0
Saturday 9 Aug 2014 01:28

غزہ صبر و استقامت کا آئینہ دار

غزہ صبر و استقامت کا آئینہ دار
تحریر: جاوید عباس رضوی

آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل میدان کربلا میں حق و باطل کی ایک ایسی تاریخی جنگ وقوع پذیر ہوئی کہ جس میں حضرت سید الشہداء امام حسین (ع) نے ہزاروں رنج و مصیبتیں برداشت کر کے اپنی اور اپنے اعزاء و اقرباء کی مظلومانہ شہادت کے ذریعہ عالم بشریت اور خصوصاً امت مسلمہ کو ظلم و ستم اور غیر انسانی نظام کا مقابلہ کرنے اور اس پر غالب آنے کا ابدی درس دے دیا، 60 ہجری میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا یہ خونین قیام اگرچہ یزید بن معاویہ کی استبدادی حکومت کے خلاف قیام تھا لیکن اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو یہ قیام اور جہاد، زمین و زمانے کی قید سے بالاتر اور وسیع تر تھا، زمین کربلا پر اللہ تعالیٰ کے مخلص ترین بندوں کا بہایا گیا یہ خون، ہر زمانے اور ہر دور میں اپنا اثر دکھاتا رہا ہے اور ظالموں اور مجرموں کو کبھی بھی راحت کی سانس لینے نہیں دیتا، لہذا یہ قیام اور جہاد قیامت تک امت مسلمہ کے لئے بعنوان اسوہ اور مشعل راہ متعارف ہے، اسی کربلا کا اثر ہے کہ فلسطین میں آج غزہ کے لوگ بھوکے اور پیاسے، جنگی سلاح اور وسائل کے بغیر صرف کچھ کم رینج کے چھوٹے میزائلوں کے ذریعے دنیا کی ایک ایسی مضبوط اور سفاک فوج کے سامنے برابر کھڑے ہیں، اسرائیلی فوج اس قدر سفاک و طاقتور کہ جس نے آج سے قبل 47 سال تین عرب ممالک، مصر، اردن اور لبنان کی فوج کو شکست دیکر انہیں سرنڈر کرنے کے لئے مجبور کر دیا تھا، دراصل غزہ کی اس مقاومت اور جہاد کی بنیادی وجہ حماس کے رہبروں کا کربلا کی تعلیمات کو سمجھنا ہے، جہاں مومن اللہ تعالی پر بھروسہ کرکے دشمن کے مادی وسائل سے نہیں ڈرتا ہے، استاد سید جواد نقوی نے حماس کی استقامت اور پامردی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شیعہ بیدار ہو جائے اور کربلا کے انقلاب سے روشناس ہو جائے تو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جب کوئی سنی بیدار ہو جائے اور کربلا کی تحریک سے متحرک ہو جائے تو حماس بنتا ہے۔

آج کل اہل غزہ ان الہی و الہامی تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں ساری امت مسلمہ کے لئے صبر، ایثار، شہادت، شجاعت، غیرت اور استقامت میں نمونہ اور ماڈل بن چکے ہیں اور اگر آج امت مسلمہ کسی کو حافظان حرم اور خادمان حرم کا لقب دنیا چاہے تو یہ مقدس عنوانات صرف انہی جوانوں کا حق ہے جو اسلام اور مسلمین کی عزت و ناموس اور حرم بیت المقدس کا دفاع کر رہے ہیں چونکہ قرآن کریم نے بھی جب مومنوں کو اعزاز سے نوازا ہے تو وہاں پر بھی انکی کارکردگی اور قیام کو معیار قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو قیام اور جہاد نہ کرنے والوں پر فضیلت دی ہے، آج غزہ کے غیور جوان، مقبوضہ فلسطین کی راجدھانی اور اسکے دوسرے شہروں پر راکٹوں کی بارش برسا کر شدت پسند غاصب یہودیوں کی زندگی اور تجارت، بے آرام اور متزلزل کرکے ساری دنیا اور خصوصاً عرب غدار حکمرانوں سے اعلان کرتے ہیں کہ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی ممکن ہے۔

کاش عرب ممالک کی تیل سے حاصل شدہ عظیم ثروت اس وقت حماس کے ان جوانوں کی کام آتی اور بجائے اس کے یہ دولت، شیعہ و سنی، سلفی و غیر سلفی، عیاشی و عیش پرستی پر خرچ ہو، یہ دولت اس وقت اسلام کے کام آ کر مسجد اقصی کے غاصب کے تجاوز کو روکتی، کاش اس وقت حماس کے پاس جنگی طیارے اور بڑے میزائیل وغیرہ ہوتے تاکہ عربوں کو اسرائیل کے مقابلے میں سرنڈر کرنے کی ذلت سے ہمیشہ کے لئے نجات ملتی اور ایک نئے عادلانہ نظام کی بنیاد پڑتی، آج اسرائیل کی 65 سالہ تاریخ میں پہلی بار، اسرائیل اس قدر شدید خوف و دہشت میں مبتلا ہوگیا ہے کہ تقریباً 5 سے لیکر 7 ملین تک کی اسرائیلی آبادی گزشتہ کہیں ہفتوں سے زیر زمین تہہ خانوں میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہوگئی ہے اور حماس کے میزائیلوں سے مقبوضہ سرزمین میں اتنی ہلچل اور جنگی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ اسرائیلی حکومت کے تمام اہم دفاتر تعطیل ہوگئے ہیں اور نتین یاہو اپنے آفس میں کابینہ کی ایک بھی میٹنگ بلا نہیں سکے بلکہ ساری جنگی میٹنگیں کسی خفیہ مقام میں بلائی جارہی ہیں۔

اسرائیل کو میزائیل حملوں سے بچانے کے لئے امریکہ کے فراہم کردہ ’’گنبد آہنین‘‘ پر بھی بھروسہ نہیں رہا ہے کیونکہ انکا ’’اینٹی میزائیل سسٹم‘‘ خدائی غضب کے مقابلے میں صہیونیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اسی لئے امریکہ کو اس سسٹم کی مضبوطی کی فکر پڑگئی ہے اور اس مقصد کے لئے وہ اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو 544 ملین ڈالر کی جنگی امداد فراہم کر رہا ہے، حماس کی میزائیل کارروائی اسرائیل کے ان جنگی جرائم کے جواب میں جاری ہے جو اسرائیل گذشتہ ایک ماہ سے غزہ میں انجام دے رہا ہے اور خبروں کے مطابق اس وقت 35 ہزار کی تعداد میں اسرائیلی ہوائی، سمندری اور زمینی فوج غزہ کی جانی و مالی تباہی میں مشغول ہیں اور اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کی اس نسل کشی میں ابھی تک 2 ہزار افراد (کہ جن میں تقریباً نصف تعداد کمسن بچوں اور خواتین کی ہے) شہید ہوگئے اور ہزاروں کی تعداد میں بوڑھے، بچے اور خواتین زخمی ہیں اور کثیر تعداد میں لوگ بےگھر ہوئے ہیں۔

یہ قتل و غارت ایک طرف اور دوسری طرف پانی، غذا اور دوائیوں کی شدید قلت، 10 سال سے جاری طویل محاصرہ، ہسپتالوں اور امدادی مراکز پر حملے، دشمن کی طرف ممنوعہ جنگی ہتھیاروں کا استعمال اور عربوں کا حماس کو بدون قید و شرط جنگ بندی پر دباؤ ڈالنا، دراصل اہلیان غزہ نے ثابت کردیا کہ عرب ممالک میں تمام کے تمام غلام ہیں اور اگر کوئی آزاد، عزت دار، صاحب جرات اور خودمختار ہے تو صرف اہلیان غزہ، غزہ کے لوگ تمام کے تمام مصائب اکیلے برداشت کر رہے ہیں اور اس طرح سے صبر و استقامت کی ایک ایسی تاریخ رقم کر رہے ہیں کہ جو نہ صرف خود انکے لئے بلکہ سارے مسلمانوں کے لئے باعث عزت و سربلندی ہے اور اسرائیل اور اندرونی منافقوں کے لئے ایک ایسی ذلت اور رسوائی ہوگی کہ جس سے وہ کبھی بھی اپنے سے دور نہیں کرسکیں گے، البتہ غزہ کے لوگوں کی ایک انتخاب کردہ راہ سخت اور دشوار ہے اور اس میں اپنے لخت جگر اور پیاروں و عزیزوں کی جدائی، جان و مال کی تباہی، بھوک اور پیاس، خوف و دہشت، قید و اسارت وغیرہ مصیبتیں ہی مصیبتیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ امداد الہی ان کے شامل حال ہے اور آخر کار یہی لوگ کامیاب ہونگے، ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکہ الا تخافوا ولا تحزنوا۔۔۔(سورہ فصلت آیہ 30)
خبر کا کوڈ : 403155
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش