0
Friday 4 Oct 2013 23:58

نریندر مودی بشکل بھارتی وزیراعظم

نریندر مودی بشکل بھارتی وزیراعظم
تحریر: جاوید عباس رضوی

بھارت میں پارلیمانی الیکشن اب زیادہ دور نہیں ہیں، یہاں کے سیاسی میدان میں نریندر مودی جیسے ہندو شدت پسند لیڈر کی کارکردگی سیاست کے کھیل کو ایک دلچسپ ٹریک پر لا رہی ہے، ایک جانب بعض ماہرین مغربی ہندوستان کی ریاست گجرات میں صوبائی انتخابات میں مودی کی مسلسل تین کامیابیوں کے لئے پائیدار ترقی کے ان کے منصوبے کو کریڈٹ دیتے ہیں وہیں دوسری جانب اُن کی مسلم کش پالیسیوں اور 2002ء کے گجرات فسادات کو نظر انداز کرنے کے عمل کو تقریباً ناممکن قرار دیتے ہیں، 2014ء پارلیمانی انتخابات میں ہندو شدت پسند بھارتیہ جنتا پارٹی موجودہ برسر اقتدار کانگریس حکومت کو کسی بھی قیمت پر شکست دینا چاہتی ہے، یہ جماعت اپنے اس ہدف کے حصول کے لئے ہر قسم کے طریقے اور حربے استعمال کرنے کے لئے آمادہ نظر آ رہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ بی جے پی اندرونی خلفشار کی شکار بھی نظر آتی ہے اور اسی لئے اب وہ نریندر مودی کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گجرات فسادات میں ملوث نریندر مودی اس قابل ہیں کہ وہ مجوزہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے وزیراعظم امیدوار کی حیثیت سے پارٹی کی کشتی کو کنارے لگا سکیں؟ اسے نریندر مودی کا کرشمہ کہیے یا مسلم دشمنی کا رجحان مانئے کہ چاہے گجرات اسمبلی انتخابات ہو یا پھر دوسرے انتخابات وہاں ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی سے زیادہ مودی کی شخصیت حاوی رہتی ہے، اس لئے تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ بی جے پی کے کئی پالیسی ساز اب ان پر بڑا داؤ لگانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، تاہم بی جے پی کی کئی سابق اتحادی سیاسی پارٹیاں گجرات فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے مودی کو بی جے پی کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، لیکن بی جے پی قیادت نے پکا ارادہ کرلیا ہے کہ وہ مودی کے ذریعے ہی قسمت آزمائی کریں گے، بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی صرف مودی کے نام کو استعمال کرنا چاہتی ہے اور وزیراعظم کی کرسی ایل کے ایڈوانی یا پھر کسی اور کو دی جائے گی۔

ہندو شدت پسند لیڈر نریندر مودی کا سیاسی سفر 1980ء میں شروع ہوا، جب آر ایس ایس نے اپنے چند ارکان کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھیجا، ان میں مودی بھی شامل تھا، 1995ء میں انہوں نے گجرات میں انتخابات کے پرچار کی ذمہ داری نبھائی، 2001ء میں اس وقت کے گجرات ریاست کے وزیراعلٰی کیشو پٹیل کے استعفٰی دینے کے بعد مودی کو وزیراعلٰی بنایا گیا، مودی کی حکومت کے دوران 2002ء میں گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں کم سے کم 2 ہزار مسلمان مارے گئے، فسادات کے بعد ملک اور دنیا بھر میں مودی ایک کٹر ہندو پسند لیڈر کی حیثیت سے ابھرے، اور انہیں بھارتی ہٹلر کے طور پر لوگ جاننے لگے، اس کے بعد 2007ء کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے گجرات کی ترقی کو ایشو بنایا اور پھر کامیابی حاصل کی، پھر 2012ء میں بھی نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی گجرات اسمبلی انتخابات میں فاتح رہے اور اب مرکز میں اپنا سیاسی سکہ چلانے کی راہ پر گامزن ہے، گجرات میں ہونے والے فسادات کی بات کئی ممالک میں اٹھی اور مودی کو بعض ممالک نے ویزا نہیں دیا تو بعض نے ان سے اپنے تعلقات منقطع کئے، اگر چہ نریندر مودی 2002ء کے گجرات فسادات میں براہ راست ملوث ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی نے انہیں وزیراعظم کے عہدے کا سب سے مضبوط دعویدار تسلیم کیا اور انہیں اس کھیل کا حصہ بننے کے لئے آمادہ کیا۔

2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں ایسی قیامت بپا ہوئی جس نے مسلم اقلیتی طبقہ کو پیسنے اور ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سنگینیوں نے شعلے اگلنے کے لئے دہانے کھول دئے، ترشول، بلّم، بھالے، پستول غرض ہر شے مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوئی تھی، ہر طرف آگ، دھواں، چیخ و پکار، بھاگ دوڑ، افراتفری اور بدحواسی کا عالم تھا، نام نہاد انکاؤنٹروں کا مذموم سلسلہ بھی تھا جن میں بےشمار افراد مارے گئے، اسی نریندر مودی کی سربراہی میں مسلمان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، غور طلب ہے کہ ایک تازہ انٹرویو میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس شدت پسند لیڈر نے کہا کہ انہیں ایک کتے کی موت پر بھی شدید دکھ ہوتا ہے، تاہم گجرات فسادات کے لئے خود نریندر مودی نے کبھی نہ تو کوئی افسوس ظاہر کیا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی معافی مانگی ہے، کتے کی مثال کے ان کے اس بیان پر کئی حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا، لیکن مودی تو بھارتی ہٹلر ہے اسے کیا فرق پڑتا ہے۔

بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کو گجرات فسادات اچھی طرح سے یاد ہونگے، گجرات فسادات میں 2 ہزار مسلمانوں کا بےدریغ قتل عام ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، گجرات کی مسلم حاملہ خواتین کے شکم چاک نئی بات نہیں ہے، شدت پسند ہندؤں کی وہ لہراتی ہوئی تلواریں، ترشول، بلّم، بھالے، پستول اور وہ وحشی آوازیں اب بھی مسلمانوں کے ذہن میں گونج رہی ہو گی، گجرات کی سرزمین مسلم خواتین کی آبروریزی کی گواہ اب بھی موجود ہے، ہزاروں جلے ہوئے گھروں کی راکھ اب بھی مسلمان ویران بستیوں میں پڑی ہوئی ہے، اب بھی مسلمان نریندی مودی کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے ہیں، 12 سال بعد بھی متاثرین انصاف و عدالت کی تلاش میں ہیں، اب بھی ظلم و بربریت کا سماں چھایا ہوا لگتا ہے، مظفرنگر یو پی کے حالیہ فسادات ایک جھلکی تھی، اب بھی نئے مکانوں میں جلی ہوئی پرانی لکڑی بہت کچھ یاد دلاتی ہے، ابھی نریندی مودی آنے والے ہیں ابھی بابری مسجد جیسی بہت ساری مسجدیں مسمار ہونی باقی ہیں، کیا ایسے میں بھارت کے مسلمانوں کو، گجرات کے مسلمانوں کو نریندر مودی کی شکل میں اپنا وزیراعظم تسلیم کرلینا چاہیئے۔؟

آخر کیوں بھارتی مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے ملک سے وفاداری ثابت کرنے کی ضرورت محسوس پڑتی ہے، وہ اپنے وطن پر تنقید کیوں نہیں کر سکتے؟ کیوں بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کے ووٹ وہ خود نہیں ڈال سکتے۔؟ بھارت کا وزیراعظم مسلمان دشمن کیوں بن سکتا ہے اور مسلم دوست کیوں نہیں بن سکتا۔؟ کیوں آئے دن مسلمانوں کے قتل میں شامل ہی انکی حکمرانی کرتے رہیں گے؟ کیوں بھارتی مسلمانوں کے خلاف بنائے جانے والے قوانین منسوخ یا ان میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔؟ مسلمانوں کو ملکی حکومت اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کا حق کیوں نہیں ہے؟ گجرات کے وزیراعلٰی سے بار بار یہ مطالبہ کیا گیا کہ گجرات فسادات کے سلسلے میں آپ مسلمانوں سے معافی مانگیں لیکن وہ آخر ایک ہندو شدت پسند جو ہے۔۔۔نریندر مودی کی زبان سے بھارت کی تاریخ نے کبھی برائے نام بھی لفظ انصاف نہیں سنا ہے، لیکن یہ بھارتی سیاست و جمہوریت ہے جہاں ہر چیز ممکن ہے۔
خبر کا کوڈ : 308241
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش