2
0
Thursday 27 Mar 2014 08:30

سعودی عرب ڈالرز کے بدلے ہمیں شام، بحرین اور امریکہ کی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، مفتی ہدایت اللہ پسروری

سعودی عرب ڈالرز کے بدلے ہمیں شام، بحرین اور امریکہ کی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، مفتی ہدایت اللہ پسروری
مفتی ہدایت اللہ پسروری 1942ء میں انڈیا کے ضلع کانگڑا میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام میاں غلام مصطفٰی تھا جو کہ اپنے دور کے نامور عالم دین تھے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں آباد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پسرور شہر سے حاصل کی اور آٹھویں جماعت کے بعد والد صاحب کی خواہش پر پسرور میں ہی اس وقت کے بزرگ عالم دین حافظ محمد علی پسروری سے علم دین حاصل کرنا شروع کیا۔ بعدازاں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں داخلہ لیا اور فنون کی تعلیم وہاں سے حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ رضویہ فیصل آباد، وزیرآباد اور جامعہ انوارالعلوم ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے تعلیم حاصل کی۔ جس کے بعد 1965ء سے آپ ملتان میں دین خدا کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ آپ زمانہ طالب علمی سے ہی جمیعت علمائے پاکستان میں شامل ہوگئے تھے۔ آپ جمعیت میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے اور آپ نے علامہ شاہ احمد نورانی کے ساتھ بھی کام کیا۔ آج کل آپ جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گذشتہ روز ملکی مجموعی صورتحال پر ان سے انٹرویو کیا، جو کہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: طالبان سے مذاکرات شرعی حوالے سے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سب سے پہلے طالبان سے مذاکرات کرنا جائز ہیں لیکن ظالمان سے نہیں،
جس طرح ہمارے نام کو غلط استعمال کیا گیا اور بعض کالعدم گروہوں نے اپنا نام اہلسنت والجماعت رکھ دیا، اسی طرح ظالمان اور انسانیت سے گرے ہوئے لوگوں نے بھی اپنا نام طالبان رکھ لیا ہے۔ دوسری بات حکومت کے پاس جو سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ ہے وہ شرعی حوالے سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، شرعی حوالے سے ان مذاکرات کی حمایت یا اجازت جب تک شہداء کے ورثاء نہ دیں، اُس وقت کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے، وہ مذاکرات کس آئین اور کس شریعت کے تحت کر رہے ہیں۔ لہذا جب تک شہداء کے ورثاء اور خانوادے راضی نہ ہوں، اُس وقت تک مذاکرات شریعت کے منافی ہیں۔

اسلام ٹائمز: مذاکرات کن سے کرنے چاہییں۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: مذاکرات کیے جانے چاہییں لیکن کن سے کیے جانے چاہییں یہ الگ بحث ہے۔ مذاکرات پہلے بھی کیے جاتے ہیں، لیکن اس طرح نہیں کیے جاتے کہ جس طرح اب حکومت کر رہی ہے، مذاکرات اُن سے کیے جائیں جو ریاست کی رٹ کو تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار پھینک دیں، قانون کی حکمرانی کو تسلیم کریں، ملک میں جاری دنگے، فساد، دھماکے اور خودکش حملوں کو روک دیں، لیکن یہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے جو آئین کو نہ مانے، قانون کو نہ مانے، ریاست کی رٹ کو تسلیم نہ کرے، ملک میں امن کی دھجیاں آڑائے مذاکرات اُسی سے کیے جاتے ہیں۔ جو حکومت کو آنکھیں دکھائے، بے گناہوں
کا خون بہائے، مزارات کو شہید کرے، علماء کو قتل کرے، قومی اثاثوں پر حملہ کرے، اُن سے مذاکرات کیے جاتے ہیں، لیکن جو اس دہشت گردی کا شکار ہوئے، آج تک اُن سے کسی نے حال تک نہیں پوچھا؟

اسلام ٹائمز: مذاکرات کو کامیاب ہوتے دیکھتے ہیں یا ناکام۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: مجھے مذاکرات کی کامیابی کے زیادہ آثار نظر نہیں آ رہے، کیونکہ شہداء کے بے گناہ خون کا بدلہ اگر ریاست نہیں لے گی تو خدا ضرور لے گا، دوسری بات جو لوگ آج مذاکرات کر رہے ہیں، ایک دن یہی اس دہشت گردی کا شکار ہوں گے، کیونکہ جو ملک اور ریاست کا دشمن ہے، اُس کو اس بات کی تمیز نہیں کہ میں کب؟ کیوں؟ اور کسے قتل کر رہا ہوں۔ بہرحال ہم تو شروع دن سے ہی اس کے مخالف ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات صرف اُن سے ہوں جو آئین اور قانون کو تسلیم کریں، لیکن حکومت اپنے شوق پورے کرنے کے چکروں میں اور اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے چکروں میں ہے۔

اسلام ٹائمز: جنگ بندی کے دوران جو حملے ہوئے ہیں (پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد) ان کے پیچھے طالبان ہیں یا واقعی کوئی اور ہے۔؟

مفتی ہدایت اللہ پسروری: اولاً تو جنگ بندی یکطرفہ تھی اور دوسری بات ہماری حکومت ان دہشتگردوں کو سٹیٹ کا درجہ دے کر بات کر رہی ہے، اس جنگ بندی کے دوران جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، ان میں طالبان ہی ملوث ہیں۔ اس وقت حکومت میں موجود بعض ایسی طاقتیں ہیں جو جن کی
ہمدردیاں مکمل طور پر ان کے ساتھ ہیں، آپ اگر اسلام آباد کچہری کا واقعہ دیکھیں تو معلوم ہوجائے کہ اتنی پلاننگ کے ساتھ جو کیا گیا یہ کسی چھوٹے یا نئے گروہ کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہی طاقتیں ہیں، جو کافی عرصے سے ملک کے امن کو تباہ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جو ملک اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوج کو میدان میں نہیں اُتارتا، کیا اُسے کسی اور کی جنگ میں پاک فوج کو دھکیلنا چاہییے۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: اس میں دو باتیں ہیں، پہلی بات کہ اپنے ملک میں فوج کو اُتارنا اور دوسری کہ کسی اور ملک میں بھیجنا، ان دونوں کے الگ الگ جواب ہیں۔ اپنے ملک میں فوج کو اُتارنا یہ الگ بحث ہے، لیکن کسی دوسرے کی جنگ میں اپنی فوج کو دھکیلنا خودکشی کے مترادف ہے، پہلے ہم نے بحرین میں اپنی فوج کو عرب ملک کی خواہش پر بھیجا، نتیجہ کیا نکلا اپنے جوانوں کو بھی مروایا اور وہاں پر مسلمانوں کو بھی مروایا، جس کی وجہ سے ہم دنیا میں کرائے کے قاتل مشہور ہوتے جا رہے ہیں، جس نے اپنی جنگ لڑنی ہوتی ہے وہ چند ڈالر پھینکتا ہے اور ہماری فوج کو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں دھکیل دیتا ہے۔ آخر کب تک ہم دوسروں کی جنگ میں اپنے جوانوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے؟ ہم حکومت کو واضح کرتے ہیں کہ اگر کسی بھی عرب ملک کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے پاک فوج کو قربانی کا بکرا بنایا تو قوم سراپا احتجاج ہوگی۔

اسلام
ٹائمز
: سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے پیچھے کیا راز ہے؟ اس کی کیا قیمت ادا کرنی ہوگی۔؟

مفتی ہدایت اللہ پسروری: دیکھیں سعودی عرب کی نواز حکومت کے ساتھ قربتیں ہیں اور جو رقم سعودی عرب نے دی ہے، اس کے پیچھے اُس کا کوئی مقصد ضرور ہے، حکومت چاہے جتنی بھی صفائیاں پیش کرے، ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اتنی بڑی رقم مفت میں کوئی نہیں دیتا، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی راز ضرور پوشیدہ ہے، یہ عرب ملک اس رقم کے بدلے ہمیں شام، بحرین اور امریکہ کی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے اور ان دہشتگردوں سے مذاکرات کے پیچھے بھی اس عرب ملک کا ہاتھ ہے جو ان دہشتگردوں کو محفوظ راستہ دے کر شام میں باغیوں کی حمایت کے لیے بھیجنا چاہتا ہے اور بشارالاسد کی حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: چند روز قبل سعودی عرب نے تین اسلامی تحریکوں، حزب اللہ، حماس اور اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دیا ہے۔؟ کیا یہ امریکہ و اسرائیل کی خوشنودی کے لیے ہے یا اپنی پالیسی کا حصہ۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: مسکراتے ہوئے۔ سعودی عرب نے مصر میں جو کیا، وہ سب کے سامنے ہے، ایک جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور ایک فوجی آمر کو امداد دے کر اخوان المسلمون کی حکومت ختم کرا دی، دوسری بات اس وقت سعودی عرب کو فلسطین کی نہیں امریکہ و اسرائیل کی فکر ہے اور یہ تینوں اسلامی تحریکیں حزب اللہ، حماس اور اخوان المسلمون
فلسطین کی آزادی کے لیے کام کر رہی ہیں، جو کسی بھی صورت میں امریکہ و اسرائیل کو منظور نہیں، لہذا امریکہ و اسرائیل کی خوشنودی کے لیے ان اسلامی تحریکوں کو کالعدم قرار دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی قوم کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں، سعودی عرب، امریکہ یا فلسطین۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: پاکستانی قوم ایک عجب قوم ہے، لیکن اس کی ہمدردیاں ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، سعودی عرب نے حزب اللہ، حماس اور اخوان المسلمون کو کالعدم قراردے کر ایک بار پھر اپنا چہرہ واضح کر دیا ہے کہ اسلام کی خدمت کر رہا ہے یا یہود و ہنود کی۔ پاکستانی قوم آج بھی امریکہ اور اسرائیل سے نفرت کرتی ہے اور اب آہستہ آہستہ سعودی عرب بھی اسی لائن میں آرہا ہے۔

اسلام ٹائمز: جو جماعتیں طالبان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتی ہیں، یا اُن کے رہنما ان دشمنوں کو اپنا بھائی یا بیٹا کہتے ہیں، اُنکے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: یہ اچھا ہے، ان مذاکرات کی وجہ سے کئی لوگوں کے چہرے آشکار ہو رہے ہیں، کوئی ان دہشتگردوں کو بھائی تو کوئی ان قاتلوں کو بیٹا کہہ رہا ہے۔ ابھی مزید کئی لوگ پہچانے جائیں گے، کہتے ہیں نہ وقت بہترین اُستاد ہے اور وقت وقت کے ساتھ جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور ان دہشتگردوں کے ساتھ نرم گوشہ رکھنے والی جماعتیں اپنا حق ادا کر رہی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 366265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

good.
مفتی صاحب نے سچ بات کی ہے، اس طرح کے بیانات ہمارے علماء بھی نہیں دیتے، خدا ہمیں حق اور سچ کہنے کی توفیق دے، آمین
ہماری پیشکش