0
Sunday 6 Apr 2014 00:20

بھارتی پارلیمانی انتخابات نریندر مودی اور کشمیر

بھارتی پارلیمانی انتخابات نریندر مودی اور کشمیر
تحریر: جاوید عباس رضوی

آج سے کچھ دن بعد ہی نئی دہلی میں ایک نئی حکومت مسند اقتدار پر فائز ہوگی، چند روز قبل ہندوستان میں نہایت ہی سنسنی خیز اور رزمیہ انتخابی جنگ کا بگل بجایا گیا ہے، یہ انتخابات 9 مرحلوں میں کروائے جائیں جو 36 دنوں میں پھیلے ہوئے ہوں گے، یہ نئی دہلی کے پایہ تخت پر قبضہ کرنے کی ایک طویل ترین انتخابی جنگ ہوگی، اگرچہ یہ قدرے قبل از وقت ہے مگر ایک بہت بڑا سوال ہے کہ دہلی کے تخت پر کون قابض ہوگا، یہی وہ سوال ہے جو ہندوستانی عوام کے ذہن کا مرجع ہے، راہول گاندھی یا نریندر مودی یا اروند کیجروال یا کوئی اور۔؟ اگر ٹیلی ویژن پروگراموں کے اُس وقت کو ملحوظ نظر رکھا جائے جب انہیں زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھتے ہیں تو کارپوریٹ میڈیا پر مباحثوں جائزوں اور فیصلوں سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ہندوستانی عوام نے پہلے ہی بی جے پی کے نامزد اُمیدوار نریندر مودی کو اگلے وزیراعظم کا اعلان کیا ہے اور نریندر مودی بھی کرسی کی ہوس میں آج کل بہت کچھ بولتے ہیں، کبھی ان کا نشانہ اپنی ہی پارٹی کے سینئر لیڈر، تو کبھی کانگریس، کبھی کیجروال، تو کبھی کشمیری قیادت تو کبھی پاکستان۔ نریندر مودی کہ جو 2002ء کے گجرات فسادات میں بنفس نفیس موجود تھے انہیں کبھی اپنی غلطی کا احساس نہ ہوا اور نہ گجرات کے مسلمانوں سے معافی کی حاجت، اگرچہ انہیں بقول انکے کتے کی موت سے تکلیف ہوتی ہے لیکن۔۔۔ نریندر مودی بھارت کے تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ گجرات کے مسلمانوں کے وزیراعظم بننے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔

عام انتخابات کے موقع پر عمومی طور رائے دہندگان میں گویا ایک بجلی سی دوڑ جاتی ہے، کچھ لوگ تو ان سے بہتری کی توقع رکھتے ہیں اورکچھ کی خواہ مخواہ اُمیدیں بندھ جاتی ہیں جو بدقسمتی سے بعد ازاں پوری نہ ہونے کی صورت میں وہ دوبارہ یہی اُمیدیں دوسرے عام انتخابات سے وابستہ کرتے ہیں اور یہ چکر مسلسل اسی طرح چلتا رہتا ہے، اس سارے عمل کا پُرلطف پہلو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں منظم طریقے پر ایک دوسرے کو ننگا کرتی ہیں (اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ اپنے آپ ننگا ہوتی ہیں) جس سے ایک عام آدمی کو کچھ وقت کیلئے ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے، اس سلسلے میں کسی بھی جماعت کی کوئی تخصیص نہیں، انتخابات کا دور ایک سیاسی ڈرامے سے کچھ کم نہیں ہوتا جس کا اہتمام وہ تمام جماعتیں کرتی ہیں جنہیں سیاسی شعبدہ بازی اور دھوکہ دہی میں مہارت حاصل ہوتی ہے، اس طرح وہ ایک طرف اپنی بداعمالیوں، فراڈ، کرپشن، ہیرا پھیریوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور دوسری طرف سادہ لوح عوام کے درمیان سنہرے خواب بیچتے ہیں۔ تمام لیڈر اور کارکن کچھ اس طرح کا ڈرامائی انداز اختیار کرتے ہیں کہ ظاہر بین نظروں کو دِکھتا ہے کہ وہ انتخابی میدان میں صرف عوام کی خدمت کے لئے کودے ہیں مگر حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے، ان لوگوں میں سے ہر ایک کا مطمع نظر صرف عوام کو دھوکہ دینا، اختیارات کا ناجائز استعمال اور خزانہ عامرہ کو لوٹنا ہوتا ہے اور اس رسوا کن سودا بازی کے باوجود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ریاستی عوام کے بہی خواہ ہیں، اس قصے کا بدذائقہ حصہ یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کو گمراہ کیا جاتا ہے اور وہ بھی پے درپے اور مسلسل۔

بھارت بھر میں جس لیڈر کا آج کل سب سے زیادہ چرچا ہوتا ہے وہ نریندر مودی ہے، لیکن مودی کو اگر باہر سے نہیں تو خود اپنی پارٹی کے اندر اختلاف کا سامنا ہے، اختلاف کے باعث ہی پارٹی کے سینئر لیڈر جسونت سنگھ کو پارٹی سے باہر نکال دیا ہے، سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی مودی کے لیے بنارس کی سیٹ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے، لکھنؤ سے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ان کے معتمد راج ناتھ سنگھ کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کی رہنما سشما سوراج اپنے ترکش سے تیر چلاتی ہی رہتی ہیں، وہ خود وزیراعظم بننا چاہتی تھیں لہٰذا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نشانے پر کون ہے، اب اخباروں کی مانیں تو بی جے پی کی ناراض قیادت اس انتظار میں ہےکہ پارٹی کو 160 سے زیادہ سیٹیں نہ ملیں ورنہ نریندر مودی کو وزیراعظم کی کرسی سے دور رکھنا ممکن نہیں ہوگا! اگر پارٹی کی سیٹیں 160 کے آس پاس رہ جاتی ہیں تو اسے حکومت بنانے کے لیے اتحادیوں کی ضرورت ہوگی اور ایسے میں سشما سوراج اور ایل کے اڈوانی پھر پی ایم کی دوڑ میں واپس آ سکتے ہیں کیونکہ بہت سی علاقائی جماعتیں کسی قیمت پر نریندر مودی کی حمایت نہیں کریں گی۔ نریندر مودی وزیراعظم بنیں گے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن حکومت، فوج، پولیس اور انٹلیجنس ایجنسیوں سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے بہت سے افسران کو شاید یقین ہے کہ پی ایم بننے کے لیے مودی کو بس اب صرف حلف لینا باقی ہے، فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں، ادھر انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ سنجیو ترپاٹھی بھی اب کروٹ بدلتے اور بی جے پی کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں۔

اب دوسرا پہلو دیکھتے ہیں تاریخی طور پر دیکھا جائے تو کشمیر مسئلہ کا حل کبھی بھی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا حصہ نہیں رہا ہے جیسے کہ یہ پاکستان میں رہا ہے جہاں تنازعہ کشمیر کے حل کو بڑے شدومد سے انتخابی منشور میں نمایاں طور پیش کیا جاتا ہے، یہ 2014ء میں بھی ایسا ہوا، تاہم ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے جیسے نعرے ہندو قوم پرست جماعتوں کی انتخابی مہموں کا حصہ رہی ہے، یہ درست ہے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد پندرھویں لوک سبھا کے انتخابات کے دوران کشمیر کسی بھی سیاسی جماعت کا موضوع نہیں رہا ہے، تاہم یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ تنازعہ کشمیر نہ صرف اسلام آباد بلکہ بین الاقوامی سطح پر نئی دہلی کی سب سے بڑی سفارتی مصروفیت رہی ہے، 1962ء سے نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان تعلقات میں تلخی چلی آ رہی ہے، اس امر کے باوجود کہ بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ پوری اروناچل ریاست کا علاقہ چین کا حصہ ہے اور یہ مسئلہ ایک سرحدی تنازعہ ہے اس لئے یہ بین الاقوامی تنازعہ نہیں بن سکا، چونکہ اس میں لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے، اسی لئے یہ دونوں ملکوں کے درمیان زبردست مخاصمت کی کوئی وجہ نہیں بن سکا،  لیکن مسئلہ کشمیر ہمیشہ دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی مسئلہ رہا ہے، اب اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں 8 لاکھ قابض فوجیوں کی موجودگی میں الیکشن کا اہتمام کرے اور آزادی پسند لیڈران کو خانہ، نظربند یا جیل بھیج دے اور نوجوانوں کو ٹارچر سنٹرز روانہ کرے تو بظاہر الیکشن کا ملا جلا اثر رونما تو ہو سکتا ہے لیکن یہ زور و زبردستی اور دھوکہ دہی کشمیریوں کے درد کا مستقل راہ حل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ آزادی پسند لیڈر یاسین ملک نے حال میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر ہمیں الیکشن مخالف مہم چلانے دی جائے تو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے کرائے جانے والے الیکشن کا مکمل اور سو فیصد بائیکاٹ ہوگا، بقول انکے ہمیں کسی زمانے میں ایسا کرنے کا موقع دیا گیا تھا تو اس سال صرف 2 فیصد ووٹ پڑے، ہمیں عوام سے دور رکھا جاتا ہے اور بھارت نواز سیاسی جماعتوں کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے وہ لوگوں کے درمیان جاتے ہیں اور انہیں ترقی کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی جموں و کشمیر کا ایک اہم اور بڑا طبقہ بھارتی سیاست اور بھارتی انتخابات سے دور اور بہت دور رہنا پسند کرتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ ریاست میں آنے والے عام انتخابات سے کوئی جوش و خروش پیدا نہیں ہوا ہے؟ ماسوائے ان افراد کے جو کسی بھی طرح برسراقتدار آنا چاہتے ہیں، اگر چہ نیم دلانہ طریقے پر ہی سہی مگر پھر بھی یہ اعتراف ہندوستان کے ایک اعلٰی سیاستدان نے کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں کبھی بھی انتخابات منصفانہ طریقے پر نہیں کئے گئے جیسے کہ وہ لوگ دھنڈورا پیٹتے ہیں جو اس ساری صورتحال کے ذمہ دار ہیں، ہمارا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ ہم نے کرم فرماؤں اور بہی خواہوں کی بجائے دلالوں کی ایک بڑی فوج تیار کی ہے، اس لئے اس کے نتائجِ بد ہمارے سامنے آتے ہیں، بہرصورت ایک عام آدمی عام انتخابات کو یہاں سیاسی وابستگیوں کے زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے اور ایک دوسرے کی ذاتی کمزرویوں کا سر عام ذکر کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں، عام انسان کو اس یاوہ گوئی سے کسی مثبت تبدیلی کی کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے، ہر سیاسی کارکن گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنے حریف کو ہرا کر ہی دم لے گا، بایں ہمہ عوام کو اب بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ہے مگر یہ شعبدہ باز سیاسی گرگٹ دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ ہم عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے جیسے کہ ہم ماضی سے کرتے آئے ہیں، حق تو یہ ہے کہ عوام بھی حماقتوں کے شکار بنتے جا رہے ہیں وہ بھی پے درپے اور مسلسل۔
خبر کا کوڈ : 368975
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش