1
0
Sunday 7 Sep 2014 00:28

دھرنے والوں کی جیت یا ہار؟

دھرنے والوں کی جیت یا ہار؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

زندگی خواہشوں کے دسترخوان پہ بسر نہیں کی جاسکتی۔ سیاست ایک کھیل ہے یا معاشرتی و سماجی خدمت کا یک دل نواز جذبہ؟ بے شک سیاست امورِ سلطنت کو چلانے کا ایک ہنر ہے، ایسا ہنر جو معاشرے کے دیانتدار افراد کے ہاتھ ہو تو معاشرہ ترقی و بلندی کی منازل طے کرنے لگتا ہے۔ مگر یہی سیاست اگر بازی گری سمجھ لی جائے تو؟ سیاست کو کھیل کہا جانے لگے اور ہر ایک سیاسی جماعت خود کو بڑا پلیئر تسلیم کرانے پہ کمر بستہ نظر آنے لگے تو حال وہی ہوتا ہے جو ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم مگر دل میں اور طرح کی خواہشات پالتے ہیں اور زبان پہ اور طرح کا ترانہ۔ منافقت اور کس چیز کا نام ہے؟ وہ سیاست کار جو اپنے سماج کو دھوکہ دے، اسے عوامی نمائندگی کا کوئی حق نہیں۔ اس میں کسی ایک پارٹی یا جماعت کی قید نہیں۔ تبدیلی اور انقلاب کی ممکن ہے ہر ایک اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحت تشریح و تعبیر کرتا پھرے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ معاشرہ ایک خوشگوار اور غریب نواز تبدیلی کے لیے تیار ہے۔ کیا ہماری سیاسی روایات اس بات کی شاہد نہیں کہ پارلیمان میں عوامی نمائندگان عوامی مفادات کی بات کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ کیا پارلیمنٹ تماشا گاہ کا نام ہے؟ یہ امر درست ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی پارلیمان میں بھی حکومتی و اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے پر کرسیاں چلا دیتی ہیں، لیکن اپنے سر پھاڑنے سے پہلے وہ لوگ اپنے عوام کی زندگی سہل کرچکے ہوتے ہیں۔

جمہوریت مگر وہی اچھی جس میں جمہور کی بھلائی اور اس کے مفادات کی بات ہو۔ اس امر میں کلام نہیں کہ ہمارے عوامی نمائندے اپنے سماج میں اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ لوگ ان کی بات پہ اعتماد نہیں کرتے۔ کوئی چار سال ادھر کی بات ہے، جب پی پی پی کی حکومت تھی، ان سے عام آدمی کی زندگی اور لوڈشیڈنگ کے بارے بات کی جاتی تو وہ فوراً اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کا حوالہ دیتے۔ صوبوں کی خود مختاری کی بات کی جاتی اور 58-2-B سے پارلیمان کو بچانے کی بات کی جاتی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پہ بات آتی تو کہا جاتا کہ کرائے کے بجلی گھر لے کر روشنیاں تقسیم کریں گے۔ فرمایا جاتا کہ توانائی بحران گذشتہ حکومتوں کا دیا ہوا ہے۔ حالانکہ جنرل (ر) مشرف کے زمانے میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ کیوں؟ بے شک بہتر انتظامی امور کے باعث۔ باقی سب تاریخ کا حصہ ہے کہ کب سے اور کیوں بجلی کے نئے منصوبوں پہ کام نہیں ہوا۔ آج وہی حال نون لیگ کا ہے۔ ان کی ترقی کا نقطہء آغاز ہی نقطہء کمال ہے۔ سٹریٹ کرائمز کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ میٹرو بن رہی ہے، نہ کوئی گلی سے گزرے گا نہ اسے کوئی گلی میں روکے گا۔ بارش نے لاہور کی سڑکوں کو جو منظر پیش کیا وہ ڈیم اور تالاب کا سا ہے۔ ممکن ہے میاں صاحب سوال اٹھائیں کہ بارش میں مرنے والے اگر میٹرو والا روٹ استعمال کرتے تو بچت ممکن تھی۔

کیا سماجی ترقی کا معیار میٹرو بس سروس ہوا کرتا ہے؟ کیا سماجی ترقی کا معیار کالی پیلی ٹیکسی ہوتی ہے؟ کیا سماجی ترقی کا معیار یہ ہوتا ہے کہ آپ نے کتنے پڑھے لکھے نوجوانوں کو سود سے آلودہ قرضے کی بھینٹ چڑھا دیا؟ اور یہ کہ کیا سماجی ترقی کا معیار یہی ہوتا ہے کہ آپ جعلی اور دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے اقتدار کے سنگھاسن پہ آن بیٹھیں اور اس جعلی جمہوریت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے قتل و غارت گری پر اتر آئیں؟ کیا ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے لوگوں کو شہید نہیں کیا گیا؟ خواہش مگر یہی ہے کہ خاندانی بادشاہتیں رواج پائیں، عوام رعایا سے مزاعین بنیں اور انھیں دال روٹی کے چکر سے نکال سے صرف دال تک محدود کر دیا جائے۔ لاریب جمہوریت کوئی بہترین چیز ہوتی ہوگی، کہا سنا تو یہی ہے۔ سنا ہے برطانیہ نے اپنی اسی جمہوریت کی بدولت ترقی کی اور دنیا پر حکومت کی، آج بھی بالواسطہ طور پر وہ اسی جمہوریت کی وجہ سے دنیا، بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے معاملات میں دخیل ہے۔

میں مگر یقین سے کیسے کہوں کہ جمہوریت کوئی بہترین چیز ہے؟ میرے ملک میں جب بھی جمہوریت آئی اس پہ پہلا اعتراض یہی ہوا کہ اس جمہوریت کی پیدائش میں دھاندلی ہوئی ہے۔ کیا موجودہ الیکشن پر سب سے بڑا اعتراض دھاندلی کا نہیں؟ ایک اعتراض اور بھی ہے۔ کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں کے پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو تو انتخابی مہم میں حصہ ہی نہیں لینے دیا، اور ان جماعتوں کے ووٹرز پر بھی دباؤ رکھا کہ اگر وہ باہر نکلے تو ان کے جسم ہوا میں اڑتے نظر آئیں گے۔ آئی جے آئی کی تشکیل اور پھر اس تشکیل کی چھاؤں میں ہونے والے انتخابات دھاندلی نہیں تھے؟ دہشت گرد اسامہ بن لادن کی رقم سے ایک منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے دکھائی جانے والی سرگرمی ذاتی مفادات کی آئینہ دار نہیں؟ ایک منتخب صدر کو جب ایک بڑے صوبے کا وزیرِاعلٰی دھمکیاں دے رہا تھا تو اس وقت آئین، قانون اور منتخب صدر کی توقیر کا کسی کو خیال کیوں نہیں آیا۔؟

سیاست دان مگر بحرانوں کو سیاسی انداز میں حل کیا کرتے ہیں، اپنے حق میں کالعدم تنظیموں کے جلوس نکلوا کر نہیں۔ میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تو حکومت کے خلاف جلسے جلوس کرتی رہتی ہیں، حکومت کو مگر اپنے حق میں کوئی ریلی نکالنے کی ضرورت کیوں آن پڑتی ہے؟ ایسا کوئی بھی حکومت اس وقت کرتی ہے جب وہ اپنے وجود کا اخلاقی و سیاسی جواز کھو چکی ہوتی ہے۔ بے شک ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا دھرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کے پیروکار اپنے سامنے کوئی بڑا مقصد رکھتے ہیں۔ ایسا سیاسی مقصد جسے عبادت کہا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دھرنے کا انجام باخیر ہوگا یا وقت کے بل پر انھیں اٹھا دیا جائے گا، لیکن ایک بات طے ہوگئی، ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کامیاب ہوگئے۔ لوگوں کے اذہان میں پائے جانے والے سیاسی و فکری جمود کو انھوں نے توڑ دیا۔ لوگ آج سوچ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عام آدمی کی تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی، ہر ایک اٹھ کے کہہ رہا ہے کہ میاں صاحب قدم بڑھاؤ، ڈٹ جاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کیا پی پی پی بھی اپنے بنیادی منشور کو فراموش کرچکی ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 408565
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حق یہی ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکومت اور اسکو بچانے والی پارٹیز اور کچھ نام نہاد مذھبی لیڈران کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے اور عوام کے سامنے ان کا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے کہ انکی سیاست انکے ذاتی مفاد کیلئے ہوتی ہے ملک اور قوم کیلئے نہیں۔
ہماری پیشکش