1
0
Wednesday 8 Feb 2012 00:05

بحرین میں پروان چڑھتی اسلامی بیداری (حصہ دوم)

بحرین میں پروان چڑھتی اسلامی بیداری (حصہ دوم)
تحریر:سید اسد عباس تقوی 

آل خلیفہ حکومت اور ملک کی اہم اپوزیشن جماعتوں کے مابین طے پانے والے 14 فروری 2001ء کے نیشنل ایکشن پلان کی یاد منانے، اور ملک میں سیاسی اصلاحات کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر حکومتی اداروں تک پہنچانے کی غرض سے، بحرین کے نوجوانوں نے ہمسایہ عرب ممالک میں ابھرنے والے انقلابات کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ایک پرامن تحریک برپا کرنے کا فیصلہ کیا۔ میدان تحریر کی مانند دوار الولوہ (پرل اسکوائر) کو مرکز قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے نوجوان وںدوار الولوہ پر جمع ہو گئے جبکہ دوسری جانب عرب ممالک کے انقلابات سے بوکھلائی ہوئی حکومت نے اپنے سیاسی مشیروں کے مشورے سے اس تحریک کو سختی سے کچلنے کا فیصلہ کیا۔ بحرینی حکومت کے اس ارادے میں اس کے عرب ہمنوا خلیجی ممالک تو شامل تھے ہی ففتھ فلیٹ والوں کی بے چینی بھی دیدنی رہی۔ کبھی نیویارک پولیس کا چیف بحرین آتا ہے تو کبھی وزیر دفاع۔ دوار الولوہ جسے میدان تحریر کی مانند تحریک کے مرکز کے طور پر چنا گیا تھا کو مقام عبرت بنانے کے لیے زمین بوس کر دیا گیا۔ سیکورٹی ادروں نے عوام پر یوں تشدد کیا کہ تیونس و مصر کے مظالم کو بھی مات دے دی۔

17 فروری 2011ء کی رات کو بحرین میں کرائے کی افواج اور پولیس نے حکومتی ایما پر پرل اسکوائر یا دوار الولوہ کے مظاہرین پر طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔ اس پر تشدد شام اور اس کے بعد گرفتاریوں کے سلسلے کے باوجود جب یہ مظاہرین اپنے مطالبے سے نہ ہٹے تو حکومت بحرین نے اپنے اقتدار کو بچانے اور ملک میں بیداری اسلامی کی اس لہر کو دبانے کے لیے خلیجی ہمسایوں سے مدد کی اپیل کی۔ کویت کے علاوہ باقی خلیجی ممالک کی افواج عوامی بیداری کی اس لہر کو دبانے اور آل خلیفہ کے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے 14 مارچ 2011ء کو بحرین میں داخل ہوئیں۔ حمد بن عیسی آل خلیفہ نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا جو گزشتہ سال کے ماہ جون تک جاری رہا۔(15) 

عوام سے سیکورٹی اداروں کا سلوک:
چودہ فروری سے تادم تحریر بحرین کی سکیورٹی فورسز نے چادر و چار دیواری اور انسانی حقوق کا یوں جنازہ نکالا کہ اس کی صدائیں حکومت بحرین کے سب سے بڑے مغربی اتحادی امریکی کانگریس میں بھی سنائی دینے لگیں۔ ڈاکٹر، نرسیں، انسانی حقوق کے نمائندے، شاعر، عالم، استاد، سیاسی و غیر سیاسی راہنما حتی اللہ کا گھر یعنی مسجدوں کو بھی معاف نہ کیا گیا ایک بحرینی سائٹ کے شواہد کے مطابق اس وقت تک بحرین میں بھاڑے کے فوجی، اور خلیجی سورما 22 مساجد مسمار کر چکے ہیں۔
بحرین کے بزرگ عالم دین شیخ عیسی قاسم اسی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں :
"مقدسات کی توہین اور مخدرات کی ہتک، انسانی و بین الاقوامی اور شرعی قوانین کی پامالی ہے۔ قرآن کریم تمام کتابوں میں عظیم کتاب ہے مسجد عبادت کی جگہ ہے، حسینیہ و امام بارگاہ امام حسین (ع) کے پیغام کا پرچم دار ہے، مومنوں کی نیک بیویاں اور پاک خون مقدسات میں سے ہیں کہ جن کی توہین کسی معاشرے و حکومت میں جائز نہیں ہے"۔
شیخ عیسی قاسم نے حکومتی اداروں کی بربریت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ "مومن و وفادار عورتوں کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے اور یہ مظلوم خواتین مدد کے لیے پکارتی رہیں۔ مجھے بتائیں کہ اس سے قبل کون سے اسلامی ملک میں ایسا ہوا اور کونسا باضمیر انسان اس قسم کے واقعات پر خوش ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت دن کے اجالے میں خواتین کے خلاف یہ ظالمانہ اقدام کر رہی ہے اور شہریوں کی عزت کو یوں سرِبازار کچل رہی ہے تو پھر جیلوں میں کیا ہو رہا ہو گا؟(16) 
ظاہر ہے کہ اس قسم کے واقعات اور مظالم آخر کب تک برداشت کیے جاتے۔ نتیجتا ملک میں سیاسی اصلاحات کے مطالبے کے ساتھ شروع ہونے والی یہ پرامن تحریک آل خلیفہ کے اقتدار کے خاتمے کے مطالبے پر منتہج ہوئی۔ جو ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال جاری ہے۔ 

ایک اہم سوال:
یہاں ایک اہم سوال جنم لیتا ہے اور وہ یہ کہ لیبیا، مصر اور تیونس میں تبدیلی نظام کے لیے شروع ہونے والی تحریکیں باوجود وہاں براجمان حاکموں کے تجربے اور ظلم و بربریت کے بہت کم عرصے میں اپنی منطقی نتائج تک پہنچ گئیں تاہم بحرین اور یمن میں کونسی ایسی خاص بات ہے کہ اتنی ہی قربانیاں دینے کے باوجود عوامی مطالبہ اب تک پورا نہیں کیا جا سکا؟ اس سوال کے کئی ایک جوابات ہو سکتے ہیں تاہم جو جواب مجھے زیادہ قرین قیاس نظر آتا ہے پیش قارئین ہے۔
دنیا کے نظام کو اپنی انگلیوں پر نچانے والی سپر پاور کو عرب معاشروں میں پائی جانے والی بےچینی کا بہت پہلے ادراک ہو چکا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ عرب حکمرانوں کے تعلقات، امریکہ، اسرائیل کے بارے میں حکومتی پالیسیاں اور ملک میں پائی جانے والی دیگر معاشی و اقتصادی ناہمواریاں عوامی ذہنوں میں لاوے کی مانند پک چکی تھیں۔ عوام ایک ہی چہرے اور نظام کو دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے تھے۔ تبدیلی بدیہی تھی۔ امکانی طور پر تبدیلی کے دو طریقے ہو سکتے تھے۔ پہلا یہ کہ عوامی اذہان میں پکنے والے اس لاوے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا، جو اپنے معینہ وقت پر پھٹتا اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کر دیتا جبکہ دوسرا طریقہ قوت کے انتظام کا طریقہ ہے، یعنی افکار کے اس لاوے کو ایک نظم کے تحت یوں خارج کیا جائے کہ اس سے ہونے والا نقصان کم سے کم ہو اور ضرورت کے مطابق چہرے اور نظام دونوں بدل دیئے جائیں۔ 

میری رائے میں تبدیلی نظام کا یہی طریقہ مصر، تیونس اور لیبیا میں آزمایا گیا۔ مصر، تیونس اور لیبیا میں آنے والی تبدیلیاں اگرچہ وہاں کے عوام کے لیے خوش آئند ہیں تاہم ان تبدیلیوں سے سپر پاور کے مفادات اور مشرق وسطی میں اس کے لے پالک کے وجود کو بھی کچھ سالوں کا بیمہ مل گیا ہے، علاوہ ازیں اچانک ناخوشگوار تبدیلی کا خطرہ بھی کچھ سالوں کے لیے ٹل چکا ہے۔ اس بات سے قطعا یہ مراد نہیں کہ ان ممالک میں آنے والے انقلابات غیر حقیقی تھے یا ان کا عوامی امنگوں سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ درحقیقت ان حقیقی انقلابات کو انتہائی چالاکی اور ہوشیاری سے کم سے کم نقصان اٹھا کر اپنے منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ چہرے اور نظام بدلنے کے اس عمل میں مقامی مہروں کا کردار بہت اہم رہا۔ 

بحرین کے بارے میں چند حقائق:
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق بحرین کی آبادی 70 فیصد شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، بحرینی معاشرہ آبادی کے تنوع کے باوجود مذہبی رواداری کے حوالے سے مشرق وسطی میں معروف تھا تاہم حکومتی ہتھکنڈوں کے باعث اب بحرین کی اکثریتی آبادی ملک میں حاکم آل خلیفہ خاندان کی پالیسیوں کے سبب ایک طرح کے احساس محرومی کا شکار ہے۔(17) 
اطلاعات کے مطابق بحرینی حکومت آبادی کے اس تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک سے افراد کو درآمد کرتی رہتی ہے۔ (یہاں یہ بات ذکر سے رہ نہ جائے کہ ایسی ہی ایک بھرتی کا میں عینی گواہ ہوں جس میں بحرین کی افواج کے ایک کرنل پاکستان تشریف لائے اور ملک کے طویل القامت سنی نوجوانوں کو بھرتی کرکے لے گئے، راقم تمام ضروری شرائط پر پورا اترنے کے باوجود سید ہونے کے سبب اس عظیم سعادت اور درآمدگی کے عمل سے محروم رہا)۔ بحرینی شیعہ اکثر اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں اس ملک میں کسی اہم سیاسی یا حکومتی عہدے پر کام کرنے کا استحقاق نہیں دیا جاتا۔(18) بحرین کی اکثریتی آبادی کو یہ بھی شکوہ ہے کہ ملک میں قائم منتخب پارلیمان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ 

فرقہ واریت اور بیرونی مداخلت:

مندرجہ بالا گزارشات کے تناظر میں اکثر عرب سیاسی پنڈت بحرین کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بیداری کو ایرانی حکومت کی بحرین کے معاملات میں مداخلت گردانتے ہیں۔ فرقہ واریت کا یہ الزام بحرین کے شیعوں سے ہی مخصوص نہیں۔ اس سے قبل بھی اسی قسم کی باتیں انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں بھی کہی گئیں۔ فرقہ واریت کے اس نعرے سے عرب حکمرانوں نے بہت سے فوائد اٹھائے، ایران کو مسلم امہ میں تنہا کر دیا گیا اور یوں یہ انقلاب اذہان میں اس رفتار سے رسوخ نہ کر سکا جتنی رفتار سے اس قسم کی افکار کو رسوخ کرنا چاہیئے۔ تیونس اور مصر کی مثالوں کو ہی لے لیجئے صرف چند ماہ کے عرصے میں عرب دنیا کے چار یا پانچ ممالک میں ایک دوسرے سے مہمیز لیتے ہوئے ایک ہی طرح کی تحریکیں شروع ہوئیں تاہم ایران کا اسلامی انقلاب 80 کی دہائی کا اپنی طرز کا واحد واقعہ تھا، جسے ایک طرف تو فرقہ واریت کا طعنہ سہنا پڑا تو دوسری جانب عراق کی جانب سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ لڑنی پڑی۔

آج عرب شہنشاہوں کا یہ زہریلا پراپیگنڈہ اپنی زندگی پوری کر چکا ہے۔ حماس، جہاد اسلامی فلسطین اور اس جیسی کئی مبارز جماعتیں آج عرب حاکموں سے زیادہ ایران پر بھروسہ کرتی ہیں۔ بیداری کی یہ لہر مصر، تیونس، الجزائر، یمن، بحرین سبھی جگہوں پر محسوس کی جا رہی ہے۔ فرقہ واریت کا الاپ پاکستان میں تو بجایا جا سکتا ہے لیکن ان عرب جوانوں کو دھوکہ دینا ممکن نہیں رہا جنہوں نے ایران کی پروردہ حزب اللہ کو اسرائیل کی ناک میں نکیل ڈالتے دیکھا ہے۔ ایران کے موجودہ قائد انقلاب سید علی خامنہ ای نے گزشتہ جمعہ اپنے ایک خطاب میں بحرینی حاکم اور اس کے ہمنواوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزام کے بارے میں فرمایا:
"ایران جہاں بھی مداخلت کرتا ہے بڑے واشگاف انداز میں اور اعلانیہ طور پر کرتا ہے ۔مثلا ہم نے لبنان کی 33 روزہ جنگ میں مداخلت کی جس کا نتیجہ لبنانیوں کی اسرائیل کے خلاف فتح کی صورت میں سامنے آیا، ہم نے اسرائیل کے خلاف حماس کی 22 روزہ جنگ میں مداخلت کی۔ ہم مستقبل میں بھی ہر اس قوت کی حمایت کریں گے جو صیہونی حکومت کے خلاف قیام کرے گی۔ صہیونی حکومت کینسر کا وہ پھوڑا ہے جسے کاٹا جانا چاہیئے اور انشاءاللہ ایران اس کو کاٹ پھینکے گا۔۔۔۔۔بحرینی بادشاہ کی جانب سے خلیجی جزائر کے معاملات میں مداخلت کا الزام بےبنیاد اور جھوٹ ہے۔ اگر ہم بحرین کے معاملات میں مداخلت کرتے تو ایک نئی کہانی جنم لے چکی ہوتی۔(19)
 
مداخلت کی حقیقت:
اگرچہ ایران کے روحانی پیشوا کا بیان ہی اس معاملے کی وضاحت کے لیے کافی تھا تاہم حقائق کو مزید واضح کرنے کے لیے آئیے ذرا گہرائی میں اترتے ہیں۔ بحرین کے شیعہ ایران کے ہم عقیدہ ہونے کے باعث اس کے حالات، وہاں رواج پانے والی افکار اور نظریات سے بہت حد تک متاثر ہوتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ فطری طور پر بحرینی عربوں کا جھکاﺅ  اپنے عرب ہمسائے عراق کی جانب ہے۔ جس کی واضح دلیل 2006ء کے پارلیمانی انتخابات ہیں، جن میں بحرینی عوام نے عراقی شیعہ مرجع سید علی سیستانی کی ہدایت پر بھرپور شرکت کی۔(20) 

اسی طرح بحرین کی سب سے بڑی شیعہ جماعت الوفاق کے بعد دوسری بڑی شیعہ جماعت جمیعت الامل الاسلامیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی اکثریت عراقی مرجع ہادی المدرسی کی مقلد ہے۔(21) عراق کی مذہبی قیادت کے بعد بحرینی نوجوانوں کے لیے جدوجہد کا دوسرا عملی معیار حزب اللہ کے عرب نوجوان اور ان کے قائدین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک پر آپ کو بحرینی نوجوانوں کی آئی ڈیز پر زیادہ تر حسن نصر اللہ، حزب اللہ اور موسی صدر کی تصاویر دکھائی دیں گی۔ 

ائتلاف شباب الثورة 14فبرایر(فروری)
آج بحرین میں مزاحمت کااستعارہ "ائتلاف شباب الثورة 14فبرایر" ہے۔ جسے ائتلاف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس ائتلاف میں متعدد گروہ شامل ہیں جس میں جوانان انقلاب 14 فروری، جوانان انقلاب میدان لولوہ، حرکة الاحرار 14 فروری اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ یہ ائتلاف گزشتہ سال 14 فروری کو وجود میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی دفعہ یہ نام جمہوریت پسند بلاگ بحرین آن لائن میں استعمال کیا گیا۔ آج اس ائتلاف کی اپنی ویب سائٹس، فیس بک پیج اور یو ٹیوب چینلز ہیں۔ اس اتحاد کے بانیوں اور راہنماﺅں کے بارے میں وضاحت سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے، قیاس کیا جاتا ہے کہ اس اتحاد میں شامل اکثر نوجوان ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت سے متعلق نہیں، یہ نوجوان ایک دوسرے سے نیٹ، فیس بک اور دیگر ذرائع سے مربوط ہیں، نیز یہ کہ ان نوجوانوں میں اکثر سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم ہیں جس میں شیعہ اور سنی کی بھی کوئی تخصیص نہیں(21)  
بحرین آن لائن بلاگ پر ایک نوجوان کے تاثرات ملاحظہ ہوں جنہیں پڑھ کر اس امر کا اندازہ لگانے میں کافی مدد ملے گی کہ آج کا بحرینی نوجوان کیا سوچ رہا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے بحرینی نوجوان کو موت پر آمادہ کر دیا ہے: 
"میرا محبوب جزیرہ جسے سلطنت بحرین کہا جاتا ہے میں ایک عام انسان کے لیے بنیادی انسانی حقوق خواب کی مانند ہیں۔ عام آدمی جب بھی ان کا مطالبہ کرے گا تو اسے یقینی ہے کہ اسے افوج کی جانب سے تشدد اور ہتک عزت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مرنے والے تو اپنی جگہ زندہ لوگوں کے جسموں پر زخموں کے نشان اس بات کے گواہ ہیں، جبکہ اس جنگل کے بادشاہ کو چھونا بھی ممکن نہیں۔ ہماری چیخ و پکار دنیا کے بہرے کانوں میں پڑتی ہے جس کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کرہ عرض پر انسانیت، بہت عرصہ ہوا مر چکی۔ ہم اپنی جدوجہد کے بارے میں کسی سے بھی اپیل نہیں کرتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا میڈیا، امریکہ اور ۔۔۔۔اقوام عالم منافقوں کا ٹولہ ہے جو ان لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں جنہیں نانِ جو بھی میسر نہیں۔ دنیا کے بادشاہوں کو جان لینا چاہیئے کہ ابو عزیزی اور بدریہ جیسے لاچار لوگ جنہیں انہوں نے جلا دیا بہت جلد ان کے تاجوں کو شکار کر لیں گے"۔(20) 

یہ اتحاد گزشتہ سال چودہ فروری سے آج تک ہر ہفتے کسی بھی مناسبت سے احتجاج کی کال دیتا ہے جو کہ عموما جمعرات یا جمعہ کے روز کیا جاتا ہے۔ ان مناسبتوں میں آزادی کا ہفتہ، شہداء سے وفاداری کا ہفتہ، زخمیوں سے یک جہتی کا ہفتہ، خواتین کے تحفظ کا ہفتہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس اتحاد نے متعدد دھرنوں کا بھی اہتمام کیا جنہیں مخصوص مناسبتوں سے مختلف نام دیئے گئے مثلا  حق خود ارادیت کا دھرنا، یوم القدس کا دھرنا وغیرہ۔ 

نوجوانوں کے اس اتحاد کو عوامی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کے سبب کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں خواہ اس ائتلاف کے لائحہ عمل سے موافقت رکھتی ہوں یا اختلاف عوام میں ان نوجوانوں کی مقبولیت کے باعث چار و ناچار ان کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں۔ شیخ علی سلیمان کی جماعت الوفاق سمیت متعدد جماعتیں جو حکومت کے ساتھ مصالحت کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کی روش پر قائم تھیں کو بھی اب ائتلاف کے فورمز پر آ کر ان کے موقف کی حمایت کرنی پڑ رہی ہے۔ حال ہی میں اس اتحاد نے اپنے منشور اور چارٹر کا اعلان کیا ہے جسے "میثاق لولوة" کا نام دیا گیا ہے۔ 

اس میثاق میں واضح طور پر انقلاب کے اھداف اور لائحہ عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ میثاق لولوة کے چند ایک مندرجات درج ذیل ہیں: 
ہمارے اس اتحاد نے 14فروری کے انقلاب سے جنم لیا، جس میں ان نوجوانوں کی عظیم الشان جدوجہد کو بہت دخل ہے جنہوں نے اپنی گروہی و مسلکی شناختوں سے بالاتر ہو کر شہدائ، مجروحین، اسراء نیز اس سرزمین سے عہد کیا کہ وہ اس جدوجہد اور تحریک کو اپنے ہدف یعنی حکومت کے خاتمے اور حق خود ارادیت کے حصول تک جاری رکھیں گے۔ 

اھداف الثورہ:
1۔قبیلہ آل خلیفہ کی حکومت کا خاتمہ، جو کہ ہماری نظر میں حق حکومت ضائع کر چکی ہے۔ حکومت کے عہدیداروں اور ارکان، بشمول سربراہ حکومت حمد بن عیسی کا انسانیت اور بحرینی نوجوانوں کے خلاف جرائم پر محاکمہ۔
2۔عوام کی خواہشات کے مطابق ان کو اپنے لیے نظام کے چناﺅ کی آزادی کے حق کی یقین دہانی۔
3۔ملک کے سکیورٹی اداروں کی اصلاح اور مقامی افراد کی بھرتی تاکہ وہ شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو سکیں۔
4۔منصفانہ اور آزاد عدلیہ کا قیام۔
5۔عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے مابین اختیارات کی تقسیم کے قانون کی پاسداری۔
6۔قومی ہم آہنگی کا احیاء اور سماجی روابط کی بہتری۔ معاشرے میں عدل و مساوات کی حکمرانی نیز ملک میں روا رکھے جانے والے ہر قسم کے امتیاز کا خاتمہ۔
8۔بحرین کے عرب اور اسلامی تشخص کا تحفظ۔
9۔آل خلیفہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد انتخابات اور ملک میں نیا آئین بنانے کے لیے ایک شورای کا قیام۔
10۔ سرمایہ کی منصفانہ تقسیم نیز قومی سرمائے کا آئندہ نسلوں کے لیے تحفظ۔
اسی میثاق میں اس انقلاب کی نہج اور طریقہ کار کے عنوان سے جو سطور لکھی گئی ہیں ان میں قرآن کے فلسفہ امن کو اپنے لیے مثال قرار دیا گیا ہے اور انقلاب کی منہج کو مندرجہ ذیل آیت کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔(24)
فَمَنِ اعتَدٰی عَلَیکُم فَاعتَدُوا عَلَیہِ بِمِثلِ مَا اعتَدٰی عَلَیکُم وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعلَمُوٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ المُتَّقِینَ (25)
ائتلاف نے اس میثاق میں بحرین میں اٹھنے والی تحریک کو حب الوطنی پر مبنی قرار دیا، علاوہ ازیں ہر قسم کی بیرونی مداخلت کو مذموم قرار دیتے ہوئے بیرونی مداخلت کاروں کو بحرینیوں کا دشمن قرار دیا اور انہیں ملک سے نکال پھینکنے کا عزم بھی کیا۔ حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس اتحاد کے کامیاب مظاہروں اور اقدامات کو روکنے سے قاصر ہے، یہ جوان جب اور جہاں چاہتے ہیں برآمد ہو کر حکومتی انتظامات کو منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کے سکیورٹی اداروں کی جانب سے 60 مظاہرین کا بہیمانہ قتل، ہزاروں افراد کی گرفتاری، نوکریوں سے معطلی، چھاپوں اور دیگر اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود مزاحمت کی یہ تحریک روز افزوں قوت پکڑ رہی ہے۔ 14 فروری 2012ء جو کہ اس تحریک کی سالگرہ کا دن ہے جسے بحرین میں بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ حکومت بحرین نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت جس میں امریکی مشاورت اور افرادی قوت کے استعمال کا عمل دخل بھی ہے، بجائے گرفتاریوں کے قیدیوں کو وقتی طور پر رہا کرنا شروع کر رکھا ہے علاوہ ازیں حزب اختلاف کی بعض جماعتوں کو ریلیوں اور دھرنوں کی اجازت بھی دی گئی ہے جو کہ اس انقلاب کی قوت اور عوامی پذیرائی کو تقسیم کر کے کمزور کرنے کے حیلے اور بہانے ہیں تاہم قرائن سے یہ بات واضح ہے کہ اب یہ پینگ اوچھے ہتھکنڈوں سے جھولنے والی نہیں۔ 

حوالہ جات:
15۔BBC News.Retrieved 15 April 2011.
ماخوذ از http://en.wikipedia.org/wiki/2011_Bahraini_uprising
16۔http://www.alseraat.com/index.php/2011-09-29-18-22-09/106-2011-10-02-03-20-29 
http://mideast.foreignpolicy.com/posts/2011/11/23/bahrain_s_uncertain_future-17
18۔ http://en.wikipedia.org/wiki/2011%E2%80%932012_Bahraini_uprising
19۔ http://vob.org/en/index.php?show=news&action=article&id=1192
20۔ http://gulfnews.com/news/gulf/bahrain/high-turnout-expected-in-bahrain-polls-1.265835
21۔ http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_Action_Society
22۔ Abdul Jalil Zain Al-Marhood (February 2011)حرکة فبرایر فی البحرین الوجھة والمسارAl Jazeeraماخوز از http://en.wikipedia.org/wiki/February_14_Youth_Coalition
23۔ http://bahrainonline.org/showthread.php?t=335636
24۔https://docs.google.com
25۔البقرہ: 194
خبر کا کوڈ : 136161
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
good
ہماری پیشکش