2
0
Sunday 29 Dec 2013 00:37

بنی نوع انسان کا مرثیہ

بنی نوع انسان کا مرثیہ

تحریر: شجاعت علی سروش

لَقَد کَرَمنَا بَنِی اٰدَمَ (القرآن)
ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔
لَقَد خَلَقنا الاِنسَانَ فِی اَحسنِ تَقوِیم (القرآن)
ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں خلق کیا۔

قرآن کریم میں بنی آدم کی بات کی گئی ہے۔ ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی، شیعہ اور سنی کی نہیں، کیونکہ پہلے انسان وجود میں آیا ہے۔ مذاہب، فرقے، زبانیں، نسلیں، قبیلے اور اقوام بعد میں۔ انسان سب پر مقدم ہے۔ یہ مذاہب، زبانیں اور قبیلے سب انسانوں کو آپس میں جوڑنے، باہم مربوط رکھنے اور انسانیت کے ارتقا میں ایک دوسرے سے تعاون کیلئے ہیں۔ نہ یہ کہ انکو بہانہ بناکر ظلم و ستم اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا جائے۔ "ہم نے تم کو اسلئے قبائل اور گروہوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تم پہچانے جاؤ۔" (القرآن) حدیث نبوی ہے، "مجھے 9 باتوں کا حکم دیا گیا ہے وہ یہ کہ "جو مجھ سے تعلق توڑنا چاہے، اس سے تعلق جوڑوں، جو مجھے محروم رکھنا چاہے، اسے عطا کروں اور جو مجھ پر زیادتی کرے، اسے معاف کروں۔۔۔۔۔" الی آخر۔

حضرت عیسی علیہ السلام  فرماتے ہیں۔ "اگر تم اپنی محبت رکھنے والوں سے ہی محبت رکھو، تو تمھارا احسان کیا ہے؟ کیونکہ گنہگار بھی اپنی محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔" انسان خواہ کسی بھی علاقے، رنگ، نسل، قبیلے، قوم، زبان، اور عقیدے سے تعلق رکھتا ہو، بحیثیت انسان وہ قابل احترام ہے۔ یہ ایک عظیم اور کریم مصور کے طرز قلم کا شاہکار ہے، کسی انسان کو حقارت کی نظروں سے دیکھنا اس عظیم مصور پر انگلی اٹھانے کے مترادف ہے۔ "جس نے عمداً کسی نفس کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا، اسکی سزا ابدی جہنم ہے۔" (القرآن) یہاں بھی کسی خاص عقیدے اور قبیلے سے تعلق رکھنے والے کی قتل سے منع نہیں کیا گیا ہے بلکہ بنی نوع انسان کی بات کی گئی ہے۔ تاریخ کو چھان ماریں، کہیں بھی یہ تذکرہ نہیں ملے گا کہ کسی بھی دور میں، کسی بھی نبیؑ نے، کسی امامؑ نے کبھی بھی، کسی بھی قوم یا قبیلے پر شبخون مارا ہو، یا کسی خاص عقیدے یا نظریے کو بنیاد بلکہ بہانہ بناکر کسی کو لوٹنے، گھر جلانے، قتل کرنے اور ملک بدر کرنے کے احکامات صادر کیے ہوں اور نہ کسی فرد کو اس جرم میں قابل گردن زنی قرار دیا ہے کہ وہ انکے خیالات و نظریات سے اتفاق کیوں نہیں کرتا؟ بلکہ یہ تو ہر دور میں ایک مخصوص بےہنر، جاہل اور متعصب گروہ نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مذہبی تعلیمات کو مسخ کرکے، انکی جگہ اپنے جاہلانہ افکار کو مذہب کا نام دیکر دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کی ہے، یوں ایک تاریخی مصیبت وجود میں آ گئی، دلوں میں محبتوں کے دیئے بجھا دیئے گئے اور نفرتوں کے الاؤ روشن کیے گئے، ہر طرف رقص موت کا بازار گرم ہوا۔ انسانیت کا جنازہ نکل گیا۔ پھر نہ مذہب رہا، نہ انسانی وقار، نہ آفاقی اقدار اور نہ تاریخی آثار، اس کشت و خون میں جو بقید حیات رہے، وہ بھی حیران و پریشان کہ کہاں جائیں اور کیا کریں؟
کیونکہ
جنگل میں سانپ تو شہر میں بستے ہیں آدمی
جنگل سے بھاگ آئیں تو ڈستے ہیں آدمی


یا بقول غنی خان
نن انسان شود انسان دَ ونیو تَگے 
نن مجنون شود جانان دَ وینو تگے
داسے ڑوند پہ سترگو پریواتو دَ تندے 
چی ترے پورتہ شو حیوان دَ وینو تگے

یعنی آج کل انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا ہے، گویا مجنون اپنے جاناں (معشوق) کا خون چوس رہا ہے۔
شدت تشنگی سے وہ اپنے بھائی کا خون یوں پینے لگا کہ پیاسا درندہ بھی شرمندہ ہوکر بھاگ پڑا۔
ان وحشی درندوں کو حیوان کہنا زیادتی ہو گی کیونکہ حیوان اتنا سفاک اور غیر مہذب نہیں ہوتا۔ ان درندوں کی بربریت دیکھ کر شیطان بھی چیخ اٹھا۔
کہ بقول اقبال
اے خداوند صواب و ناصواب 
من شدم از صحبت آدم خراب

زمانہ جاہلیت اور پسماندگی میں جب ایک قوم دوسری قوم کے خلاف نبرد آزما ہوتی، ایک ملک دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا، یا ایک عقیدے کے پیروکار دوسرے عقیدے کے پیروکاروں کے خلاف بہادری کے جوہر دکھاتے تو ان کا مقصد یہ ہوتا کہ بزعم خویش ان کو راہ راست پہ لائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔ لیکن اب جبکہ انسان پہلے سے زیادہ تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ، باشعور اور مہذب ہونے کا دعویدار ہے تو وہ دوسری قوموں اور ملکوں پر حملہ آور ہونے کیساتھ ساتھ آپس میں بھی لہو گرم رکھنے کیلئے ایک دوسرے پر جھپٹتے اور پلٹتے ہیں۔ خصوصاً مسلمانوں کا اس ہنر میں کوئی جواب ہی نہیں۔ اپنے کلمہ گو مسلمان بھائی کو رو بہ قبلہ لٹا کر اور باقاعدہ تکبیر پڑھ کر ذبح کیا جا رہا ہے۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں دھماکے کیے جا رہے ہیں، زندوں کی تو بات ہی کیا، اب تو ان مردوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے جن کی تعلیمات انکے فلسفہ جہاد سے میل نہیں کھاتیں اور کہیں پر یہ نام نہاد مسلمان اور اسلام کے خود ساختہ ٹھیکیدار خوبرو کنواری سکھ اور ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے زبردستی نکاح نامے پر دستخط کرا کے اور کنپٹی پر کلاشنکوف رکھ کر مسلمان ہونے پر مجبور کر رہے ہیں، حالانکہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ "لا اکراہ فی الدین۔" دین میں کوئی جبر و زبردستی نہیں۔ پھر تعجب کی بات یہ کہ، یہ سب کچھ خدا، اسلام اور قرآن و سنت کے نام پر ہو رہا ہے، اسلام کیساتھ یہ کتنا بدترین مذاق ہے۔ اسلام جو امن و آشتی کا دین ہے، جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو ایک ترقی یافتہ، پرامن اور خوشحال معاشرے کا ضامن ہے۔

بقول حمزہ بابا:
تہ دعویٰ د مذہب پریگدہ سڑی خورہ
ستا دعویٰ ھلہ صحیح دے چہ انسان شے

اے آدم خور! تم دین و مذہب کا دعوی چھوڑ دو۔ پہلے انسان بنو اور پھر مذھب کی بات کرو۔ اسکے جواب میں ہمسایہ ملک ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندو نہ ہونے کے ناقابل معافی جرم میں زندہ نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ وہ کرشنا کے اس فرمان کو بھول جاتے ہیں کہ "بحیثیت انسان اس دنیا میں ہماری زندگی کا مقصد اور احساس ذمہ داری اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم ایک سازش کو ترتیب دیں۔  کیسی سازش؟ ایک ایسی سازش جس میں خدا، انسان اور عشق ملکر ایک نئے انسان کی تخلیق کر سکیں۔ یہ مسئولیت انسان ہے۔ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو محسوس کرے۔" اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ "اپنے پڑوسی سے ایسے ہی پیار کرو، جیسے تم اپنے آپ سے کرتے ہو، یہ سمجھنا کہ تمہارا پڑوسی تمہارے علاوہ کوئی اور شخص ہے محض التباس ہے۔"

ایک دانشور نے کیا خوب فرمایا ہے کہ "انیسویں صدی کا مسئلہ یہ تھا کہ خدا مر گیا اکیسویں صدی کا مسئلہ یہ ہے کہ انسان مرگیا۔" کبھی جائیداد کو تھوڑی سی وسعت دینے کیلئے، کبھی لسانی خدمت کے نام پر اور کبھی علاقائی حقوق کا علم بلند کرکے شہروں اور بستیوں کو ویران اور قبرستانوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔ یہ ماڈرن انسان کتنا مہذب بن گیا ہے، اس کا جواب ایک مفکر یوں دیتا ہے۔ "ہم لوگ سمجھ رہے تھے کہ ہم جدید نسل اور آخرین ماڈل ہیں۔ ہمارا سب کچھ قدیم لوگوں سے مختلف ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سوچ درست نہیں تھی۔ ہم پتھر کے زمانے والے لوگوں سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں بلکہ ہم وہی ہیں۔ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں، بس ذرا کپڑوں اور بالوں کا سٹائل تبدیل ہو گیا ہے۔ اونچی اونچی عمارتیں اور چمکتی دمکتی سڑکیں بنائی گئی ہیں، اگر دنیا والے میری نظروں سے دیکھیں تو کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ جب انداز فکر نہیں بدلا تو بدلا کیا؟ اگر انسان کا وحشی پن اور شہوت پرستی ختم نہیں ہوئی تو کیا ختم ہوا؟ یقیناً کچھ بھی تو نہیں بدلا"۔ صرف طریقہ واردات ہی بدل گیا ہے۔ آج کا انسان پتھر کے زمانے والے انسان سے زیادہ وحشی بن چکا ہے۔ اب تو وہ خونخوار درندوں سے بھی بازی لے گیا ہے۔

پرانے زمانے میں دوست اور دشمن کی پہچان آسانی سے ہوتی تھی۔ جنگ و جدل کے بھی کچھ اصول ہوتے، مقررہ دنوں میں باقاعدہ طبل جنگ بجا کر لڑائی کا آغاز ہوتا۔ شبخون مارنے یا "حفظ ما تقدم" کیلئے پیشگی اور چوری چھپے حملہ کرنے کی نہ اجازت تھی نہ روایت۔ عورتیں اور بچے حکم "بِزن" (مارو) سے مستثنیٰ تھے۔ لیکن آج کے ماڈرن، مہذب، تعلیم یافتہ اور باشعور انسان کا طریقہ واردات ہی کچھ نرالا ہے۔ اب تو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سب کو رزق خاک بنانا ہے، شہروں اور بستیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنا ہے۔ حجر و شجر کی تمیز باقی نہیں رہی، سرسبز اور حسین وادیوں کو زہریلی گیس اور بموں کی خوراک بنانا ہے۔ جب انسان ہی نہ رہے تو کھیت کھلیان کس لئے؟ اب تو تیر و سنان اور خنجر و شمشیر کا زمانہ گزر گیا۔ انسان بہت ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہو گیا۔ اب تو فضاؤں سے لوہے کے پرندے نازل ہو کر، بٹن دبا کر پلک جھپکنے میں سب کچھ تہس نہس کر دیتا ہے کیونکہ انہیں جشن فتح بھی منانا ہے اور سینے پر اعزازات بھی سجانے ہیں۔

ستم بالائے ستم اور منافقت کی انتہا دیکھیں کہ یہ سب کچھ مساوات، آزادی، جمہوریت، عدل و انصاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ کتنا صاف گو اور عظیم تھا وہ پتھر اور جاہلیت کے زمانے کا انسان، جو کھل کر اپنے حریف سے کہتا کہ میں تمہاری سرزمین پر قبضہ کرنے اور تمھارے عوام کو اپنا اور اپنی قوم کا غلام بنانے کیلئے آیا ہوں۔ میرا چیتا، شیر اور بھیڑیا تینوں بھوکے پیاسے ہیں، مجھ سے انکی گرسنگی اور تشنگی دیکھی نہیں جاتی۔ شان دل اسی انسانی المیہ پر یوں نوحہ کناں ہوتے ہیں۔
"اب وہ خون اور خاک آلود پنجوں سے قبرستان سے لوٹ آئے ہیں، عشق، آزادی، مساوات، آگہی، صلح، عوام، خوبصورتی، خیر، حقیقت، کمال، ایمان اور قدر کے الفاظ سے ایک مرثیہ بناؤ، خدا کیلئے اور انسان کیلئے۔"

دوستو! ہم تاریخ کے بہت نازک اور حساس موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہم پہلے بھی بہت غلطیاں کرچکے ہیں اور تاریخ سے سبق لینے کی زحمت گوارا نہ کی۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے تاریخ خود انہیں سبق سکھاتی ہے۔ تاریخ طیش میں آ کر جغرافیہ بھی بدل دیتی ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ خدا نہ کرے، ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسلیں ہمیں عجائب گھروں میں ڈھونڈتی پھریں۔ استاد قیلوس فرماتے ہیں، "لاش کے بدلے لاش دینے کی سوچ درندگی کو پروان چڑھاتی ہے۔ ایک محفوظ انسانی سماج کی تعمیر بھیڑیا نہیں، محبت سے سرشار انسان ہی کرسکتا ہے۔"
آخر میں بدھا کا مرثیہ سنیے!
"میں زندگی کی طویل اور ٹیڑھے راستوں سے گزرا ہوں،
بار کربِ وجود لیکر
مجھے خبر ہے کہ آدمی زندگی میں شمشان کی کڑی دھوپ سہہ رہا ہے۔
میں کل بھی انہی راستوں سے گزرا تھا،
شکستہ کشکول ہاتھ میں لئے
شکستہ کشکول ریزہ ریزہ تھا رزق جس میں
یہ راستے جانے کب سے مکتی کے منتظر ہیں
یہ راستے جانے کتنی صدیوں سے انسان کے قدم کی آہٹ کے منتظر ہیں۔
"

خبر کا کوڈ : 333955
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سروش صاحب کی تحریر میں ایک ادبی میٹھاس ہوتی ہے۔ خدا توفیق دے انکو۔
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (القرآن)
ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں خلق کیا۔
"جس نے عمداً کسی نفس کو بغیر کسی وجہ کے قتل کیا، اسکی سزا ابدی جہنم ہے۔" (القرآن)
"لا اکراہ فی الدین۔"
"انیسویں صدی کا مسئلہ یہ تھا کہ خدا مر گیا، اکیسویں صدی کا مسئلہ یہ ہے کہ انسان مرگیا۔"
آج کا انسان پتھر کے زمانے والے انسان سے زیادہ وحشی بن چکا ہے۔ اب تو وہ خونخوار درندوں سے بھی بازی لے گیا ہے۔
تہ دعویٰ د مذہب پریگدہ سڑی خورہ
ستا دعویٰ ھلہ صحیح دے چہ انسان شے
Good and so nice article ...
Sharosh Bhai Allah pak apko Jaz-i-khair gey ..
Relealy Personally I appriciate it

Engr,Tasdeeq Hussain Toori
Imamia Colony Parachinar
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش