0
Thursday 22 Sep 2011 16:38

ترکی کی سیاست کے پس پردہ حالات

ترکی کی سیاست کے پس پردہ حالات
تحریر:سید ناصر عباس شیرازی
ترکی نے فریڈم فلوٹیلا میں اپنے شہریوں کی بہیمانہ ہلاکت پر اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ بعدازاں اقوام متحدہ کی رپورٹ آنے پر کہ جس کے مطابق اسرائیل کا طاقت کا غیر متوازن اور غیر ضروری استعمال کیا جانا تسلیم کیا گیا تھا۔ ترکی نے اسرائیل سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جسے اسرائیل نے رد کر دیا۔ تلخی کے نتیجہ میں ترکی نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو طلب کر کے ترکی میں متعین اسرائیلی سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ چند سال قبل G-20 کے اجلاس میں کم وقت دینے اور اسرائیلی وزیراعظم کو زیادہ توجہ اور وقت دینے پر ترکی کے وزیراعظم نے تقریب کا بائیکاٹ کر کے عالمی حمایت حاصل کی تھی اور اب یہ دوسرا موقع ہے کہ ترکی نے اسرائیل کے خلاف سخت سفارتی اقدامات اور فوجی تعاون منجمد کرنے کے اعلانات کے ذریعہ دنیا بھر میں اسرائیل سے نفرت کرنے والوں کی حمایت حاصل کی۔
 ان تمام واقعات نے عالمی سطح پر ترکی کو امت مسلمہ کے جذبات کا ترجمان اور اسلامی دنیا سے ابھرتے ہوئے لیڈر کے طور پر نمایاں ہونے کا بھرپور موقعہ فراہم کیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ایک نیا ترکی جنم لے رہا ہے جو عالمی سیاست میں مسلمانوں کے مسائل کا حقیقی ترجمان بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ترکی 10 لاکھ باقاعدہ فوج کے ساتھ مشرق وسطٰی کی سب سے بڑی اور NATO میں امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی عسکری قوت بھی ہے۔ اقتصادی طور پر بدترین کساد بازاری کے عالمی رحجان کے باوجود انتہائی بہتر پوزیشن کا حامل ابھرتا ہوا ترکی کیا واقعاً امت مسلمہ کا نیا رول ماڈل ہو سکتا ہے اور کیا ترکی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات بالخصوص انتخابات کے نتیجہ میں نسبتاً اسلام کی طرف جھکاؤ رکھنے والے افراد کا اقتدار میں آ جانا، کیا ترکی میں کسی حقیقی تبدیلی کے عمل کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ترکی کا حالیہ طرز عمل اُس کا عکاس بھی ہے۔ 
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر صاحب نظر کو متوجہ کئے ہوئے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر عام جذباتی مسلمانوں کے برعکس دنیا بھر میں امت مسلمہ کی حقیقی راہنما اسلامی تحریکوں نے ترکی کے حالیہ طرز عمل کا نہ تو استقبال کیا ہے اور نہ ہی کسی مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بالعموم ایک حکمت بھری خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ چاہے مصر کی اخوان المسلمین ہو یا لبنان کی حزب اللہ، فلسطین کی حماس ہو یا دیگر عرب ممالک میں فعال تحریکیں، کس نے بھی ترکی کے جارحانہ اقدامات کی اعلانیہ تائید نہیں کی۔ اخوان المسلمین نے بالآخر ترک وزیراعظم کے دورہ مصر کے جواب میں اس سکوت کو توڑا اور یوں ترکی کا حقیقی چہرہ بے نقاب کیا۔
ترک وزیراعظم نے تازہ دورہ میں مصر کیلئے ترکی کے آئین کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مصر کو اپنا آئین ترکی کی مانند سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے اور اس کو دین سے مربوط کرنا غلط اقدام ہو گا۔ اخوان کے مرکزی راہنماؤں نے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا۔ انہوں نے ترکی کو اپنا سیکولر آئین اپنے پاس رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ مصر اور مصری عوام خود طے کریں گے کہ انہیں کیسا آئین درکار ہے اور یہ کہ مسلمان مصری عوام مسلمانوں کی امنگوں کا ترجمان آئین ہی طلب کریں گے۔ 
ترکی نے اسرائیل کے خلاف خالی خولی جارحانہ بیانات دے کر جہاں اسرائیل کے ستم کا شکار اور اسرائیل سے نفرت کرنے والے عوام کی حمایت حاصل کر کے اپنے اثرونفوذ کو توسیع دینے کی بھونڈی کوشش کی، وہاں خود ترکی کی اپنی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے۔ مثلاً ترکی نے دو مرتبہ اعلان کیا کہ آئندہ ترکی فریڈم فلوٹیلا بھیجے گا اور اس کی حفاظت کے لیے ترک جنگی جہاز اور فضائیہ ہمراہ ہو گی، لیکن تاحال اس حوالہ سے کوئی قدم اٹھایا نہیں جا سکا۔ دوسری طرف اسرائیل کے بدترین دشمن، اسرائیل کے خلاف قیام کرنے والی واحد عرب حکومت اور اسرائیل سے جولان کی پہاڑیوں کے تنازعہ پر عملی طور پر برسرپیکار ریاست شام کے مقابلہ میں ترکی کا فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر سامنے آنا کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔ 
شام فلسطینوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے والی حزب اللہ کا پشت پناہ اور خطے میں اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے نفوذ کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل کے خلاف جارحانہ بیانات دینے والا یہ ترکی شام میں اسی اسرائیل کی ایماء پر شروع ہونے والی مسلح تحریک کے حق میں سب سے بڑے مددگار کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور اسرائیل کے اس قوی دشمن کو راہ سے ہٹانے کے لیے امریکہ اور نیٹو کے فرنٹ مین کے طور پر فعال ہو رہا ہے۔ ترکی نے مصدقہ اطلاعات کے مطابق اپنی شام سے ملحقہ سرحد پر 5 لاکھ شامی مہاجرین کے قیام و طعام کے انتظامات کئے۔ امریکہ و اسرائیل نے اردن، سعودی عرب اور خطے میں دیگر ایران و شام مخالف حکومتوں کی ایماء پر شام میں ایسی مسلح تحریک شروع کی جس کا منطقی نتیجہ لاکھوں افراد کی ترکی کی طرف مہاجرت کی صورت میں نکلنا تھا۔ قرار یہ تھا کہ ان لاکھوں مہاجرین کو مسلح تربیت کے ذریعے واپس شام میں بھیج کر اس حکومت کا تختہ الٹ کر مرضی کی حکومت مسلط کی جائے گی۔ 
شام کے تمام پڑوسیوں میں سے صرف ترکی نے اس کام کے لیے آمادگی ظاہر کی اور اپنی ہزاروں فورسز تک ان کیمپس میں طلب کیں، لیکن شام کے بروقت اور درست اقدامات کے نتیجہ میں یہ مہاجر کیمپس سائیں سائیں کرتے رہے اور ان میں صرف 10 ہزار لوگ مقیم ہوئے، جن میں 2 ہزار بعدازاں وطن واپس چلے گئے۔ یوں یہ سازش دم توڑ گئی اور ثابت ہوا کہ ترکی دراصل اسرائیل کی حمایت میں اس کے سب سے بڑے دشمن کے مقابل برسرپیکار ہے، نہ کہ اسرائیل کے مقابل کھڑا ہے۔ ترکی اگر اپنے جمہوری رویوں کی بنیاد پر شام میں ڈکٹیٹرشپ کی مخالفت کر رہا ہے تو اس کا یہ رویہ قطر، بحرین، یمن اور حتٰی خود سعودی عرب کے لیے کیوں نہیں کہ جو ایسی ڈکٹیٹرشپ کا حامل ہے کہ اس ملک میں خواتین کو ڈرائیونگ تک کے حقوق حاصل نہیں۔
ترک وزیراعظم خطے کے سب سے بدترین ڈکٹیٹر شاہ عبداللہ سے ملک کا سب سے بڑا اعزاز وصول کرتے ہوئے اس کے سامنے گردن خم کرتا ہے اور ترک وزیراعظم کے سعودی عرب کے چوتھے دورے کے نتیجہ میں ان دو ممالک کے تعلقات اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ گویا معاملہ ڈکٹیٹر اور جمہوریت پسندی کا نہیں، بلکہ امریکی اطاعت اور نیٹو قوانین کی پابندی کا ہے اور اس سے بڑھ کر مسلم دنیا میں سیکولر ترکی کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کے امریکی منصوبے کا ہے، تاکہ اسلامی بیداری کی حالیہ لہر کا تدارک کیا جا سکے اور اس کا رخ موڑا جا سکے اور تبدیلی کے لیے تیار کوئی بھی ملک ایک اسلامی نظریاتی ریاست کی بجائے سیکولر ترکی کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہوئے اس سمت میں پیش رفت کرے۔ یہ وہ اہم ترین نقطہ ہے کہ جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اسلامی بیداری کی عالمی کانفرنس میں متوجہ کرتے ہوئے مسلم امہ کو خبردار رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔
ترکی خطے میں امریکہ و نیٹو کیلئے مضبوط اور بااثر اتحادی کے طور پر سامنے آ رہا ہے لیکن ظاہری بیانات کے ذریعے وہ اس کا اظہار نہیں ہونے دینا چاہتا، ترکی جہاں نیٹو کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجہ میں ایران کے خلاف میزائل شیلڈ نصب کرنے کیلئے اپنی سرزمین کی آمادگی کا وعدہ کر چکا ہے وہاں جرمنی میں نیٹو کے سب سے بڑے لوجسٹکس ہیڈ کوارٹر کو ترکی کے شہر ازمیر میں منتقل کرنے کیلئے معاہدہ بھی کر چکا ہے۔ ترکی نیٹو میں 5 ایٹمی شراکت داری کے معاہدے کے حامل ممالک میں سے ایک جبکہ یورپی یونین سے کئی معاہدوں کے بندھن میں بھی بندھا ہوا ہے اور ابھی بھی یورپی یونین کی مستقل رکنیت کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔
 ترکی کے موقف کا کھوکھلا پن اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ 2006ء کی حزب اللہ اسرائیل جنگ میں عملاً اسرائیل سے فوجی تعاون کا پابند رہا ہے اور اس نے حزب اللہ کی کسی طور حمایت نہیں کی۔ 2008ء کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ میں فلسطینوں کی حمایت نہیں کی۔ عراق و افغانستان میں امریکی جنگوں میں کسی طور مزاحم نہیں رہا اور نہ ہی خطے میں امریکی یا اسرائیلی مفادات کی راہ میں کہیں کسی بھی طرح کی رکاوٹ رہا ہے بلکہ خطے میں اسرائیل کے خلاف متحرک قوتوں کو بے اثر کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
 آج بھی ترکی UNIFL میں 700 ٹرولیں کے ساتھ مغرب کا حصہ دار ہے۔ ترکی ایک نیسٹک ریاست کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کے جہاز کا عملہ اور مسافر بھی ترک تھے اور PKK جو کہ اس کی آرگنائزر تھی وہ بھی ایک ترک تنظیم تھی، لہٰذا ترکی قومیت پرستی کا تقاضا تھا کہ وہ اس ایشو پر سخت ردعمل دیتا اور اس میں اس کا قومی مفاد بھی تھا اور خطے میں بڑی فوج رکھنے کا جواز بھی، مقبوضہ قبرص کے معاملے میں بھی ترکی کا موقف ایسا ہی سخت ہو گا لیکن ترکی کا کسی ایک عالمی اسلامی ایشو پر ایسا سخت موقف کبھی سامنے نہیں آیا۔ 
ترکی مکمل طور پر مغربی حصار میں اور امریکی و نیٹو کے آلہ کار کے طور پر خطے میں فعال ہو رہا ہے اور ترکی کے نفوذ کو بڑھانا انہی طاقتوں کی خواہش ہے کہ سیکولر ترکی اسلامی بیداری کی لہر کو انحراف کا شکار کرنے کا بہترین وسیلہ ہے، وگرنہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی داخلی طور پر کسی نظریاتی تبدیلی کا شکار نہیں ہوا، نہ ہی ترکی میں کوئی ایسی بنیادی تغیر Fundamental change آئی ہے کہ جو اس کی بین الاقوامی پالیسی کا رخ بدل کر رکھ دے۔ یہ ایک سراب ہے اور گہری نگاہ اس سراب سے دھوکہ نہیں کھا سکتی۔ ترکی میں اسلامی بیداری فکر کی بنیاد پر تبدیلی کا عمل بہت سست ہے اور دیر سے نتائج لائے گا۔
 آج ترکی کے وزیراعظم کی بیٹی اگر اسکارف پہننے کی انسانی حقوق کی آزادی کے حق کا استعمال کرتے ہوئے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنا چاہے تو سیکولر ترکی کا آئین اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور وہ مجبور ہے کہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے ترکی کے علاوہ کسی اور ملک کا انتخاب کرے۔ جس ترکی میں اسلام کی بنیاد پر اتنی تبدیلی نہیں آ سکی، وہ ترکی کیسے اسلامی دنیا کی لیڈرشپ کا کردار سنبھال سکتا ہے۔ البتہ ترکی کو دیگر اسلامی دنیا کی طرح تبدیلی کی اس لہر کا مشاہدہ کرنا ہے اور اسلامی بیداری کے حقیقی اثرات یہاں مرتب ہونے ہیں، لیکن ابھی اس میں وقت درکار ہے۔
خبر کا کوڈ : 100656
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش