0
Wednesday 23 Jul 2014 03:33

جمعۃ الوداع، آزادی بیت المقدس کا عالمی دن

جمعۃ الوداع، آزادی بیت المقدس کا عالمی دن
تحریر: گل زہرا
 
رمضان المبارک کا آخری عشرہ اپنی مبارک ساعتوں، رحمتوں اور برکات کے ساتھ بس رخصت ہوا چاہتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے ماہ مقدس کے لمحے لمحے میں پنہاں خزینوں کو سمیٹنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ خالی پیٹ، خشک لبوں کے ساتھ خشوع و خضوع اور گریہ و عاجزی میں معطر عبادات کے ذریعے رضائے الٰہی کے حصول میں کوشاں رہے۔ مسلمانوں کو ماہ مقدس میں عبادات و مناجات کا یہ اہتمام زیب بھی دیتا ہے، کیونکہ اللہ رب العزت نے اس ماہ کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ جہاں پوری دنیا کے مسلمان باجماعت نماز پنجگانہ میں مصروف رہے، وہاں کرہ ارض کی واحد ناجائز اور غاصب ریاست اسرائیل نے غزہ کے مظلومین کو چھ نمازیں پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ ماہ رمضان المبارک میں غزہ کے روزہ داروں کے لیے شائد ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو، جس میں انہوں نے کسی معصوم، بے گناہ فلسطینی بچے، مستور، جوان یا بزرگ کی نماز جنازہ ادا نہ کی ہو۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جنہوں نے ماہ مقدس میں مسجد نبوی، حرم کعبہ میں سحر و افطار کی سعادتیں حاصل کیں، کاش کہ آزاد فلسطین کے مسلمان بھی قبلہ اول کے صحن میں افطار و سحر کا اہتمام کرسکتے۔

ایک تنگ اور مختصر سی غزہ کی پٹی، جس کو صہیونی ریاست اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کے لیے ایک پنجرہ بنا دیا ہے۔ ایک جانب پانی ہے، جہاں اسرائیلی نیوی کے جنگی بحری جہاز اور کشتیاں اپنی عسکری طاقت کے زعم میں آبی راستے پر دیوار قائم کئے ہوئے ہیں، خشکی کے راستے پر اسرائیلی ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور چالیس ہزار ریزرو بری فوج راستوں کو بند کئے ہوئے ہے، جبکہ صہیونی جنگی طیارے تادم تحریر غزہ کی اس مختصر سی پٹی پر ایک ہزار سے زائد حملے کرچکے ہیں، جن میں چھ سو کے قریب شہادتیں ہوچکی ہیں۔
کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ شہید ہونے والوں میں 100 سے زائد بچے ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے کہ صہیونیوں کا گولہ بارود ان بچوں پر بے دریغ برس رہا ہے، جن کو شائد یہ بھی معلوم نہیں کہ جبری تسلط، غلامی، کیا ہوتی ہے، آزادی کیا ہوتی ہے، دنیا کیا ہے، یہاں تک انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ ان کا قصور کیا ہے، اور امریکی صدر مسلمان ملکوں کے سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہے اسرائیل دفاع کا حق رکھتا ہے۔ کیا وائٹ ہاؤس کے کھانوں کے نمک میں حلالی اتنی زیادہ تھی کہ کوئی سفیر مسٹر اوبامہ کو ٹوک نہ سکا۔ یہ پوچھ نہ سکا کہ عالمی امن کے ٹھیکیدار 100 سے زائد بچوں اور اتنی ہی خواتین نے اسرائیل کے دفاع کو کونسا نقصان پہنچایا تھا، جو ان کی کٹی پٹی لاشوں پر تم اسرائیل کا دفاع کر رہے ہو۔

عین اس وقت جب برازیل میں جرمنی اور ارجنٹینا کے درمیان فٹبال ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا جارہا تھا، اسرائیلی فوجوں کے زمینی دستے غزہ کی جانب پیشقدمی کر رہے تھے۔ اس تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے کہ ہر قسم کے خوفناک اور خطرناک اسلحہ سے لیس ظالم فوج نے ایک انسانی آبادی کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے، اور بیدردی سے اس پر گولہ بارود برسا رہی ہے۔ ان حملوں میں بے گناہ، معصوم، پرامن شہری بلاتفریق نشانہ بن رہے ہیں، معصوم بچے شہید اور زخمی ہو رہے ہیں، ورثا زخمی بچوں کے کٹے ہوئے اعضاء اٹھا کے رحم اور مدد کی فریادیں کر رہے ہیں، مگر عالمی انسانی حقوق کے ادارے خاموش ہیں، شائد کہ مرنے اور زخمی ہونیوالے مسلمان ہیں اس لیے۔

یو این او، سلامتی کونسل پر موت کا سکوت جاری ہے، دنیا میں قیام امن کی دعویدار یو این اور نیٹو فورسز جو امریکہ کے ذیلی اداروں کا کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں یہ ظلم و بربریت اس قابل محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اسکے خلاف کوئی ایکشن لیں۔ عالمی میڈیا غزہ پر اسرائیلی حملوں کا موازنہ حماس کے ان راکٹ حملوں سے کر رہا ہے جن میں صرف ایک اسرائیلی ہلاک ہوا۔ بین الاقوامی اداروں کے اس دوغلے کردار کی اکلوتی وجہ فقط اتنی ہے کہ اسرائیلی فوج کے گولہ بارود کا نشانہ بننے والے وہ فلسطینی ہیں، جو اپنی ہی سرزمین پر آزادی سے رہنے کا حق مانگ رہے ہیں، چونکہ فلسطینیوں کا یہ مطالبہ طاغوت کے دجالی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہے، اس لیے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔

مغربی میڈیا اسرائیلی جارحیت کو جنگ ظاہر کرنے کی کریہہ کوشش کر رہا ہے، حالانکہ یہ جنگ نہیں فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔ مجھے گلہ اسرائیل سے نہیں کہ وہ غزہ کے مسلمانوں پر فضا سے موت برسا رہا ہے، مجھے گلہ امریکہ یا برطانیہ سے بھی نہیں کہ وہ ان صہیونی جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ میں نے اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، سلامتی کونسل سے کوئی امیدیں وابستہ نہیں کی ہوئیں کہ وہ اپنی قرادادوں کی روشنی میں آزاد فلسطین کا قیام عمل لائیں گے یا اسرائیل کے جنگی جرائم پر اس کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھائیں گے۔ میرا سوال تو امت مسلمہ کے سجدہ ریز سروں سے ہے، جو عبادات میں اتنے مگن ہیں کہ غزہ کے بچوں کی دلخراش چیخیں بھی ان پر اثرانداز نہیں ہو رہی۔

ملت اسلامیہ کی ان آنکھوں سے ہے، جو ابھی تک سپورٹس چینلز پر فٹبال کی جھلکیوں سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ اگر ایمان کے تینوں درجات کا تعلق ظلم کے خلاف قیام سے ہے تو پھر اس ظلم پر خاموش رہ کے سجدے کرنے والوں کی نمازیں باطل ہیں۔ غزہ کی سرحد صرف ایک اسلامی ملک مصر سے ملتی ہے، مگر اس واحد اسلامی ملک سے بھی غزہ کے لوگوں کو کوئی امداد میسر نہیں، کیونکہ عرب حکمرانوں کی طرح جنرل سیسی بھی اسرائیلی مفادات کا نگران سمجھا جاتا ہے۔ ماہ رمضان کے مبارک مہینے میں اسرائیل کو اتنی جرات اور حوصلہ کیونکر ہوا کہ اس نے غزہ پر اعلانیہ سینکڑوں فضائی حملے کر دیئے، زمینی فوج نے بھی پیش قدمی کرلی۔

آج اسرائیل کو حزب اللہ، شام، ایران اور حماس کا خوف کیوں نہیں ہے۔؟ مشرق وسطٰی کے حالات پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل نے پہلے دہشت گردی کے ذریعے شام کو کمزور کیا، پھر اپنی نام نہاد جہادی تنظیموں جیسے داعش، النصرہ، فری سیرین آرمی کے ذریعے حزب اللہ کو جنگ میں مصروف کیا۔ اس کے بعد حماس کو غزہ میں سے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے لشکر کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ شام میں بیرونی دہشت گردوں نے بشار الاسد حکومت کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں، انہی کارروائیوں کو جہاد کا نام دیا گیا، یہاں تک کہ ایک عرب مفتی نے یہاں تک فتویٰ دیدیا کہ اسرائیل کے خلاف جہاد واجب نہیں، مگر بشار الاسد کے خلاف واجب ہے۔

اسرائیلی فوجی جیپوں میں سوار ان دہشت گردوں کو عربوں اور امریکہ کی مشترکہ حمایت و مدد حاصل تھی۔ واضح رہے کہ خطے میں واحد بشار الاسد حکومت ہی تھی جو اسرائیل کے خلاف تمام فلسطینی جہادی تنظیموں کی مددگار تھی۔ اسرائیل نے بشار حکومت کو دہشت گردی اور فرقہ واریت کے فتنے کے ذریعے کمزور کیا۔ یہی فتنہ عراق میں داخل ہوکر عراق کو تقسیم کرنے جا رہا ہے۔ انتہائی حیرت انگیز امر ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں اسرائیل نے فرقہ واریت یعنی شیعہ سنی کا بیج بو کر اسے پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ شام کی دہشت گردی کو دجالی میڈیا نے فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی، عراق میں داعش نامی تنظیم نے بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر کارروائیاں کیں۔ دونوں ملکوں میں جہاد کا نام لیکر مسلمانوں کو ذبح کرنے والے اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کرتے، بلکہ ان تمام حکومتوں اور تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جو اسرائیل کے خلاف طویل عرصہ سے اپنے وسائل کی حد تک عملی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔

انتہائی حیرت انگیز امر ہے کہ فرقہ واریت کے جس ہتھیار سے اسرائیل نے امت مسلمہ کے وجود کو کاٹنے کی کوشش کی۔ اتحاد بین المسلمین کی صورت میں وہی اسرائیل کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی وجہ حماس کا خاتمہ بتائی ہے۔ حماس ایک سنی تنظیم ہے، مگر حیرت ہے اسرائیل کے خلاف جہاد کرنیوالی یہ تنظیم عربوں سے دور اور ایران و بشار حکومت کے نزدیک ہے۔ حزب اللہ ایک شیعہ تنظیم جو لبنان میں اسرائیل کو شکست، شام اور عراق میں داعش، فری سیرین آرمی سے مصروف جنگ ہے مگر حماس کی مددگار ہے۔ اس صورت حال پر دو عظیم شخصیات کے دو قول پوری طرح صادق آتے ہیں۔

اول: جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتا ہے، وہ استعمار کی خدمت کرتا ہے۔ اس قول کی رو سے اسلامی دنیا میں مسالک کو بنیاد پر جو نام نہاد جہاد، فساد یا ظلم جاری ہے وہ طاغوتی، دجالی ایجنڈے سے پیوستہ اور درآمد شدہ ہے۔
دوئم: اگر حق کی پہچان مشکل ہوجائے تو باطل کے تیروں پر نگاہ رکھو، جہاں باطل کے تیر گر رہے ہوں وہی حق ہوگا۔ اگر امت مسلمہ کو یقین ہے کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست آزاد فلسطینیوں کی آزاد سرزمین کو غصب کرکے وجود میں لائی گئی ہے، اگر یہ سمجھتی ہے کہ عالم اسلام کے خلاف اسرائیل روز اول سے ہی سرگرم ہے۔ اگر امہ کو یقین ہے کرہ ارض کا ناسور اسرائیل باطل ہے تو پھر ملت اسلامیہ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ غزہ کے باسی حق پر ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کا جو بھی ساتھ دیگا وہ حق کا ہی ساتھ دے گا اور باطل کے خلاف اپنے وجود کا احساس دلائے گا۔ مجھے حماس کے قائد اسماعیل ہانیہ کا وہ ٹوئٹر پیغام کبھی نہیں بھول سکتا کہ جس میں انہوں نے کہا
مسلمانو، تمہیں بتانا تھا کہ ہم پر بمباری ہو رہی ہے، تمہارے آرام میں مخل ہونے پر معذرت۔

ان چند لفظوں میں حماس کے قائد نے عالم اسلام سمیت پوری دنیا کو بتا دیا کہ غزہ کے باسی ان سے کیا چاہتے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ جسے جمعۃ الوداع کہا گیا ہے، بیت المقدس کی آزادی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہی وہ دن ہے جسے یوم آزادی فلسطین قرار دیا گیا ہے۔ نماز جمعہ کے بعد دنیا بھر کے مسلمان بیت المقدس، فلسطین کی آزادی کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں، اسرائیل کے وجود کی مذمت کرتے ہوئے ریلیاں نکالتے ہیں۔ اسرائیل کے جنگی جرائم، امریکی پشت پناہی، سلامتی کونسل کے دوہرے معیار، عالمی امن فوج کے کردار کے دوغلے رویوں کی مذمت کرتے ہیں اور غزہ کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔

بیت المقدس، مسجد اقصٰی کی آزادی، فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی مظالم سے آزادی، کسی فرقے، مسلک، قوم، تنظیم، یا ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ بلا تفریق پورے عالم اسلام کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ لہذا پورے عالم اسلام کو غزہ کے باسیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے، فلسطین، بیت المقدس، مسجد اقصٰی کی آزادی کے لیے ان مظاہروں، ریلیوں، محافل اور سیمینارز میں شریک ہوکر حق کا ساتھ دینا چاہیے اور باطل کے خلاف، ظلم کے خلاف زیادہ نہیں تو اپنے وجود کا احساس ہی دلانا چاہیے، کیونکہ ایمان کے درجات میں سے یہ بھی ایک درجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 400978
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش