0
Thursday 10 Apr 2014 22:30

مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیاء کیلئے ناگزیر، الیکشن متبادل نہیں

مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیاء کیلئے ناگزیر، الیکشن متبادل نہیں
تحریر: جاوید عباس رضوی

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو کشمیر مسئلہ کا حل کبھی بھی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا حصہ نہیں رہا ہے، جیسے کہ یہ پاکستان میں رہا ہے، جہاں تنازعہ کشمیر کے حل کو بڑے شدومد سے انتخابی منشور میں نمایاں طور پیش کیا جاتا ہے، تاہم ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے جیسے نعرے ہندو قوم پرست جماعتوں کی انتخابی مہم کا حصہ رہے ہیں، بی جے پی کا حالیہ انتخابی منشور بھی اسی کا عکاس ہے، یہ درست ہے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد پندرھویں لوک سبھا کے انتخابات کے دوران کشمیر کسی بھی سیاسی جماعت کا موضوع نہیں رہا ہے، تاہم یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ تنازعہ کشمیر نہ صرف اسلام آباد بلکہ بین الاقوامی سطح پر نئی دہلی کی سب سے بڑی سفارتی مصروفیت رہی ہے، 1962ء سے نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان تعلقات میں تلخی چلی آرہی ہے، اس امر کے باوجود کہ بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ پوری اروناچل ریاست کا علاقہ چین کا حصہ ہے اور یہ مسئلہ ایک سرحدی تنازعہ ہے، اس لئے یہ بین الاقوامی تنازعہ نہیں بن سکا، چونکہ اس میں لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے، اسی لئے یہ دونوں ملکوں کے درمیان زبردست مخاصمت کی کوئی وجہ نہیں بن سکا، اس کے برعکس ہندوستان اور پاکستان یکم نومبر1947ء سے ہی ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے کوشاں رہے، مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی مسئلہ رہا ہے، اگرچہ ہندوستان کا عمومی رویہ رہا ہے کہ وہ کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ کہتا آرہا ہے یا یہ کہ وہ اس کو حل شدہ مسئلہ کہہ رہا ہے، مگر اس کے باوجود جواہر لال نہرو سے لے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ تک مشکل سے ہی کوئی ایسی حکومت ہوگی، جس نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مذاکرات نہ کئے ہوں۔

کشمیریت اور کشمیریوں کی عزت کی بحالی جنوبی ایشاء باالخصوص بھارت اور پاکستان میں امن قائم کرنے کے لئے اشد ضروری بن گیا ہے، اور 65 برسوں سے ہند و پاک کے درمیان زیر التوا مسئلہ کشمیر کی وجہ سے گلگت، بلتستان سے لیکر لکھنپور تک جموں و کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی پامالیاں رونما ہو رہی ہیں، تمام صاحب فراست افراد کا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں کو چاہئے کہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف خاص توجہ دیں، تاکہ نوجوانوں کی بلاجواز گرفتاریاں، حراستی ہلاکتیں، گمشدگیوں پر روک لگ سکے، فوجی انخلاء، افسپا اور دوسرے کالے قانون کا خاتمہ اور قیدیوں کی رہائی ممکن ہوسکے، جہاں ایک طرف بھارت بھر میں ابھی پارلیمانی انتخابات جاری ہیں، ہر چہار سمت الیکشن کے چرچے ہیں، ایک سیاسی پارٹی دوسری پارٹی پر جیت اور گالیوں پر حاوی ہونا چاہتی ہے، کبھی الیکشن مہم کے دوران مسلمانوں کی مخالفت کی جاتی ہے تو کہیں پاکستان کی، کہیں اے کے فوٹی 7 کی تو کبھی اے کے انٹونی کی، کبھی بھارت کی گرتی معیشت کو حدف تنقید بنایا جاتا ہے تو کبھی مسلم فسادات کو، کوئی سیاسی لیڈر کہتا ہے کہ گجرات فسادات کی تحقیقات ہونی چاہئے اور ملزمان کو سزا ملنی چاہئے تو کبھی کہا جاتا ہے کہ مظفر نگر فسادات کی انکوئری نہیں ہوگی، کوئی لیڈر گجرات فسادات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مظفر نگر فسادات کو اچھالنا چاہتا ہے، اگر باتوں باتوں میں کسی مسئلہ کی بات نہیں ہوتی ہے تو وہ ہے مسئلہ کشمیر، کہ جہاں کی اکثریت دوراہے پر کھڑے ہیں اور صرف ایک ہی جملہ دہراتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ ’’ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے۔‘‘

بھارت کے اس انتخاباتی جنون اور کشمکش میں کشمیر عزیر میں اب بھی لوگ انصاف کو ترس رہے ہیں، پتھری بل سانحہ ہو یا کنن پوشپورہ کا خونین واقعہ، اب بھی متاثرین خون کے آنسو روتے ہیں اور انصاف کو تڑپ رہے ہیں، اب بھی میرے کشمیر عزیز کا فرد فرد قابض فورسز سے دبے پاؤں بھاگ نکلنا چاہتا ہے، بھارت کے اس انتخاباتی ڈھونگ اور جمہوریت کے عریاں رقص کے سایے سے اب بھی یہاں کی اکثریت خائف ہے، اب بھی کشمیر عزیز کی مقدس و عزت مآب خواتین کہتی نظر آرہی ہیں کہ بھارت نواز سیاست دانوں کو ووٹ ہرگز نہ دیں اور بھارتی مکر و فریب میں نہ آئیں، اب بھی تادیر ہمارے بزرگ پولنگ مراکز پر کھڑے رہتے ہیں اور لب ہلائے بنا کہتے ہیں کہ کیا یہ بھیڑ اور لمبی قطاریں شہداء کے عظیم مشن کو فراموش کرگئیں۔ غرض کہ کوئی بھی بھارتی سازش، بھارتی انتخاباتی ڈھونگ یا مراعات اور پیکیجز مسئلہ کشمیر کے حل کا متبادل نہیں ہوسکتا ہے، دنیا اب مانتی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں کشیدگی اور تناؤ کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر کا التوا میں ہونا ہے اور فوجی جماؤ و تسلط اس مسئلہ کا حل کبھی نہیں ہوسکتا ہے۔

حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ رسالے جیوگرافک نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے 6 انتہائی تشویشناک تنازعات میں شامل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں کشیدگی اور تناﺅ کی سب سے بڑی وجہ یہی 67 سالہ پرانا مسئلہ ہے، جسے کبھی بھی فوجی طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا، رپورٹ شائع کرنے والے بین الاقوامی معیار کے رسالے نیشنل جیوگرافک نے دنیا بھر میں مختلف نوعیت کے تنازعاتی اور فسادات کا احاطہ کرتے ہوئے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں 150 تنازعات میں شدت ہے، جن میں 6 بڑے تنازعات کو تشویشناک زمرے میں رکھا گیا ہے، تنازع جموں و کشمیر کو دنیا کے 6 بڑے تنازعات میں شامل قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی تنازعہ کی وجہ سے بھارت اور پاکستان نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوئے اور دونوں ملک باضابطہ طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں عملاً جڑ گئے ہیں، کیونکہ اس سے کئی سال قبل بھارت اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کرچکا تھا، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب برطانیہ نے 1940ء میں برصغیر سے اپنے دہائیوں پرانے قبضے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو تقسیم ہند اور برصغیر کی آزادی کیلئے مرتب کردہ خاکے میں برطانیہ ایک ایسا تنازع پیچھے چھوڑ گیا جو بعد ازاں نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ اس پورے خطے کیلئے عدم استحکام کا موجب بن گیا۔

اہلیان کشمیر کو اپنے طابع رکھنے کے لئے بھارت نے 7 لاکھ سکیورٹی اہلکار یہاں تعینات کر رکھے ہیں، قابض فوج کی یہاں موجودگی سے کم و بیش ایک لاکھ افراد مارے جاچکے ہیں، ہزاروں گمنام قبریں کشمیر کی سرزمین کی انفرادیت قائم کئے ہوئے ہیں، کشمیر کی ہزاروں متاثرہ خواتین اب بھی روتے بلکتے ان کے مجرموں کے لئے سزا کا مطالبہ کر رہی ہیں، اب بھی کشمیر کے ہزاروں بچے اپنے گمشدہ والدین کے منتظر ہیں، بھارتی فوج کو کشمیر میں تعینات ہوئے اتنا طویل عرصہ ہوگیا اور اس دوران اس کو اتنے زیادہ وسائل دیئے گئے ہیں کہ اب کشمیری معاشرے پر اس کی گرفت بہت مضبوط ہوگئی ہے، قابض فورسز کا ماننا ہے کہ اب وادی کشمیر میں موجود عسکریت پسندوں کی تعداد 100 سے زیادہ نہیں ہے، لیکن ان کو ایک ایسی فوج کا سامنا ہے جو نہ صرف وادی میں ہونے والی ہر قسم کی گفتگو کی سختی کے ساتھ نگرانی کرتی ہے بلکہ اس نے کرائے کے مخبروں کا ایک بڑا موثر جال بچھا لیا ہے اور اسے کشمیر کے کونے کونے اور گھر گھر کی خبر ہے، لیکن اس کے باوجود سرینگر میں بہت سارے طلبہ اب ڈٹ چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بھارتی راج جابرانہ ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ ساری زندگی اس راج کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے، نوجوانوں نے اب نئی نسل کے سیاسی استحصال کے خلاف ’’پرامن جہاد‘‘ کا اعلان کیا ہے، ان کا ماننا ہے کہ افسپا جیسے قوانین کو ختم نہ کیا گیا تو کشمیر میں ایسی تحریک چلے گی، جس سے حکومت ہند لرز اٹھے گی، اب ایک سوال سرعام اور سرراہ آپ کے لئے چھوڑ رہا ہوں کہ کشمیری نوجوان اب کیا چاہتے ہیں، آزادی، سیاسی تبدیلی، شدت پسندی، ہند و پاک کھیل کود میں ہار جیت، صبر و تحمل یا پھر خاموش تماشا۔؟
خبر کا کوڈ : 371160
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش