0
Tuesday 10 Jan 2012 18:47

بحرین میں ظلم جاری ہے

بحرین میں ظلم جاری ہے
تحریر:ہما مرتضیٰ 

14 فروری 2002ء کو بحرین کے عوام نے موجودہ شاہی حکومت کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ شاہی حکومت کا آئین منسوخ کیا جائے، جس میں عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور نیا آئین تدوین کیا جائے۔ بحرین کے عوام کا کم ازکم یہ مطالبہ رہا ہے کہ شاہی خاندان اپنے زیادہ تر اختیارات منتخب پارلیمنٹ کو منتقل کر دے۔ اسی تاریخ کی مناسبت سے سیاسی اور جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کے نمائندہ تمام گروہوں کے محاذ کو ”چودہ فروری کا اتحاد“ کہا جاتا ہے۔ اسی اتحاد کے تحت اس وقت تک بحرینی عوام تمام قربانیوں کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی اٹھان نے جہاں شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے دیگر عوام کو نیا حوصلہ بخشا، وہاں بحرین کے عوام بھی جنوری 2011ء میں اپنے جمہوری حقوق کے لیے ایک دفعہ پھر باہر نکل آئے۔ ان کی اس جدوجہد کو دبانے میں جب حکمران آل خلیفہ کی قیادت ناکام ہو گئی تو انھوں نے علاقے میں موجود دیگر بادشاہوں سے مدد طلب کی۔ سعودی عرب جو پہلے سے بحرین کے عوام کی اس تحریک سے خوفزدہ تھا کہ اس کے اثرات کہیں خود سعودی عرب میں نہ آ پہنچیں، نے اس سلسلے میں زیادہ اضطراب کا مظاہرہ کیا۔

علاقے کی بادشاہتوں کے سیاسی اور اقتصادی اتحاد ”خلیج تعاون کونسل“ کے نام پر سعودی، قطری اور متحدہ عرب امارات کی فوجوں کو بحرین میں داخل کر دیا گیا، جہاں پہلے ہی پانچواں امریکی بحری بیڑہ موجود تھا۔ ان افواج نے آل خلیفہ کی افواج کے ساتھ مل کر بحرینی عوام کی پرامن جمہوری جدوجہد کو کچلنے کے لیے تمام تر ہتھکنڈے آزمائے۔ قتل و غارت، خوف و وحشت، قید و بند، پراپیگنڈا
اور نفسیاتی حربے، گویا وہ سب کچھ جو وحشی آمروں سے توقع کی جا سکتی ہے، کیا گیا۔ لیکن بحرین کے عوام شکست کھانے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔

خود سعودی عرب کے اندر کی یہ حالت ہے کہ انسانی حقوق کے آزاد کمیشن نے 23 نومبر 2011ء کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ فوجیوں نے مظاہروں کو روکنے اور کچلنے کے لیے حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا ہے اور انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے اور اس قتل و غارت میں بھرپور کردار ادا کرنے والے سعودی عرب کے ولی عہد نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق
کی پابندی کی جاتی ہے، جبکہ سعودی عرب میں ہی ہزاروں افراد بلا مقصد عرصہ دراز سے جیلوں میں بند ہیں۔ یہ دعویٰ ولی عہد نے 2 جنوری 2012ء کو انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات میں کیا۔

اس پر طرہ یہ کہ حال ہی میں امریکہ نواز اقوام متحدہ نے ”ریاض“ کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب کیا ہے، جسے سرے سے انسانی حقوق نام کے لفظ سے آشنائی نہیں۔ یہ وہ حکمران ہیں جو اپنے ملک میں انسانی حقوق کے حصول کے لیے کیے گئے کسی بھی قسم کے احتجاج کو برداشت تک نہیں کرتے اور بحرین میں عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے مسلسل مالی اور فوجی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

بحرین اس وقت سعودی فوجیوں کے غاصبانہ تسلط میں ہے، بحرین کی آزادی ختم ہو چکی ہے اور بحرین کی حکومت سراسر امریکی اور سعودی اشاروں پر چل رہی ہے اور بے گناہ نہتے شہریوں کا خون بہا ر ہی ہے۔ جو شخص بھی دن میں کسی احتجاج میں شریک ہوتا ہے، رات کو اُس کے گھر میں گھس کر سعودی فوجیں اسے پکڑ کر لے جاتی ہیں۔ سعودی وحشی نہ صرف ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتے ہیں بلکہ ان کے پھولوں اور کلیوں جیسے بچوں کو بھی مسل کر رکھ دیتے ہیں۔ خواتین کی بے حرمتی سے بھی نہیں چوکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بحرین کے معصوم لوگوں کا قصور کیا ہے؟ صرف یہ کہ وہ اپنے مسلمہ حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ وہی حقوق ہیں، جو انھیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت بھی حاصل ہیں۔

بحرین میں چودہ فروری اتحاد نے ایک حالیہ بیان میں امریکہ نواز آل خلیفہ حکومت کے مذاکرات اور گفتگو کو بے سود قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ شیخ حمد بن عیسٰی آل خلیفہ کی امریکہ نواز حکومت بحرین میں امریکی اور سعودی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عرب ممالک میں جاری عوامی اسلامی بیداری کو کچلنے کے لیے امریکہ کو سعودی عرب کی سخت ضرورت ہے۔ اسی لیے اسے اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا رکن منتخب کیا ہے۔ امریکہ سعودی عرب کے ذریعے علاقائی انقلابات کو کچلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کو سعودی عرب، بحرین اور دیگر امریکہ نواز عرب ممالک میں اصلاحات اور جمہوری نظام پسند نہیں ہے، کیونکہ جمہوری نظام کی صورت میں امریکہ کا علاقے سے کنٹرول ختم ہو جائے گا۔ یہاں علاقہ سے مراد وہ تمام عرب ممالک ہیں جہاں امریکہ نواز حکومتیں ہیں، جن میں تیونس، مصر، بحرین، سعودی عرب اور یمن شامل ہیں۔ جہاں کے عوامی انقلاب نے امریکہ کی سامراجی پالیسیوں کو ناکامی سے دوچار کر کے رکھ دیا ہے۔

ایسے میں اسے اپنے سے وابستہ اور بکے ہوئے حکمرانوں کی سخت ضرورت ہے اور انقلاب بھی ایک ایسا انقلاب جو تیونس سے سونامی کی طرح اٹھا اور اپنی لپیٹ میں مصر، یمن، لیبیا، بحرین اور سعودی عرب کو لے لیا ہے اور وہاں سے آگے بڑھتا ہوا خود امریکہ کی وال اسٹریٹ تک جا پہنچا۔ عرب ممالک میں تو اس سونامی کو روکنے کے لیے امریکہ انسانی لاشوں کے بند باندھ رہا ہے، کیا خود اپنے ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اس تحریک کو روکنے کے لیے بھی سعودی فوجوں کو دعوت دے گا۔؟

بحرین میں بحرین کی سکیورٹی فورسز نے سعودی فورسز کے ساتھ مل کر حال ہی میں مظاہرے کے دوران میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائر کیا گیا آنسو گیس کا گولہ سر پر لگنے سے جان بحق ہونے والے نوجوان کے جنازے کے بعد ہونے والے مظاہرے میں شریک لوگوں پر بھی حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ سکیورٹی فورسز نے ان پر فائرنگ کی اور آنسو گیس کے گولے داغے۔ بحرین کی جیلوں میں سینکڑوں بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے مسلسل ظلم و بربریت اور بے حرمتی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بے گناہ کھلاڑیوں، وکلاء، حتٰی کہ جج صاحبان کو بھی جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ مظاہرین پر ایسی ایسی زہریلی گیس استعمال کی گئی ہے، جس کے مہلک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ایسے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی بے حسی و خاموشی ظلم کو مزید بڑھنے کا حوصلہ
دے رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ خود اقوام متحدہ کا یہی حال ہے۔ وہ تو امریکی باندی بن کر رہ گئی ہے۔ لیبیا میں اُسے استعمال کر کے قرارداد منظور کروالی گئی اور نیٹو کی ہوائی افواج نے لیبیا کا اقتصادی ڈھانچہ بری طرح برباد کر کے رکھ دیا، لیکن بحرین
میں تو خود امریکی بحری بیڑہ موجود ہے اور امریکہ ہی کی ایما پر خلیج تعاون کونسل کی افواج وہاں مسلسل ستم ڈھا رہی ہیں۔

کیا یہ ستم اسی طرح جاری رہے گا، یا پھر بحرینی عوام کا خون رنگ لائے گا۔ علاقے کے مختلف ممالک میں اسلامی بیداری کے تحت جو کاروان حریت آگے بڑھ رہا ہے۔ امید کی کرنوں کے ایک روشن مینار میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ خود سعودی عرب کے اندر عوام کی بیداری دن بدن ایک عظیم تر تحریک کی شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ یمن کے عوام بھی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ مصر میں عوامی انقلاب مستحکم ہو رہا ہے۔ عراق سے امریکی افواج نکل چکی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب داخلی اور خارجی حالات کے پیش نظر امریکہ کو اپنی فوجی مشینری کے پر پُرزے سمیٹنے پڑیں گے اور پھر بہت سی قوموں کو آزادی نصیب ہو گی۔ بحرین کی قوم انہی حریت پسند بہادر قوموں کا ہر اول
دستہ قرار پائے گی۔
خبر کا کوڈ : 129240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش