0
Sunday 16 Nov 2014 11:38

سیرتِ حسین اور حماسی عمل

سیرتِ حسین اور حماسی عمل
تحریر: جاوید عباس رضوی

عاشورہ میں جو اقدامات اٹھائے گئے اور جو اعمال انجام دیئے گئے مفسرین، شارحین اور مورخین نے اس عمل کو حماسی عمل سے تعبیر کیا ہے، (حماس: ایک خاص عمل کو کہتے ہیں جس میں جمود و سکوت نہ ہو بلکہ حرکت و شجاعت ہو) حماسی عمل کے چار ارکان ہیں، عمل، حرکت، شجاعت اور استقامت۔ یہ چار چیزیں اگر کسی عمل کے اندر آجاتے ہیں تو اس کو حماسی بنا دیتی ہے ورنہ ہر عمل حماسی نہیں ہوتا، ہر مقاومت حماسی نہیں ہوتی اور ہر دلیری حماسی نہیں ہوتی۔ اسلام کے لئے جو عنوان ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام حماسی دین ہے اور عملی طور پر اسلام کی نوعیت حماسی ہے، اسلام رہبانیت کا مذہب یا جمود کا مذہب نہیں ہے، سکوت کا مذہب نہیں ہے، خانقاہی مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام حماسی ہے یعنی اس میں وہ چار ارکان موجود ہیں (حرکت، شجاعت، عمل، استقامت) حماسی عمل کے ساتھ ساتھ حماسی کلام بھی ہوا کرتا ہے کہ جس کلام میں جوش و جذبہ، حرکت و شجاعت و ولولہ موجود ہو، حماسی عمل کہلاتا ہے، سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا قیام حماسی تھا یعنی جب پوری امت پر جمود و سکوت طاری تھا امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور امت کے جمود و سکوت کو توڑا، جمود و سکوتِ امت سب سے بڑا گناہ ہے، امام ؑ فرماتے ہیں سب عبادتوں میں سے افضل عبادت جہاد اور سب سے افضل جہاد سلطانِ جائر کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے، تعجب ہے ان لوگوں پر جنہوں نے اسلام سے حماسی روح چھین لی جنہوں نے کربلا اور امامؑ کے قیامِ مقدس سے حماسی روح چھین لی اور اس قیام مقدس کو کیا سے کیا بنا دیا، کربلا اور عاشورہ سراپا حماسی ہیں، اسلام و قرآن سراپا حماسی ہیں۔

امام حسین ؑ  کا معروف جملہ ہے کہ لوگ دنیا کے بندے ہیں اور دین ان کی زبان پر آیا ہوا ایک ذائقہ ہے، ذائقہ صرف زبان پر ہوتا ہے، زبان کے علاوہ اس کا اثر کسی بھی انسانی حِس میں نہیں ہے، اس دین کا ذائقہ لوگوں کو جہاں تلخی محسوس کراتا ہے وہاں لوگ اس دین کو خیرباد کہتے ہیں، اہلِ مغرب کا کہنا ہے کہ اسلام سے اس کی روح نکال دو، سب سے بڑا کارنامہ جو بعض اشخاص نے انجام دیا وہ یہ ہے کہ اسلام سے حماسی روح نکال دی گئی، اس کے بجائے غیر حماسی اسلام پیش کیا ہے اور مسلمانوں کو کہا کہ غیر حماسی اسلام کا تعویذ بنا کر گلے میں لٹکا دو، جبکہ اسلام شجاعت کا مذہب ہے، اسلام سراپا حرکت کا نام ہے، لا الہ الا اللہ کہنا بہت آسان ہے لیکن اس پر استقامت بہت مشکل ہے، وہ لوگ کہ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے ،یہ کہنے کو تو بہت آسان ہے لیکن اس پر قائم رہنا بہت مشکل ہے، امام خمینیؒ کا بہت حکیمانہ حملہ ہے کہ انقلاب لانا بہت آسان ہے لیکن انقلاب بچانا بہت مشکل ہے، انقلابی بننا آسان ہے انقلابی رہنا بہت مشکل ہے، اُمتیں مختلف ہوتی ہیں، کچھ قومیں شجاع و بہادر ہیں، ان کی تہذیب میں بھی شجاعت ہوتی ہے لیکن بعض قومیں بزدل و ذلیل ہوتی ہیں، ان کی تہذیب میں بہادری نہیں ہوتی ہے، جہاں تہذیب بزدلانہ تہذیب ہوتی ہے وہاں حماسہ نہیں ہوتا کیونکہ حقیقی اسلام کے اندر حماسہ موجود ہوتا ہے۔

امام حسینؑ کہتے ہیں کہ تف ہو ان باتوں پر جن میں حماسہ نہ ہو، جن میں شجاعت نہ ہو، جن میں دلیری نہ ہو یعنی تم میرا ساتھ دینے کے بجائے میری حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے، میری پشتبانی کرنے کے بجائے، میرا دست و بازو بننے کے بجائے، میری تقویت کے بجائے اور میری فوج میں شامل ہونے کے بجائے اُلٹا مجھے بھی روک رہے ہو، عجب نہیں کہ امت امام کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے امام کو روکنا شروع کر دے، یزید آمریت کا علمبردار تھا، یزید اور چیز ہے اور آمریت اور چیز ہے، ملوکیت اور چیز ہے اور یزیدیت الگ چیز ہے، جب لبرل ازم آجائے اس وقت حسین ؑ ابن علی ؑ وارد میدان ہوتے ہیں، چونکہ لبرل اِزم مسلمانوں کو نہیں دباتا بلکہ حق کو کچلتا ہے، ملوکیت مسلمانوں کی سرکوبی کرتی ہے اور انسانوں کو دباتی ہے لیکن لبرل اِزم انسان کی حمایت کا نعرہ لگاتا ہے اور انسانیت کی سرکوبی کرتا ہے اور ہیومنزم کا نعرہ لگاتا ہے، لبرل ازم انسان کا حامی حق کا دشمن ہوتا ہے، مسلمانوں کا حامی اور اسلام کا دشمن ہوتا ہے، آج بھی یہ کہا جارہا ہے کہ انسان کو اسلام کے بغیر مسلمان ہونا چاہئے یہی لبرل ازم ہے، یہ فسق و فجور جب ظاہر ہوا تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکوت و جمود ِ ملت جائز نہیں ہے بلکہ حماسہ کی ضرورت ہے۔

حرکت کے بغیر دنیا نیست و نابود ہوجائے گی، جمود، سکون، سکوت و ٹھہراﺅ موت کے ہی مختلف نام ہیں، اپنے معاشرے کو زندہ رکھنے کے لئے قیام کی ضرورت ہے، جمود و سکوت کو توڑنے کی ضرورت ہے، حرکت و شجاعت کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی میدان میں آنے کی ضرورت ہے، امام عالی مقام حسین علیہ السلام فرماتے کہ زندگی کو ننگ و عار سمجھتا ہوں اور راہِ حق میں شہادت کو اپنے لئے فخر و سعادت سمجھتا ہوں، اس نابکار نے مجھے عزت و ذلت کے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہے کہ حسین ؑ جیسا انسان ہرگز ذلت کے راستے پر نہیں چل سکتا اور آپ ؑ نے فرمایا کہ میں تلواروں اور شمشیروں کے راستے پر چلوںگا لیکن میں ذلت برداشت نہیں کرسکتا، (ھیھات من الذلہ) اے ذلت حسین ؑ سے دور بھاگ، ذلت، جمود و سکوت اور حسین ؑ ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، اگر بہت بڑی شخصیت ہو لیکن اس کے کلام سے ذلت کی بو آرہی ہو تو امام ؑ فرماتے ہیں (اُف لھٰذا الکلام) تف ہو اُن باتوں پر، امام حسین ؑ کا نعرہ تو یہی تھا کہ میں ذلت کی زندگی کو ننگ و عار سمجھتا ہوں، راہ خدا میں شہادت کو سعادت سمجھتا ہوں اور اے نابکار دور ہو جا حسین ؑ سے، غرض یہ کہ کربلا کُل کی کُل حماسہ ہے۔

عصر عاشورہ جب حسین ؑ (ھل من ناصرً) کی صدائیں لگارہے ہیں تو کوئی گھر سے نہیں نکلتا تو جناب زینب ؑ نے کہا کہ میں ایسا کام کروں گی کہ اب کسی کو گھر میں نہیں بیٹھنے دوں گی، ان کے جمود، سکوت کو ختم کروں گی اور ان کے اندر تموج پیدا کردوں گی، ان کے اندر اضطراب پیدا کردوں گی، عزاداری اسی تموج کا نام ہے، یہ ایسی تحریک ہے جو گھر شروع ہوجائے تو بچے بچے میں شروع ہوجائے، ایسی تحریک ہے عالم میں بوڑھوں میں بھی ہو، جو خواتین میں بھی ہو، جو دیہاتوں میں بھی ہو، جو شہروں میں بھی، جو ہر جگہ ہو، کوئی ایسی تحریک ہے، یہ بنت علی ؑ کی چلائی ہوئی تحریک ہے، اسی کے اندر نجات ہے۔ اگر سید الشہداء سے پوچھاجائے کہ اے حسین ؑ کہاں جارہے ہیں تو جواب آئے گا کہ اس لئے کہ امت کے اندر ٹھہراﺅ آگیا ہے، اس کی موج میں سکون و جمود آگیا ہے، میں اسے متحرک کرنے کے لئے جارہا ہوں، امر بالمعروف امت کو حرکت دینے کا نام ہے، مری ہوئی اُمت کو زندگی عطا کرنے والے مسیحا کا نام حسین ؑ ہے، اسی لئے آپؑ امت کو بار ہا متحرک کرتے رہے یعنی اے اُمت حرکت کرو، اٹھو منکرات کے خلاف مبارزہ کرو، اقدار کا دفاع کرو، ویلیوز کا دفاع کرو اور جو منکر نظر آرہا ہے اس کی مذمت کرو۔ اسی لئے پھر بنت زہرا ؑ نے شہیدوں کے خون کو تحریک میں بدل دیا اور مری ہوئی اُمت کے اندر حرکت پیدا کردی، معاشرے کو جگادیا۔
دل مردہ دل نہیں، اسے زندہ کر دوبارہ
یہی ہے اُمتوں کے مرض کہن کا چارہ
تیرا بحر پُرسکون ہے یہ سکوں ہے یا فسوں ہے
نہ نہنگ ہے نہ طوفان نہ خرابی کنارہ
تو ضمیر آسمان سے ابھی آشنا نہیں ہے
مردہ دل سرے سے دل نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 417547
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش