0
Wednesday 5 Nov 2014 13:15
سول اور ملٹری قیادت کو ملکر مسئلہ بلوچستان حل کرنا ہوگا

ملکی سیاسی ڈھانچہ اور اداروں کی خودمختاری تک دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں، آیت اللہ درانی

ملکی سیاسی ڈھانچہ اور اداروں کی خودمختاری تک دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں، آیت اللہ درانی
آیت اللہ درانی پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنماء و سابق وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ مولانا محمد عمر کے صاحبزادے ہیں۔ آیت اللہ درانی 1 جنوری 1956ء کو بلوچستان کے علاقے مستونگ میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے مکمل کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ 1977ء میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن بلوچستان کے صدر بھی رہے ہیں۔ گذشتہ بارہ سالوں سے پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لیکر این اے 268 قلات سے نیشنل اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے اور بعدازاں وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار منتخب ہوئے۔ پورے ملک خصوصاً بلوچستان میں جاری دہشتگردی اور بلوچ مسائل کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: جو بدامنی پچھلے دور حکومت میں تھی تو وہی آج بھی ہو رہی ہے۔ کیا حکمرانوں کی تبدیلی سے اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔؟
آیت اللہ درانی: ایک بات ہمیں اپنی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ بلوچستان ادارہ جاتی لڑائی کے اندر بھی ملوث ہے، خود اس کو بھی محسوس ہو رہا ہے چونکہ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ پریکٹیکل لوگ اگر آ جائینگے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو جائے گی تو قوم پرستوں کے آنے سے حالات بہتر ہو جائینگے لیکن یہ سلسلہ ان سے بھی نہیں رک پایا۔ البتہ پہلے کی نسبت اس میں معمولی کمی آئی ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ حکومت بالکل کامیاب ہوگئی۔ جس طرح نواز شریف صاحب اور بلوچستان کی دیگر قوم پرست جماعتیں کہتی تھی کہ ان تک اقتدار کی منتقلی سے مسائل حل ہونگے، لیکن یہ بات سب کیلئے واضح ہوگئی کہ دہشتگردی کو کنٹرول کرنا انکے بس کی بات نہیں۔ اس وقت بلوچستان کی موجودہ صورتحال میں بڑی بڑی طاقتیں ملوث ہیں۔ مختلف ایجنسیاں‌ حالات کو ہر سطح پر خراب کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: لیکن اس مقام پر ہماری ریاست اور حکومت کہاں پر کھڑی ہے۔؟ اربوں روپے کے ٹیکس لینے والے حکمراں صوبے میں اپنی رٹ قائم کیوں نہیں کر پاتے۔؟
آیت اللہ درانی: پہلی بات تو یہ ہے کہ جب گھر آپکا اپنا نہ ہو تو آپ کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ گھر میرا ہے۔ جب کوئی اپنا مکان کسی کو کرائے پر دیدے، تو وہاں پر ایسا ہی ہوگا۔ آپکا سیاسی ڈھانچہ، ادارے، زمینی و ہوائی خودمختاری سب کرائے پر ہو تو آپ کچھ نہیں کرسکتے بلکہ جو کچھ کرائے دار چاہیں گے، ویسا ہی ہوگا۔ لہذٰا ہمیں ان تمام معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ ہماری پوری معیشیت کرائے پر ہے۔ جب تک ہم اپنے آپ کو ایک مضبوط و مستحکم قوم بناکر دنیا کیساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار نہیں کرتے، تب تک یہ صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اب تک بلوچ مسلح گروہوں‌ سے مذاکرات کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں۔؟
آیت اللہ درانی: نواز شریف صاحب نے خود کہا تھا کہ میری حکومت بلوچستان کے مسائل حل کرے گی مگر اب تک سیاسی ڈائیلاگ انہوں نے کہیں بھی شروع نہیں کیا۔ یہ صرف نشستن و برخاستن سے معاملات حل نہیں ہونگے بلکہ اسے سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ موجودہ حکومت کے بقول انہوں نے تمام مسلح گروہوں کیساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کا اعادہ کیا تھا، یہ اس راستے پر اپنے آپ کو نہیں ڈال سکے، کیونکہ اسکی وجہ سیاسی ہے۔ جب تک سیاسی طور پر فیصلہ نہیں ہوتا، یہ حل ہونے والا نہیں۔ سیاسی گفت و شنید سے اپنے معاملات شروع کرے تو تمام ادارے آپکا ساتھ دینگے۔ ابھی تک نواز شریف صاحب خود آگے نہیں جا رہے، تو اداروں کے مابین پوزیشن اسی طرح ہوگی۔ پہلے سیز فائر کا معاہدہ تو دونوں‌ جانب سے کروائیں مگر وہ بھی نہیں کروا سکے، جو انکی ناکامی ہے۔

اسلام ٹائمز:‌ موجودہ حکومت تو کہتی ہے کہ اس معاملے میں وہ کافی حد تک آگے بڑھے ہیں، لیکن میڈیا کے سامنے ابھی آشکار نہیں کرسکتے۔؟
آیت اللہ درانی: گذشتہ آل پارٹیز کانفرنس میں پورا مینڈیٹ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب کو دیا گیا کہ آپ مذاکرات کریں۔ اب سب سے پہلے تو بلوچ مسلح گروہوں کی بات سننی چاہیئے، کہ کیا وہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب کو بااختیار مانتے بھی ہے یا نہیں۔؟ کیا ان باغیوں‌ کا ڈاکٹر مالک صاحب پر اعتماد ہے۔؟ اب ستمبر میں منعقد ہونے والی اے پی سی میں سول اور ملٹری قیادت دونوں بیٹھی تھی، نواز شریف صاحب اگر چین جا سکتے یا ترکی جا سکتے ہیں تو کیا یہی قیادت اکھٹے جاکر ان سے بات کیوں نہیں‌ کرتی۔؟
خبر کا کوڈ : 417853
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش