0
Thursday 8 Aug 2013 01:16

حزب اللہ، فلسطین اور عرب (1)

حزب اللہ، فلسطین اور عرب (1)
ترجمہ، تبصرہ و پیشکش: سید اسد عباس تقوی
 
سید حسن نصراللہ کی گفتگو کا ایک خاصہ یہ ہے کہ کوئی سنے نہ سنے صہیونی ضرور سنتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے یوم القدس کے موقع پر امام حسین (ع) کمپلیکس میں ایک فصیح و بلیغ خطاب کیا۔ اس اجتماع میں سید حسن نصراللہ بنفس نفیس حاضر ہوئے جبکہ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ سید حسن نصراللہ کے اکثر خطابات ویڈیو لنکس کے ذریعے دکھائے اور سنے جاتے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق سید حسن نصراللہ کی اس اجتماع میں حاضری اور بنفس نفیس خطاب انتہائی اہمیت کا حامل ہیں۔ آپ نے اس خطاب میں یوم القدس اور مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو انتہائی خوبصورت اور مدلل انداز میں پیش کیا۔ 

علاوہ ازیں سید حسن نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ آپ کا یہ خطاب عرب سامعین نے تو یقیناً اپنے ٹی وی چینلز پر سنا ہوگا، تاہم غیر عرب سامعین تک بھی اس خطاب کے اقتباسات پہنچ رہے ہیں۔ انہی اقتباسات میں سے ایک اقتباس میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا، جس میں سید حسن نصراللہ نے بڑے واضح انداز میں قدس، مسئلہ فلسطین سے حزب اللہ کے تمسک کو بیان کیا۔ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ میں سید حسن نصراللہ کے بیان کو براہ راست سنوں۔ میری نظر میں سوشل میڈیا پر چلنے والے اس اقتباس میں آپ کی تقریر کے بہت سے اہم نکات پیش نہیں ہوئے۔ یہ تحریر لکھنے کا مقصد آپ کے خطاب کا ترجمہ نہیں تھا بلکہ میں تو اسی سوشل میڈیا کے کلپ کو عنوان بنا کر اپنے جذبات کو بیان کرنا چاہتا تھا، تاہم مکمل تقریر سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس خطاب کا مکمل متن اردو کے قارئین تک پہنچانا ازحد ضروری ہے۔ اسی فکر کے مدنظر سید حسن نصر اللہ کے خطاب کا مکمل متن پیش خدمت ہے۔ 

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ فلسطین کو اپنی کامل صورت میں یعنی دریا سے سمندر تک اس کے حقیقی باسیوں کی جانب لوٹ جانا چاہیے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص چاہے شہزادہ ہو یا بادشاہ، صدر ہو یا راہنما، شیخ ہو یا سید، ریاست ہو یا حکومت یا کوئی تنظیم، کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ فلسطین کی سرزمین کے ایک چپے، وہاں کے پانیوں کے ایک قطرے، وہاں سے نکلنے والے تیل کے حق سے دستبردار ہو یا اس میں کسی قسم کی رعایت دے۔ (انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ) کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس قسم کا کوئی قدم اٹھائے۔ فلسطین یہ وہ حق ہے جس کا اعادہ رمضان المبارک کے سچے اور پاکیزہ مہینے میں کیا جانا چاہیے۔
 انھوں نے کہا کہ امام خمینی نے بڑے دقیق اور واضح انداز میں اسرائیل کو سرطان کا پھوڑا قرار دیا۔ یہ سرطان کا پھوڑا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ سرطان کا پھوڑا جسم میں جڑیں پیدا کرتا ہے اور اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ سرطان کا علاج اس کے سوا کوئی نہیں کہ جب اس کا پتہ چل جائے تو اس کا خاتمہ کر دیا جائے، اسے پھیلنے سے روکا جائے۔ پس اسرائیل جو صہیونی منصوبے کا حصہ ہے، ایک مستقل اور انتہائی نقصان دہ خطرہ ہے۔
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم نہیں کہ سکتے کہ اسرائیل صرف فلسطین کے لیے خطرہ ہے اور لبنان، شام، اردن، عراق، عرب امارات، مصر، شمالی افریقہ اور دیگر عرب ریاستیں نیز اسلامی ملک اس خطرے سے محفوظ رہیں گے اور یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سوچنا کہ اسرائیل صرف فلسطین اور اس کے باسیوں کے لیے خطرہ ہے ایک ابہام ہے، جو لاعلمی کی علامت ہے۔ اسرائیل اس خطے کی تمام ریاستوں اور ان کے عوام کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسرائیل ان ممالک کی استعداد، سلامتی، عزت و وقار اور خودمختاری سب کے لیے نقصان دہ ہے۔
 
سید نصراللہ نے کہا کہ یہ کہنا کہ اس سرطانی پھوڑے کے خاتمے سے فلسطین کو فائدہ ہوگا درست ہے لیکن پورا سچ یہ ہے کہ اس کا فائدہ پوری امت مسلمہ کو ہوگا۔ اسرائیل، اردن، مصر، شام اور اسی طرح دیگر عرب ریاستوں کی قومیت اور وطنیت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ ہر وہ شخص جو اس صہیونی منصوبے کے خلاف اس خطے میں یا دنیا میں کسی بھی صورت میں قیام کرتا ہے وہ فلسطینی عوام اور قدس کا دفاع کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ریاست، عوام، عزت و وقار اور اپنی نسلوں کے مستقبل کا بھی دفاع کرتا ہے۔ فلسطین کا دفاع ہر فلسطینی، غیر فلسطینی چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری ہے، کیونکہ یہ حق کی راہ ہے اور حقیقی انسانی مسائل کی نمائندگی کرتا ہے۔ 

سید حسن نصراللہ کہتے ہیں کہ فلسطین کے اس دفاع کی ذمہ داریوں کے تعین میں مقامات، ریاستوں اور افراد کے لحاظ سے تفاوت ہے۔ ہم چونکہ جغرافیائی، امکانی اور استعدادی لحاظ سے فلسطینی خطے کے زیادہ قریب ہیں، پس ہماری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، لیکن کوئی بھی اس مسئولیت سے فرار نہیں کرسکتا۔ سیاسی موقف، فلسطینی عوام کی اخلاقی اور مالی امداد مسئولیت کا کم ترین درجہ ہے اور سب سے کم ترین درجہ یہ ہے کہ روز محشر آپ خدا کی بارگاہ میں کہہ سکیں کہ میں نے اسرائیل کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ میں تازہ ترین صورتحال پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ آج عرب ممالک میں بہت سی ایسی حکومتیں ہیں جو مسئلہ فلسطین کو اپنے مسائل میں اولیت نہیں دیتیں بلکہ وہ اس کی اولیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ لوگوں کی توجہ دوسری ترجیحات اور مقاصد کی جانب مبذول کریں۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کی ابتداء سے ہماری حکومتوں نے کیمونزم اور اس کے پھیلاؤ کو اسلام کے لیے خطرہ بیان کیا اور یوں مسئلہ فلسطین فراموش کر دیا گیا۔ کیمونزم کے مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے لیے لاکھوں ڈالر صرف کیے گئے، میڈیا چینلز بنائے گئے، کتابیں لکی گئیں، جنگیں لڑی گئیں، حتی کہ افغانستان کی جنگ میں پوری دنیا سے منجملہ مصر، شام، عراق، اردن، لبنان اور تو اور فلسطین سے لوگوں کو جمع کیا گیا۔ 

میرے بھائیو! فلسطین تو خود مقبوضہ علاقہ تھا تم کس لیے 10سال افغانستان میں جہاد کرتے رہے۔ حسن نصراللہ نے کہا کہ میں افغان جہاد کی شرعی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں ترجیحات کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ ٹھیک ہے سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا اسے وہاں شکست ہوئی اور وہ وہاں سے چلا گیا، لیکن اس جنگ کے بعد اور انقلاب ایران کی کامیابی کے بعد ایک نیا دشمن اختراع کیا گیا جسے مجوسی کا نام دیا گیا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 290746
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش