0
Saturday 21 Jun 2014 16:31

مسلمان وہ ہے جو دہشت گردی اور قتل و غارت سے دور رہے، مولانا طیب کاملی

مسلمان وہ ہے جو دہشت گردی اور قتل و غارت سے دور رہے، مولانا طیب کاملی
مولانا طیب کاملی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سے ہے، اسلامیہ اسکول کشمیر میں اپنی تعلیم کی ابتداء کی پھر اورینٹل کالج نصرۃ الاسلام میں تعلیم حاصل کی پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کوچ کر گئے وہاں سے ’’ایم اے‘‘ کی ڈگری حاصل کی، آپ ہمیشہ تعلیمی شوبہ کے ساتھ وابستہ رہے، اسلامیہ کالج فور سائنس اینڈ کامرس سرینگر میں پروفیسر آف اسلامیات کے عہدے پر فائز رہے، جامعہ مدینۃ العلوم میں پرنسپل کی حیثیت سے فعالیت انجام دے چکے ہیں، اورینٹل ڈگری کالج ادارے سے 11 سال سے پرنسپل ہیں اور آج بھی اسی مقام پر فائز ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مولانا طیب کاملی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئیں کرام کی خدمت میں پیش ہے (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آج کل مسلمانوں میں انتشار پایا جاتا ہے اور مسلمان آپسی تضاد اور منافرت کے شکار ہورہے ہیں اس کی وجہ ہے۔؟
مولانا طیب کاملی: در اصل اس وقت م
سلمان ذہنی طور پر مغرب کا غلام ہےِ، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت سی نعمتوں سے نوازا، اقتدار سے سرفراز فرمایا اور دولت و ثروت کے اہم ذرائع بھی عطا فرمائے، لیکن اس کے باوجود آج کے مسلمان اللہ کے شکرگزار نہ رہے جس طرح قرن اول کے مسلمان شکر گذار تھے، بنی عباسی اور بنی امیہ کے مسلمان اللہ کے شکر گذار تھے اب مسلمانوں میں وہ شکرگزاری نہ رہی، بلکہ آج کے مسلمان ویسٹ کے شکرگذار ہونے لگے، انکی نگاہیں استعماری طاقتوں پر ہیں نہ کہ اللہ پر، آج کے مسلمانوں کے اُٹھنے، بیٹھنے اور سمجھنے میں اور انداز فکر میں مغرب کا اثر پایا جاتا ہے، دوسری بات یہ کہ جو سادگی، عقیدت کی پکھتگی اور ایمان کی مضبوطی جیسی نعمتیں خدا نے مسلمانوں کو عطاء کی تھیں ان سے وہ محروم ہو رہے ہیں، نتیجتاً اس کے منفی اثرات ان کے دل و دماغ پر غالب ہوئے اقتدار کی ہوس، دولت کی چاہت اور شہوت رونی ان ہی چیزوں کی طرف مسلمان راغب ہوئے اس کا لازمی نتیجہ زوال ہے اور انتشار ہے، اگرچہ مسلمانوں کا زمین کے بڑے حصّے پر قابض ہیں، قابض ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا کیوںکہ وہ صرف نام کے مسلمان ہیں، ان کے اندر وہ روحانی طاقت نہیں ہے وہ ہمت اور غیرت مسلمانوں میں نہیں ہے، وہ خود اعتمادی اور خود شناسی مسلمانوں کے اندر نہیں ہے۔

مسلمانوں میں خود پرست ہے خدا پرستی نہیں ہے، خدا اور خدا کے رسول کی اطاعت مسلمانوں سے چھن گئی ہے، اب ان کا ہونا یا نہ ہونا سب برابر ہے، اب ان کے پاس کچھ نہیں ہے یہ مسلمان کٹے ہوئے گھاس کی طرح ہیں، وہ مغرب کے اشاروں پر چلتے نظر آرہے ہیں، اس کی سب بڑی مثال مصر ہیں جہاں بہت کم لوگ اٹھے اور کمر باندھ لی، ہمت سے کام لیا، اور اسلام کی بالادستی چاہی، اور وہ کامیاب بھی ہوگئے، انہوں نے ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لایا، لیکن ان ہی میں سے ایک جماعت اسلام دشمنی پر اتر آئی جس وجہ سے لوگ آپسی تضاد کے شکار ہوگئے وہاں مسلمان ہی مسلمان کو پھانسی دے رہے ہیں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے ہیں، کلمہ گو کلمہ گو کو پھانسی دے رہے ہیں، اللہ اکبر کہہ کر مسلمانوں کو مسلمان مار رہے ہیں قتل کر رہے ہیں، اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات سعودی عرب کی یہ ہے کہ وہاں کے حرمین شریفین جہاں ہر کسی مسلمان کی گردن جھکتی ہے وہاں کے بادشاہ سے ہمیں لگاؤ تو ہے کیونکہ وہ حرمین شریف کے خادم ہیں لیکن انہوں نے بھی اس جماعت کی حمایت کی جنرل السیسی کی حمایت کی جو حد درجہ افسوس ناک ہے، جنہوں نے مصر دشمن عناصر کی حمایت کی، جنہوں نے ایک ساتھ 500 بے گناہ مسلمانوں کو پھانسی دی جو سراسر دین کے خلاف ہے اس کو تو یہی کہیں گے کہ ’’اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے، یہ لمحہ فکریہ ہے۔

اسلام ٹائمز: عرب کے حکمرانوں نے ’’اخوان المسلمین‘‘ کے قتل پر زبان نہیں کھولی؟ اس پر آپ کی تشویش کیا ہے۔؟
مولانا طیب کاملی: عرب نے ’’اخوان المسلمین‘‘ کو امداد فراہم کی جو کہ نیشنل اخباروں میں آیا تھا میں نے آپ سے ابھی کہا کہ ہمارے ذہنوں پر مغرب مسلط ہے اسی کا اثر ہے کہ ایمان کی قوت، توحید کی غیرت ہم سے مٹ چکی ہے اسی وجہ سے مسلمان ہر لحاذ سے پست و بدترہیں، صرف اور صرف ایران ابھی ایک ایسا ملک ہے جو کہ غریب ہے مگر اپنے پیروں پر کھڑا ہے ایران پر مغرب مسلط نہ ہوسکا کیوںکہ ان کے پاس ایمان کی قوت ہے، توحید کی غیرت ہے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں تعلیم کا کردار کیا ہوسکتا ہے اور کیا آج مسلمان تعلیم سے دور بھاگ رہے ہیں یا تعلیم کی طرف مائل ہورہے ہیں۔؟
مولانا طیب کاملی: تعلیم ہر جگہ ضروری ہے مگر جو تعلیم ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہے جیسے کہ قرآن، حدیث اور اسی کے ساتھ ساتھ عقل، حکمت، جیسے علوم بھی ہونے چاہیں اس کے ساتھ مسلمان میں کردار بھی ہونا چاہیے، مسلمان اصل میں اسلامی تعلیم سے دور جارہے ہیں تعلیم وہ سود مند ہے جو عمل کے ساتھ ہو۔

اسلام ٹائمز: کیا کسی اسلامی ملک میں اسلامی تعلیم کی طرف لوگ مائل ہورہے ہیں۔؟
مولانا طیب کاملی: ایک عجیب بات یہ ہے کہ ایران پر مغرب پوری طرح مسلط ہوا تھا مگر ایک مرد مجاہد وہاں اٹھا امام خمینیؒ کی شکل میں، انہوں نے فوراً مغرب کے خلاف آواز اٹھائی وہاں کے لوگوں نے امام خمینیؒ کو بلکل لبیک کہا وہاں پوری طرح سے رضا شاہ پہلوی کے نکالا گیا، کفر کو مٹایا گیا مغربی کلچر کو ایران سے نکالا گیا، امام خمینیؒ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے کیوںکہ وہ عالم باعمل تھے وہ ایک واحد عالم ہے جو کہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے کیونکہ انہیں اللہ پر پختہ یقین تھا۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسی کوئی قیادت ہے جو کہ عالم اسلام کی تقدیر بدل سکتی ہے۔؟
مولانا طیب کاملی: اس دنیا میں علماء کی کمی نہیں ہے ہاں وہ عالم باعمل بھی ہے مگر میدان عمل میں نہیں ہیں فعالیت ہونی چاہیں امام خمینیؒ جیسے فعال عالم ابھی عالم اسلام میں نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ہندوستان میں اسلام اور اسلامی احکامات پھل پھول سکتے ہیں۔؟
مولانا طیب کاملی: ہندوستان میں اسلام کی ترویج کے امکانات ہیں جیسا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ہندوستان کے بہت سارے ہندو سمجھتے ہیں کہ ان کی روش اطاعت غلط ہے اصل دین اسلام ہے مگر جب وہ مسلمانوں کی طرف دیکھتے ہیں ان کو صرف لوٹ مار، سنگبازی، تشدود وغیرہ دیکھنے کو ملتا ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام ایسا ہی ہے، کچھ لوگوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہوچکا ہے جو کہ اصل میں مغرب کی سازش ہے، مسلمان ایسا ہونا چاہیے جسے لوگ امین بنائے ہر کسی مذہب کے لوگ اس پر اعتماد کریں، مسلمان صرف اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ لڑتا ہے اور مسلمان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے، مسلمان وہ ہے جو دہشت گردی اور قتل و غارت سے دور رہے۔

اسلام ٹائمز: ابھی مسلمانوں کی سب سے اہم ترین ضرورت جو ہے وہ اتحاد ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا طیب کاملی: اتحاد تھبی ہوگا جب ہر ایک کو ملت کی فکر و ضرورت ہوگی تعمیر کی فکر ہوگی جس کو اسلام کی فکر ہوگی اسی کو اتحاد کی بھی فکر ہوگی کہ دین کس طرح آگے بڑے آج کے مسلمان صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں ورنہ اختلافات کہاں ہیں، اسلام میں تمام انتشار و تضاد حکمرانوں کی اناپرستی سے پیدا ہوئے ہیں، جب انانیت ختم ہوگی تبھی دین کی بلائی ہوگی، تھبی دین اگے بڑے گا جب انانیت ختم ہوگی تبھی اتحاد ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا آج کشمیر کے علماء اس حوالے سے کوئی کوشش کررہے ہیں مغربی تمدن بھارتی تمدن کو یہاں سے باہر نکالنے کی اور کشمیر کے تقدس و تمدن کو بچانے کی۔؟
مولانا طیب کاملی: جس طرح یہاں کام ہونا چاہے ویسے نہیں ہورہا ہے، یہاں بھی انا پرستی مولویوں میں موجود ہے، ہر کوئی اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ ہمارا نام کیسے مشہور ہوجائے، مگر اسلام اللہ کا اپنا دین ہے یہ کسی ایک فرد کا دین نہیں یہ اللہ کا دین ہے، االلہ نے فرمایا میں اپنے دین کا دوبالا کروں گا، مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے ہاتھوں دین کی بلندی ہوگی اور بدقسمت ہیں وہ لوگ جو کرسکتے تھے مگر نہ کیا آخرکار اسلام کی فتح ہوگی کیوںکہ اسلام اللہ کا اپنا دین ہے۔
خبر کا کوڈ : 393986
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش