0
Wednesday 9 Apr 2014 13:45
ہمارے اکابرین پاکستان کی تحریک کا حصہ رہے ہیں

اگر رواں سال مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہم موجودہ جمہوری سسٹم سے علیحدہ ہونگے، سردار اختر مینگل

جو قوتیں پاکستان کے آئین کی وفاداری کا حلف اُٹھاتی ہیں، انہوں نے ہمیشہ آئین کو پامال کیا
اگر رواں سال مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہم موجودہ جمہوری سسٹم سے علیحدہ ہونگے، سردار اختر مینگل

سردار اختر مینگل سیاستدان اور صوبہ بلوچستان کے وزیراعلٰی کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے ایک ممتاز بلوچ قوم پرست اور مینگل قبیلے کے نواب زادہ ہیں۔ وہ عطاءاللہ مینگل کے صاحب زادے اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے چئیرمین ہیں۔ 1997ء تا اکتوبر 1999ء تک رہنے والی بلوچستان اسمبلی کے پہلے قائد ایوان سردار اختر مینگل تھے۔ تقریباً اٹھارہ ماہ تک قائد ایوان رہنے کے بعد سردار اختر مینگل اکثریت کا اعتماد کھو دینے کی بناء پر مستعفی ہوئے۔ سردار اختر جان مینگل اس طویل مدت میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے کے بعد 2012ء میں پاکستان آئے اور سپریم کورٹ میں مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے چھ نکات پیش کئے۔ 2013ء کے انتخابات میں ایک بار پھر آپ بلوچستان صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ سردار اختر جان مینگل سے لاپتہ افراد سمیت صوبہ بلوچستان کی مجموعی صورتحال کے بارے میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا آپ طالبان اور ناراض بلوچ رہنماؤں کو ایک ہی صف میں دیکھتے ہے۔؟
اختر مینگل: جی نہیں میں انہیں ایک ہی صف میں نہیں دیکھتا۔ طالبان کا مسئلہ کچھ اور ہے اور بلوچ قوم پرستوں کا مسئلہ کچھ اور ہے۔ اصل بات مذاکرات کی تھی۔ جب طالبان کیساتھ ٹیبل پر بیٹھ کر مذاکرات اور سیز فائر کی جا سکتی ہے اور دونوں‌ فریق ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کرسکتے ہیں تو اسی نسبت سے میں نے بیان دیا کہ بلوچستان کے لوگوں کیساتھ ایسا نہیں کیا جا رہا۔ وہ طالبان کو اپنا سمجھتے ہیں جبکہ بلوچوں‌ کو غیر۔

اسلام ٹائمز: طالبان نے مذاکرات کیلئے خود کمیٹی بنائی اور بات چیت کیلئے آمادہ ہوئے۔ کیا ناراض بلوچ مذاکرات کیلئے رضامند ہیں۔؟
اختر مینگل: تیار ہو سکتے تھے اگر اسکے لئے کچھ راہ ہموار کی جاتی۔ جس طرح گذشتہ عرصے سے ہم کہہ رہے تھے کہ اعتماد سازی کیلئے عملی اقدامات اُٹھانا ضروری ہے۔ مشرف اور زرداری کے دور میں‌ ہم نے یہی بات کی اور موجودہ حکومت کے دور میں بھی ہم یہی بات کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات کیلئے آپ کو اعتماد سازی کو بحال کرنے کیلئے عملی اقدامات لینے چاہیئیں۔ یہی بات میں نے سپریم کورٹ میں بھی چھ نکات کی صورت میں پیش کی، لیکن اس وقت کی حکومت نے نہ صرف ان نکات سے انکار کردیا بلکہ ان پر طنزیہ بیانات دینے شروع کردیئے۔ موجودہ حکومت کو آئے ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا لیکن ہم نے دوبارہ ان نکات کو انکے سامنے پیش کیا۔ جس میں سرفہرست ملٹری آپریشن کا بند ہونا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تو صوبے میں مڈل کلاس بلوچ قوم پرست رہنماء کو وزیراعلٰی بنا دیا۔ تو کیا اب بھی موجودہ حکومت مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔؟
اختر مینگل: اگر سنجیدہ ہوتی تو وہ لوگ جو کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک ہزاروں کلو میٹر پیدل لانگ مارچ کرتے ہوئے وہاں پر پہنچے ہیں، انکی تو شنوائی ہوتی۔ انہوں نے آزاد بلوچستان کی تو بات نہیں کی اور نہ ہی کوئی اور غیر آئینی مطالبہ کیا بلکہ انکی صرف یہی درخواست تھی کہ انکے لاپتہ کئے گئے پیاروں‌ کو بازیاب کرایا جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ بلوچستان اسمبلی کے ممبر ہیں۔ کیا آپ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں۔؟
اختر مینگل: دیکھئے جو بھی صوبائی یا قومی اسمبلی کے فارم پر دستخط کرتا ہے یا اپنا شناختی کارڈ بناتا ہے تو آئین پاکستان پر رضامندی سے ہی اسے صوبائی اسمبلی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔ ہم نے کبھی آئین کی مخالفت نہیں‌ کی۔ بلکہ ہمارے اکابرین تو پاکستان کی تحریک کا حصہ رہے ہیں لیکن جو قوتیں پاکستان کے آئین کی وفاداری کا حلف اُٹھاتی ہیں، انہوں نے ہمیشہ آئین کو پامال کیا۔ ان کو ہمیشہ پروٹوکول دیا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ماما قدیر کا بلوچستان کے مسائل کو حل کروانے کیلئے اقوام متحدہ اور نیٹو فورسز کو دعوت دینا خوش آئند بات ہے۔؟
اختر مینگل: مجھے آپ بتائیں کہ ماما قدیر اور جاتے کہاں۔؟ انہوں‌ نے صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ تک کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کسی نے ان کی شنوائی نہیں کی۔ تو جب کوئی بھی انہیں سہارا دینے کو تیار نہیں تو وہ بیرونی قوتوں کو ہی مدد کیلئے پکاریں گے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق تو ملک کے شہری کو جبری طور پر لاپتہ کرنا بھی جائز نہیں لیکن جو قوتیں اس عمل کی مرتکب ہیں انہیں غدار نہیں کہا جاتا۔ میں تو یہی کہتا ہوں کہ آپ اسمبلی میں آئین میں ایک ترمیم کر دیں۔ جس میں‌ لکھا ہو کہ جو بھی بےگناہ قتل اور اپنے اوپر مظالم کیخلاف آواز اُٹھائے گا وہ غدار ہوگا۔ اسکے بعد ہم خاموش رہینگے۔

اسلام ٹائمز: کیا بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا ملک اور صوبے کیلئے مفید ثابت ہوگا۔؟
اختر مینگل: ہمیں معاملات کے پس منظر کو دیکھنا ہوگا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک کے لوگ تاریخ‌ کو بھول جاتے ہیں۔ کیا وہ بلوچ مسلح افراد جو پہاڑوں پر ہیں، پہلے وہ اسمبلیوں میں موجود نہیں تھے۔ کیا انہوں نے پاکستان کے آئین کے مطابق حلف نہیں اُٹھایا تھا۔ نواب اکبر بگٹی صاحب پہلے شخص تھے جنہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو کوئٹہ ائیرپورٹ پر خوشامد کیا تھا۔ وہ کونسے عوامل تھے جسکی وجہ سے انہوں‌ نے پہاڑوں پر جانے کو ترجیح دی۔

اسلام ٹائمز: اختر مینگل صاحب آپ ریاستی اداروں اور حکومت کو تو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن کیا آپ پہاڑوں پر موجود ان شدت پسندوں کے مطالبات اور پرتشدد کاروائیوں کو جائز سمجھتے ہیں۔؟
اختر مینگل: ہم تو سیاسی لوگ ہیں، اتنے ظلم و جبر کے باوجود ہم آپکے جمہوری سسٹم کا حصے بنے۔ الیکشن سے پہلے جن خدشات کا اظہار ہم نے کیا، الیکشن کے بعد وہی کچھ ہوا۔ الیکشن کے دوران میں‌ نے اپنے ورکرز کو کہا کہ جاکر بیلٹ باکس میں ہمیں ووٹ دیں۔ بعدازاں جب وہی شخص ہمیں ووٹ دیکر نکلتا ہے تو چند دنوں‌ بعد اسکی مسخ شدہ لاش برآمد ہوتی ہیں۔ تو ایسی صورتحال میں لوگ مجبور ہوکر پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ حکومت پر آپ کو اعتماد ہے کہ وہ آپکے مسائل کو حل کر پائے گی۔؟
اختر مینگل: گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کے باوجود ہم موجودہ حکومت اور میاں محمد نواز شریف صاحب کی گزارش پر اسمبلی کا حصہ بنے لیکن اب تک بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے میں حکومت ناکام رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں اسی سلسلے میں میاں نواز شریف سے ملاقات میں ہم نے واضح کیا کہ اگر اس سال صوبے کے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو ہم اس سیاسی عمل کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ لہذا ہمیں مجبوراً استعفٰی دینا پڑے گا۔ لیکن انہوں نے ایک مرتبہ پھر مسائل کو حل کرانے کی یقین دہانی کروائی ہیں۔

اسلام ٹائمز: چند سالوں قبل شیخ مجیب الرحمان نے اپنے مطالبات کیلئے چھ نکات پیش کئے اور بعدازاں وہ بنگلہ دیش کے رہنماء بنے۔ کیا آپ بھی شیخ مجیب الرحمان بننے جا رہے ہیں۔؟
اختر مینگل: ہمیں شیخ مجیب الرحمان اور نہ ہی بنگلہ دیش بننے کا شوق ہیں لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ وہی شیخ مجیب الرحمان تھے جنہوں نے 1947ء میں لے کے رہینگے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا اور بعدازاں ریاستی قوتوں کی حرکتوں کی وجہ سے بنگلہ دیش وجود میں‌ آیا۔

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی فوج کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔؟
اختر مینگل: میں نے اب تک انہیں ناچتے نہیں‌ دیکھا۔ ڈاکٹر مالک صاحب کو حکومت تو دی گئی ہے لیکن اختیارات انکے پاس نہیں۔ اگر وزیراعظم نے پورے صوبے کے اختیارات وزیراعلٰی کو دیئے ہیں تو پچھلے نو مہینے سے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں‌، انکے ذمہ دار وزیراعلٰی بلوچستان ہونگے۔ اس سے قبل بلوچستان میں یہ مشہور تھا کہ صوبے کے ایک ضلع میں پاکستان کا ترانہ نہیں پڑھا جاتا۔ اسکا نام ڈیرہ بگٹی تھا۔ بعدازاں انہوں نے طاقت سے نواب بگٹی کو قتل کرکے اسکے قلعے میں‌ پاکستان کو جھنڈا بلند کیا اور آج چار پانچ اضلاع ایسے ہیں جہاں‌ پر پاکستان کا جھنڈا اُٹھایا نہیں جاتا۔ تو آپکی انہی حرکتوں کی وجہ سے بلوچستان میں آج شورش موجود ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے موجودہ حالات اور پسماندگی میں‌ جتنا کردار ریاستی اداروں‌ اور حکومتوں کا ہیں، کیا اتنا بلوچ سرداروں‌ کا بھی ہے۔؟
اختر مینگل: دیکھئے اکثر بلوچستان کے سرداروں‌ کی نسبت سے تین سرداروں‌ کے نام تمام میڈیا والوں کی زبان پر چپکے ہوئے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ جو سردار ہمیشہ سے حکومتی دسترخوان پر بیٹھے رہے ہیں، انہوں‌ نے بھی تو بھی اپنے علاقوں‌ کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اگر آپ اکبر بگٹی کی بات کرتے ہیں تو وہاں‌ پر 1953ء سے گیس نکلنا شروع ہوئی لیکن آپ نے صرف زمین کا کرایہ اکبر بگٹی کو دیا۔ لیکن گیس کی رائلٹی نواب بگٹی کو نہیں دی گئی۔ اسی طرح بلوچستان کے دیہاتوں‌ میں گیس کو پہنچانا وفاق کی ذمہ داری تھی۔ لیکن انہوں نے اس گیس کو بلوچستان کی بجائے پنجاب تک پہنچانے کو ترجیح‌ دی۔

اسلام ٹائمز: جس طرح صوبے میں شیعہ ہزارہ قوم کو نشانہ بنایا گیا، کیا اسکا ذمہ دار بھی آپ ریاست کو سمجھتے ہیں۔؟
اختر مینگل: بلوچستان میں گذشتہ چند عرصے سے لسانی بنیادوں پر جو دہشتگردی کے واقعات ہوئے، ہم نے ہمیشہ اسکی مذمت کی۔ اور اپنے شیعہ ہزارہ بھائیوں کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے لیکن میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ بلوچستان میں فرقہ کی بنیاد دہشتگردی "درآمد" شدہ ہے، اسے ہم پر ملک کے دوسرے حصوں سے مسلط کیا گیا ہیں۔ لشکر جھنگوی کے نام سے مختلف تنظمیوں کو بلوچستان میں‌ ریاستی ایماء پر ایکٹو کیا گیا۔ اگر آپ بلوچستان کے لوگوں‌ سے پوچھیں گے تو یہاں‌ پر کسی کو یہ تک پتہ نہیں کہ جھنگ کہاں پر واقع ہے۔ لہذا اس مسئلے کو ملک کے دوسرے حصوں سے لایا گیا، جسکا بلوچستان کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں۔

خبر کا کوڈ : 370927
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش