ سے کام چلا رہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی کتاب میں عراق پر کوئی علیحدہ باب ہی نہیں، لیکن اس کے حوالے سے بھی دعویٰ کر دیا گیا کہ اس نے کہا کہ امریکہ نے داعش ایجاد کی! اس نے ایسا نہیں کہا تھا۔ ایک اور مثال امریکی سینیٹر رینڈ پال ہے۔ بش کی ری پبلکن پارٹی سے وابستہ اس سینیٹر نے 22 جون 2014ء کو امریکی نیوز چینل ’’سی این این‘‘ کے اسٹیٹ آف دی یونین پروگرام میں ایک اصول بتایا کہ پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ صورتحال یہاں تک کیسے پہنچی؟ لیکن انہوں نے اس صورتحال کو شام سے شروع کیا کہ داعش کے طاقتور بننے کا ایک سبب یہ تھا کہ امریکہ نے شام میں داعش کے اتحادیوں کو مسلح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ شام میں داعش کا اتحادی بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش کو محفوظ جنت (ٹھکانہ یا پناہ گاہ) ملی کیونکہ باغیوں کو بشار الاسد سے دور رکھنے کے لئے امریکہ انہیں اسلحہ فراہم کر رہا تھا۔ ان کے مطابق شام میں امریکی مداخلت نے صورتحال کو یہاں تک پہنچایا۔ ابھی وہ مزید کچھ کہنا چاہ رہے تھے تو پروگرام کی میزبان کینڈی کراؤلی نے کراس ٹاک کرکے انہیں ماضی سے مستقبل کی جانب دھکیلا کہ اب اوول آفس (یعنی ایوان صدر) کو کیا کرنا چاہئے اور سینیٹر رینڈ پال صدر بن کر سوچیں کہ کیا فضائی حملے کرسکتے ہیں۔؟(اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ رینڈ پال کے بارے میں یہ مکمل بات ابھی تک اس طرح بیان کی گئی)۔
 
یہ نکتہ عرض کردوں کہ رینڈ پال نے آدھا سچ بیان کیا کیونکہ صورتحال یہاں تک شام سے نہیں پہنچی بلکہ یہ دہشت گرد تو عراق سے ہی شام گئے تھے اور عراق جنگ رینڈ پال کی ری پبلکن پارٹی کی بش دوم حکومت نے شروع کی تھی۔ عراق سے پہلے عصر حاضر میں یہ سب کچھ افغانستان سے شروع ہوا۔ سوویت یونین کا تو سقوط ہوگیا لیکن افغانستان سے القاعدہ اور طالبان نامی مخلوق ایجاد ہوئی، سپاہ صحابہ بھی افغان جہاد کے دور میں پاکستان میں وجود میں آئی۔ القاعدہ اور طالبان کو کس نے تخلیق کیا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا، اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ قصہ مختصر یعنی امریکہ اور سعودی عرب نے قائدانہ کردار ادا کیا، دیگر مسلم، عرب ممالک اور یورپی ممالک نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تفصیلات کے لئے ان امور کے ماہر نامور امریکی صحافی و مصنف جون کے کولے کی کتاب ’’ان ہولی وارز‘‘ پڑھ لیں۔ (اگر قارئین چاہیں گے تو ٓآئندہ ان ہولی وارز میں بیان کئے گئے نکات بھی ضبط تحریر میں لائے جاسکیں گے ورنہ معذرت)۔ مذکورہ کتاب میں افغان جہاد میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں، ’’مجاہدین‘‘ کی بھرتی، ٹریننگ، فنڈنگ، سمیت سب نکات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ جنرل ضیاء اور سعودی کردار کا تو سب تذکرہ کرتے ہیں مگر ایمن الظواہری کے ملک مصر اور اس وقت کے حکمران انور سادات کے کردار پر جون کولے ہی کو لکھنے کی توفیق ہوئی۔ کولے کا انتقال اگست 2008ء میں ہوا۔
 
ایک مستند دلیل رابن کک کا بیان ہے۔ وہ بش حکومت کے وزیر خارجہ کے عنوان سے شہرت پانے والے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی حکومت میں وزیر خارجہ تھے اور اگست 2005ء میں رحلت فرما گئے۔ رابن کک نے برطانوی ایوان میں بھی کہا تھا اور روزنامہ گارجین میں 8 جولائی 2005ء کو ایک آرٹیکل میں بھی لکھا کہ (القاعدہ کا قائد) اسامہ بن لادن مغربی سکیورٹی اداروں کی جانب سے کی گئی یادگار ’’مس کیلکیولیشن‘‘ کی پیداوار تھا کیونکہ 1980ء کے عشرے میں بن لادن کو امریکی سی آئی اے مسلح کرتی رہی اور سعودی عرب فنڈنگ کرتا رہا۔ رابن کک نے مزید لکھا کہ القاعدہ کا مطلب ڈیٹا بیس تھا کیونکہ یہ ان ہزاروں ’’مجاہدین‘‘ کی کمپیوٹر فائل کا نام تھا جنہیں سی آئی اے کی مدد سے بھرتی کیا گیا اور تربیت فراہم کی گئی، تاکہ وہ سوویت یونین سے لڑیں۔ 

سابق امریکی سینیٹر بوب گراہم کی بھی سن لیں، جو امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین اور نائن الیون حملوں کی آفیشل انکوائری کے شریک چیئرمین تھے۔ ان سے کی گئی گفتگو کو برطانوی اخبار ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ میں آئرش صحافی و کالم نگار پیٹرک کوک برن نے 14 ستمبر 2014ء کو بیان کیا ہے۔ سینیٹر بوب گراہم نے کہا کہ داعش اس لئے تشکیل پائی کہ امریکی حکومت نائن الیون حملوں میں سعودی کردار اور اس کے بعد القاعدہ جیسی تنظیموں کی سعودی امداد کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہی۔ ان کے مطابق امریکی اتحادی سعودی عرب کی وجہ سے امریکی انٹیلی جنس داعش کے بارے میں حقیقی تجزیہ کرنے میں ناکام  رہی۔ میں پہلے ہی اپنی رائے سحر ٹی وی کے پروگرام انداز جہاں میں بیان کرچکا ہوں کہ اب امریکہ اور اس کے اتحادی سعودی عرب، قطر اور ترکی ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے صورتحال یہاں تک پہنچی ورنہ الزام تراشیوں کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ تاحال وہ اتحادی ہی ہیں۔ 

نائن الیون کے حملوں میں امریکی سعودی کردار اور ان کے طالبان اور القاعدہ کنیکشن کے بارے میں فرانسیسی پولیٹیکل سائنٹسٹ اور ریسرچر ’’تی ایری میسان‘‘ نے اپنی تحقیقی کاوش بعنوان ’’9/11، دی بگ لائی‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ احمد رشید بھی لکھ چکے ہیں۔ حتٰی کہ بعد میں طالبان کی حمایت کرنے والے ہفت روزہ تکبیر نے مارچ 1995ء میں ہی طالبان کے قیام میں اس کے مغربی سرپرستوں کے کردار سے پردہ ہٹا دیا تھا۔ تکبیر میگزین کے سرپرستوں میں جنرل حمید گل بھی شامل تھے۔ طالبان حکومت کے بارے میں پاکستانی سفارتکار افتخار مرشد نے بھی کتاب لکھی تھی۔ عراق میں دہشت گردی اور داعش سمیت سارے تکفیری دہشت گردوں کے بارے میں بات کرتے وقت یہ سب نکات ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہیں۔
 
5 فروری 2003ء کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں ایک طویل تقریر کی اور القاعدہ کا صدام کے ساتھ تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ 1950ء کے عشرے سے ایران عراق جنگ تک صدام کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے تعلق پوری دنیا کو معلوم ہے! ساڑھے دس ہزار انگریزی الفاظ پر مشتمل اس تقریر میں اس تعلق کا مرکزی کردار ابو مصعب الزرقاوی تھا۔ اردن کے علاقے زرقا میں پیدا ہونے والا یہ عرب بھی افغانستان کے جہاد میں شریک تھا۔ یہاں سے اردن آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اردن میں قیدی تھا لیکن سزا کے پہلے سال میں ہی شاہ عبداللہ نے شاہی فرمان جاری کرکے آزاد کر دیا تھا۔ زرقاوی کے بارے میں ذکی شہاب، فواد عجمی سمیت ہر اس دانشور اور صحافی نے لکھا جنہوں نے عراق کے بارے میں کتابیں تصنیف کیں۔ زرقاوی سمیت بہت سے دہشت گردوں کی یہ حقیقت ہم پاکستانیوں پر پہلے ہی منکشف ہوچکی تھی، لیکن امریکی سی آئی اے میں 20سال سے زائد کام کرنے والے افسر مائیکل شوائر نے ریٹائرمنٹ کے چار سال بعد ایک کتاب میں بیان کیا۔ 

مائیکل شوائر 1996ء سے 1999ء تک بن لادن یونٹ کا سربراہ تھا۔ 2001ء سے نومبر 2004ء تک بن لادن یونٹ کے سربراہ کا مشیر خاص تھا اور اسی سال ریٹائرڈ ہوگیا تھا۔ ’’مارچنگ ٹوورڈ ہیل: امریکہ اینڈ اسلام آفٹر عراق‘‘ کے چوتھے باب میں موصوف نے لکھا کہ افغان جہاد کے وقت مسلمان ممالک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اسلام پسند تھی اور ان کی جانب سے حکومت مذہبی دباؤ محسوس کرتی تھی، افغان جہاد کی صورت میں انہیں اپنے معاشرے میں ریڈیکل مذہبی دباؤ کو ریلیز کرنے والا والو (valve) مل گیا۔ مذہبی قیدیوں کو اس شرط پر آزاد کیا جانے لگا کہ وہ افغانستان جاکر ملحد سوویت حملہ آوروں سے لڑیں۔ کئی قیدی آمادہ ہوئے۔ حکومتوں نے سوچا کہ اس طرح یا وہ ماریں گے یا مارے جائیں گے۔ بالکل اسی طرح ہوا، لیکن بعض اس جنگ میں بچ نکلے، اپنے وطن لوٹ گئے اور اپنی حکومتوں کے لیے مسئلہ بنے۔ مثال کے طور پر تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش میں وہ حکومت مخالف سیاسی لیڈر بنے اور الیکشن میں بھی حصہ لینے لگے۔ عراق چونکہ ماضی میں خلافت کا مرکز رہ چکا ہے، اس لئے افغانستان کی نسبت زیادہ جنگجو افراد یہاں آنے پر مائل تھے۔ لہٰذا عرب حکومتوں کو یہ صورتحال آئیڈیل لگی۔ افغان جہاد کے بعد اندرونی مشکلات و عدم استحکام کو کم کرنے کے لئے انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ مائیکل شوائر نے بھی رینڈ پال کی طرح آدھا سچ بیان کیا۔ 

مختصر یہ کہ افغانستان پر سوویت یونین نے حملہ نہیں کیا تھا، لیکن سی آئی اے افغانستان کو اپنا کہتی تھی اور مجاہدین میں assets بنانے کی پالیسی وضع کرچکی تھی۔ امریکیوں کی موجودگی و سرپرستی میں افغان جنگ سے القاعدہ نے جنم لیا تھا۔ جب صدام کے ذریعے ایران پر جنگ جاری تھی، تبھی افغانستان میں طالبان مسلط کرنے کا فیصلہ ہوگیا تھا، جب القاعدہ کے بہانے افغانستان پر جنگ کی جا رہی تھی، تبھی عراق میں تکفیریوں کو پہنچانے کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ اب امریکی یہ کہتے ہیں کہ شام میں امریکہ نے القاعدہ سے منسلک گروہوں کی مدد کی، اس سے داعش پھیلی جبکہ وہ باقاعدہ طور پر 2006ء میں اس نام سے وجود میں آچکی تھی۔ مستند حوالہ جات کے ساتھ یہ پس منظر ترتیب سے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ حرکت حزم کے بعد تکفیریوں کے ذریعے امریکی صہیونی سعودی جنگ کا اگلا مرحلہ خراسان گروپ کے ذریعے لڑے جانے کا امکان ہے۔ 

(نوٹ: اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ کیا بات مکمل ہوگئی۔ اپنا ہاضمہ برائے مطالعہ بڑھائیں۔ خود دیکھیں کہ ابھی سی آئی اے سابق ڈائریکٹر جارج ٹینیٹ کی بیان کردہ معلومات بیان ہی نہیں کیں، رینڈ پال اور مائیکل شوائر نے آدھا سچ چھپایا وہ کیا ہے، سی آئی اے کے سابق افسران اور بش حکومت کے دیگر اہم افراد بشمول رچرڈ کلارک نے کیا لکھا؟ اسٹیو کول نے اسامہ بن لادن کے بارے میں کیا لکھا وغیرہ وغیرہ۔ ابھی ہیلری کلنٹن نے کیا لکھا ہے؟۔ یہ بیان کرنے کے لئے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، اور اگر آپ کے پاس پڑھنے کا وقت نہیں تو کئی کتابوں کے ہزاروں صفحات اور ہزاروں الفاظ پر مشتمل خبروں و مقالوں سے معلومات جمع کرکے پیش کرنے کے لئے فالتو وقت میرے پاس بھی نہیں ہے۔ عراق کے موضوع پر اسلام ٹائمز کے لئے میری گذشتہ تحریریں پڑھ لیں)۔
خبر کا کوڈ : 414800
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سبحان آللہ۔
اگر آپ کے پاس پڑھنے کا وقت نہیں تو کئی کتابوں کے ہزاروں صفحات اور ہزاروں الفاظ پر مشتمل خبروں و مقالوں سے معلومات جمع کرکے پیش کرنے کے لئے فالتو وقت میرے پاس بھی نہیں ہے۔ عراق کے موضوع پر اسلام ٹائمز کے لئے میری گذشتہ تحریریں پڑھ لیں۔
سلام
بالکل درست لکھا ہے عرفان صاحب، اتنی محنت سے کوئی معلوماتی تحریر لکھیں اور پھر اس کی طوالت کی شکایت کی جائِے تو اچھا نہیں لگتا۔ میری رائے میں محترم عرفان علی نے بلاجھجھک و بلا تکلف جو درد بیان کیا ہے، اس کے بعد ہمیں ان سے ان موضوعات پر مزید لکھنے کی درخواست کرنا چاہئے اور یہ کہنا چاہئے کہ ہم بھی تھکتے والے نہیں۔
slm, bohot acha hai
ہماری پیشکش