1
0
Tuesday 30 Sep 2014 21:34

صرف آرمی کے جوتے (2)

صرف آرمی کے جوتے (2)
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

گذشتہ قسط کے بعد یقیناً آپ کا انتظار جاری ہے۔ میں بھی ڈائری لکھتے ہوئے آپ کی طرح منتظر تھا کہ اگلے ہی لمحے نجانے کیا ہوگا؟ رات کے سنّاٹے میں، گھنے جنگلات اور پہاڑی درّوں سے گاڑی گزر رہی ہے۔ یہ اورکزئی ایجنسی کا علاقہ ہے اور ہم نے سترسم سے تیرہ  کا سفر تقریباً تین گھنٹوں میں طے کرنا ہے۔ اس وقت رات کے 11 بج چکے ہیں اور ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ اس دوران گاڑی چلتی رہی اور ہم لوگ مختلف موضوعات پر بات چیت کرتے رہے۔ میرے ساتھ مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے مسئول علامہ سید سبطین حسینی بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے علاقے میں امن و امان، مذہبی رواداری اور اخوت و بھائی چارے کی صورتحال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس ایجنسی میں انتہائی اطمینان اور امن و سکون کی خبر سنائی۔
 
دوسری طرف گاڑی چلتی رہی اور سفر کٹتا رہا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم لوگ مقررہ وقت پر تیرہ میں پہنچ گئے۔ وہاں پر اگلے روز علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی تھی۔ برسی کا پروگرام انتہائی منظم اور خوشگوار ماحول میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ جس کے بعد مجھے ایجنسی کے متعدد علاقوں کو دیکھنے اور اہم شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ میں نے وہ جگہیں بھی دیکھیں جہاں ماضی میں  دہشت گردوں نے مورچے بنا رکھے تھے اور وہاں سے سول آبادی پر حملے کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں وہاں اغوا برائے تاوان جیسا "اسلامی جہاد" بھی ہوا کرتا تھا، لیکن اب وہاں سے دہشت گردوں کا نام و نشان مٹ چکا تھا اور کہیں پر کوئی دہشت گرد پھٹک نہیں سکتا تھا۔ اگرچہ کوہاٹ اور کچا پکا کے علاقے میں اغوا برائے تاوان کا کاروبار ابھی تک چل رہا ہے، تاہم اورکزئی ایجنسی کے لوگوں نے اپنے خطے سے دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کے خاتمے کا سبب پاکستان آرمی کے خلوص اور جدوجہد کو قرار دیا۔ عوامِ علاقہ نے ملکی سلامتی، علاقائی امن و امان اور ملی وحدت کی خاطر پاکستان آرمی کی خدمات اور قربانیوں کو بہت سراہا۔
 
تیرہ ایجنسی کے دورے کے بعد مجھے پارا چنار سے آنے والی کچھ اہم شخصیات سے ملنے کا موقع ملا، ان سے جب پارا چنار کی موجودہ صورتحال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ویسے تو پاکستان آرمی نے حب الوطنی کا حق ادا کر دیا ہے، جس کے باعث اب امن و امان ہے لیکن اب ہمیں دہشت گردوں کے بجائے آرمی نے ستا رکھا ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے، جواب ملا کہ جان بوجھ کر شریف اور عام شہریوں کو چیکنگ کے نام پر گھنٹوں لائنوں میں کھڑا رکھا جاتا ہے۔ مختصر راستوں کے بجائے طویل ترین چکر لگوائے جاتے ہیں اور کہیں پر کسی کی شنوائی نہیں ہوتی۔ میں نے عرض کیا کہ یہ سب بھی تو آپ کے بھلے کے لئے ہو رہا ہے۔ آرمی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی تو کر رہی ہے۔ جواب ملا کہ یہ آپریشن بھی تو ایک فضول خرچی ہی ہے۔ اگر آرمی اتنی ہی مخلص ہے تو دہشت گرد تنظیموں کو چلانے والے افسران کو فون کرکے واپس بلا لیں اور دہشت گردوں کو چھٹی پر بھیج دیں۔ خود بخود امن قائم ہوجائے گا۔
 
بہرحال یہ بات بھی دل میں اترنے والی تھی اور میرے پاس سوائے مسکراہٹ کے اس کا اور کوئی جواب نہیں تھا۔ مجھے دو ایجنسیوں سے پاکستان آرمی کے بارے میں دو طرح کے تاثرات مل رہے تھے۔ یہاں پر میں پاکستان آرمی کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تمام تر حفاظتی اور سکیورٹی اقدامات میں عوامی سہولت اور آسانی کو مقدم رکھا جانا چاہیئے۔ یہاں تک تو تھی یہ صورتحال کہ لوگ کیا کہتے ہیں، اب میں شروع کرتا ہوں اداروں کے اندر کی صورتحال اور پھر آپ فیصلہ خود کریں کہ پاکستان آرمی سے عوام کو خطرہ ہے یا ہمارے اس کرپٹ نظام کو۔
میں اب پنجاب میں گندگی کے ڈھیروں، سندھ میں پسماندگی اور بلوچستان میں بند سکولوں کی بات نہیں کروں گا بلکہ "آزاد کشمیر" جی ہاں آزاد کشمیر کے چند اداروں کی کارکردگی کے نمونے آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ میں اس وقت کوٹلی آزاد کشمیر میں داخل ہوچکا ہوں، میرے ساتھ آپ بھی ان اداروں کا دورہ کیجئے اور پھر دیکھئے کہ اگر ہمارے ملک میں دیانتدار اور مخلص "آرمی" نہ ہو تو عام آدمی کا کیا حال ہوجائے۔ میں اس وقت محکمہ برقیات کی چوکھٹ پر کھڑا ہوں اور میرے سامنے ایک پندرہ سالہ بچہ اپنے بوڑھے باپ کی انگلی پکڑ کر ایس ڈی او کے آفس کے سامنے کھڑا ہے۔۔۔ کیوں ۔۔۔ میں بھی جاننے کی کوشش کرتا ہوں اور آپ بھی جانئے، اگلی قسط میں ساری بات سامنے آجائے گی۔۔۔۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 412560
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
یار نذر صاحب آپ تو کمال ہی کرتے ہیں۔ بہت خوب
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش