0
Monday 17 Nov 2014 19:17

داعش کا وجود ہے، داعش کا وجود نہیں

داعش کا وجود ہے، داعش کا وجود نہیں

تحریر: طاہر یاسین طاہر

 لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

غالب نے پتہ نہیں کون سی حکایتِ خونچکاں لکھی کہ اس کے ہاتھ قلم ہوتے رہے، لہو لہان۔ اس سارے قضیے کو دیکھنے کے لئے غالب کے عہد کے معاشرتی و معاشی اور بالخصوص مذہبی رحجانات کو دیکھنا پڑے گا۔ ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ غالب کے عہد کی حکایات بھی میرے عہد کی ظلم گری سے کم نہ ہوئی ہوں گی، اگرچہ غالب کو کسی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، اہلسنت ولجماعت (اصلی والے نہیں) کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان، ملا فضل اللہ، مولوی فقیر محمد، منگل باغ، احسان اللہ احسان، شاہد اللہ شاہد، انصار الاحرار، مولوی نذیر گروپ، حقانی گروپ، لشکرِ طیبہ، پنجابی طالبان، القاعدہ برصغیر، خالد خراسانی گروپ، ملا عمر، اسامہ بن لادن، بوکو حرام اور داعش جیسی تنظیموں سے بالواسطہ کوئی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ پھر بھی غالب کے عہد میں کوئی نہ کوئی ایسی گڑ بڑ ضرور تھی، جس کی ’’شعر بندی‘‘ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ لہو لہو ہوتے رہے۔
 
اسلام کے یہ علمبردار ابھی کل کی پیداوار ہیں۔ اگر روس افغانستان پر چڑھائی نہ کرتا اور امریکہ اس چڑھائی کے خلاف ایک ’’مجاہدانہ اتحاد‘‘ تشکیل نہ دیتا؟ اور پاکستان اس اتحاد کا فرنٹ لائن اتحادی نہ ہوتا تو کیا آج اس خطے کی سماجی حالت ایسی ہی ہوتی؟ کیا یہ خطہ جنون خیز ہے؟ برصغیر میں خون ریزی کا بیج بویا کس نے؟ تاریخ کی اتنی عرق ریزی کا عکس کسی چھوٹے سے کالم کا متحمل نہیں۔ بات سیدھی اور کھری ہی زیبا ہے۔ 28 اکتوبر کو بلوچستان حکومت نے ایک مراسلہ وفاقی حکومت کو لکھا کہ داعش نے لشکرِ جھنگوی اور اہلسنت والجماعت (ASWJ) کو پیشکش کی ہے کہ وہ پاکستان میں داعش کو جوائن کرے۔ نومبر کے ابتدائی عشرے میں یہ خبریں ٹی وی چینلز پہ آنے لگیں کہ لاہور میں جوہر ٹاؤن، ملتان روڈ، ٹاؤن شپ سمیت دیگر علاقوں میں داعش کے ارکان موجود ہیں۔ 15 نومبر 2014ء کو دنیا ٹی وی پہ خبر چلی کہ سکیورٹی اداروں نے 6 سے زائد افراد کو داعش کے لئے سرگرمیاں کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور جنوبی پنجاب، لاہور میں داعش سے تعلق رکھنے والوں کے کوائف جمع کئے جا رہے ہیں۔ 

اسی روز یہ خبر بھی چلی کہ داعش کے خلاف پنجاب میں گرینڈ آپریشن کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اور حساس ادارے اور پولیس مل کر داعش سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف متحرک ہوگئے ہیں۔ 14 نومبر کوARY ٹی وی پہ خبر چلی کہ کراچی میں داعش کے بعد کراچی میں ’’القاعدہ برصغیر‘‘ کی بھی وال چاکنگ کی گئی، ان میں جن علاقوں کی نشاندہی کی گئی، ان میں اقبال اور عزیز آباد کا ذکر تھا۔ 17 نومبر 2014ء کے ایکسپریس ٹریبؤن میں خبر چھپی کہ داعش کے حق میں گلگت اور بلتستان میں بھی وال چاکنگ ہوئی ہے۔ تاریخ یاد نہیں پڑ رہی۔ مگر پندہ بیس دن ادھر کی بات ہے، حساس اداروں نے واہ کینٹ میں عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے حق میں لگے گئے بینرز قبضے میں لے کر کی گئی وال چاکنگ مٹائی۔ ٹیکسلا میں جی ٹی روڈ پر داعش کے حق میں لگے بینرز قبضے میں لے کر کی گئی وال چاکنگ مٹائی گئی۔ 

کیا پولیس اور حساس اداروں نے یہ کارروائی نہیں کی؟ اگر نہیں کی تو پھر اخبارات کو یہ ’’خبریں‘‘ کیوں دی گئیں؟ کنفیوژن پھیلانے کے لئے؟ بالکل نہیں۔ پاک فوج اس وقت دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑ رہی ہے۔ بے شک داعش کے حق میں وال چاکنگ ہوئی ہے۔ وزیراعظم صاحب اور وفاقی وزیر داخلہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں، جبکہ پنجاب کے وزیراعلٰی لاہور اور جنوبی پنجاب میں داعش کے حق میں ہونے والی وال چاکنگ کے حوالے سے آئی جی سے رپورٹ بھی مانگ چکے ہیں اور پنجاب کے صوبائی وزر داخلہ اس حوالے سے اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ پنجاب میں داعش کے حق میں وال چاکنگ ہوئی۔ سوال مگر اہم ہے کہ کس نے کی؟ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ داعش کے حق میں جو وال چاکنگ ہوئی، اس حوالے سے گھبرانے والی بات نہیں، بس یہ چند مقامی تنظیموں کا کام ہے۔ کیا یہ کام البغدادی کا نائب یہاں آکر کرے گا؟ کیا البغدادی خود کسی فرد کو پاکستان میں حکم جاری گا کہ وال چاکنگ شروع کریں۔؟
 
آج کے اخبار میں پھر ویسی خبر۔’’خفیہ اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں، چند شرپسندوں نے داعش کے حق میں وال چاکنگ کی، دورانِ تفتیش کسی کا داعش سے تعلق ثابت نہیں ہوا۔ حکومت کو یہ بھی بتایا گیا کہ دو کالعدم تنظیمیں خود کو داعش ظاہر کرکے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتی ہیں‘‘ رپورٹ آگئی اور اللہ اللہ، خیر صلا۔
یا للعجب وہ دو تنظیمیں ہیں کون سی؟ ان چند شرپسندوں کو سزا کیا دی گئی، جنھوں نے معاشرے میں دہشت پھیلائی؟ اور تعلق ثابت کیسے ہوتا؟ کیا ان کے پاس البغدادی کی تصویر والا پاسپورٹ برآمد ہوتا؟ کیا داعش، طالبان وغیرہ صرف کسی ایک تنظیم کا ہی نام ہے؟ کیا عابد کہوٹ نامی کسی شہری کی تلاش ختم ہوگئی ہے، جس نے کراچی میں ازبک شہری ولید الامہ سے ملاقات کی تھی؟ ہر خبر اپنا مآخذ رکھتی ہے۔ اخبارات میں چھپنے والی خبریں ساری کی ساری جھوٹی نہیں ہوتیں۔ مبالغے کا امکان البتہ موجود رہتا ہے مگر حقائق سے نظریں پھیر کر بھی تو نہیں جیا جاسکتا نا!۔

داعش کا بحثیت تنظیم پاکستان میں وجود نہیں بھی تو داعش کے حق میں وال چاکنگ کرنے والے ’’شر پسند‘‘ اور وہ ’’دو تنظیمیں‘‘ جو اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاتی ہیں، دراصل یہی تو داعش ہیں، داعش ایک ذہنیت کا بھی تو نام ہے نا! تکفیریت کی انتہا کو اگر داعش نہ کہا جائے تو اور کیا کہیں گے؟ بربریت، ذہنی آوارگی اور خلافت کا خود ساختہ نظریہ۔ بلاد اسلامیہ کا ارتقا ہو نہ ہو، وحشتوں کے نئے باب ضرور کھل چکے ہیں۔ اہم سوال یہ نہیں کہ داعش کی رکنیت پاکستان میں ہو رہی ہے یا نہیں۔ رکنیت فارم دستیاب ہیں یا نہیں۔ کس ضلع کا کون کون سا امیر بنایا جا رہا ہے اور کون کون، تحصیل اور صوبے کی سطح کا عہدیدار ہے؟ اصل مسئلہ اس مائنڈ سیٹ کا ہے جو داعش جیسی تنظیموں کی پیداوار اور پھر اس کے بعد سماج میں وحشتوں اور بربریت کا باعث ہے۔ ہمیں اس طرف بھی اپنی توجہ مبذول کرنا ہوگی۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو اگلے دن، انہی خفیہ اداروں نے رپورٹ دینی ہے کہ داعش کی رکنیت سازی تیزی سے جاری ہے۔ خطرے کا ہر زاویے سے اگر جائزہ لیا جائے تو ممکن ہے ہماری آنے والی نسلیں طالبان کی تباہ کن شکل داعش کی وحشتوں سے بچ سکیں۔

خبر کا کوڈ : 420002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش