2
0
Friday 14 Nov 2014 11:35

آج وہی قوم کامیاب ہے جسکے درمیان ولایت، تقلید اور عزاداری کے اہداف اور مقاصد زندہ ہیں، مولانا علی جان

آج وہی قوم کامیاب ہے جسکے درمیان ولایت، تقلید اور عزاداری کے اہداف اور مقاصد زندہ ہیں، مولانا علی جان
مولانا علی جان کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام سے ہے، ابتدایی تعلیم آبائی گاؤں خندہ میں حاصل کی، تقریباً 3 سال جامعہ اھل بیت (ع) میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایران چلے گئے، جہاں پر 18 سال تک دینی تعلیم حاصل کرتے رہے اور اب ایران میں درس خارج سے فیضیاب ہو رہے تھے، کسب فیض استاد محترم حضرت آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور حضرت آیت اللہ جعفر سبحانی سے کرتے رہے، آج کل اپنے آبائی گاؤں میں اہم تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں اور روزانہ دینی مسائل، احادیث اور تعلیم قرآن سے اہل تشیع کو مستفید کرتے ہیں، علماء کشمیر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے سلسلے میں آپ کا رول کلیدی رہا ہے، خواہران اور جوانان ملت کو مختلف اعلٰی معارف اسلامی کی کلاسز آپ دیتے ہیں اور اتوار کو مطہری اوپن سکول کا درس بھی دیتے ہیں، مولانا علی جان کشمیر کے اطراف و اکناف میں اسلام ناب کی ترویج و تبلیغ میں بے مثال کردار نبھا رہے ہیں اور غیر اسلامی رسومات کو معاشرے سے ختم کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے، جس کی بنا پر آپ گوناگوں مشکلات کے شکار ہیں، کشمیر میں آئے حالیہ تباہ کن سیلاب کے دوران آپ نے فعال ترین رول نبھا کر بچاؤ کاری اور راحت کاری کی ذمہ داری بھی انجام دی، اسلام ٹائمز نے مولانا علی جان سے ملاقات کے دوران ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: اسلامی بیداری اور دینی شعور کے حوالے سے کشمیر کی موجودہ صورتحال کیسی ہے۔؟

مولانا علی جان: الحمد للہ جو مشاہدہ میں کر رہا ہوں کہ لوگ کس قدر اسلامی بیداری کے حوالے سے تشنگی کا اظہار کر رہے ہیں، اس سے میں بڑا پرامید ہوں، اگر ہم لوگوں تک صحیح اطلاع اور احکامات پہنچا سکے تو کشمیر میں بہت جلد اسلامی بیداری اپنی عروج پر پہنچ سکتی ہے، اب علماء کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو آگاہ کریں اور دینی شعور پیدا کرنے کے لئے جوانوں کے لئے مختلف کلاسز رکھیں، جوانوں پر بہت ہی کم کام ہو رہا ہے، جوان تیار بیٹھے ہوئے ہیں اور علماء کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب علماء صحیح راہنمائی کرتے ہوئے انکے دینی شعور کو بیدار کریں، ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اسلامی بیداری کے حوالے سے یہاں مجھ جیسے طالب علموں نے بہت کم کام کیا ہے، خدا ہم سب کو دین اسلام کی خدمت کرنے کی مزید توفیقات دے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کے جن ایام میں ہر چہار سمت دینی سیمینارز اور پروگرامز کا اہتمام ہوتا ہے اور لوگ جوق در جوق ان مجالس و محافل میں شریک ہوتے ہیں، ان ایام میں کیا مثبت امکانات ہمارے ہاتھ مہیا ہوتے ہیں کہ جن سے مبلیغین دین اسلام کی زیادہ سے زیادہ ترویج کرسکتے ہیں۔؟

مولانا علی جان: الحمد للہ کشمیر میں ہر آئے روز سیمینارز اور دینی پروگرامز کا اہتمام ہوتا ہے جو خوش آئند بات ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان سیمیناروں کے موضوعات ہمارے دینی مسائل اور قومی مشکلات پر منطبق ہونے چاہیے، کم سے کم ہر سیمینار میں ایک اہم مشکل یا ایک اہم مسئلہ کا حل نکلنا چاہیے، یعنی روایتی سیمینار سے ہٹ کر ہونا چاہیے، جہاں ہماری دینی اور دنیاوی مشکلوں کا حل موجود ہو، اکثر یہ ہوتا ہے کہ اپنی ذاتی تنظیموں کو زندہ رکھنے کے لئے یہ پروگرامز انجام دیئے جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: رسومات اور دیگر خرافات کو اسلام ناب سے الگ کرنے کیلئے ہم کیا لائحہ عمل اپنا سکتے ہیں۔؟

مولانا علی جان: وہ رسومات جو اسلام میں نہیں تھیں اور لوگوں نے اپنی مرضی سے اسلام میں داخل کی ہیں، اس صورت میں ہم سب کی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اسلام ناب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ ولایت خدا کا معنٰی کیا ہے، ولایت رسول اللہ (ص) کیا ہے اور ولایت اہل بیت (ع) کیا ہے اور ولایت فقیہ کیا ہے، جب تک ہمارے دروس، مجالس اور سیمینار اس سمت میں نہیں ہوں گے، تب تک اسلام ناب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ان کے سمجھ میں نہیں آسکتا، مشکل ہماری یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ولایت سمجھانے میں ابھی تک ناکام رہے، سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم نے ولایت کو محبت اہل بیت علیہم السلام سمجھ رکھا ہے جبکہ ولایت کا معنٰی محبت کرنا تحریف ہے، ولایت کا اصل معنٰی ائمہ اطہار اور اولی امر کی خالص اطاعت کرنا بدون چون و چرا۔

اسلام ٹائمز: ان مقدس ایام میں دشمنانِ دین کی روشن، واضح اور مکروہ سازشیں جن کی نشاندہی آپ ہمارے لئے کرنا چاہیں گے۔؟

مولانا علی جان: ان مقدس ایام میں دشمن کی جو سازشیں ہیں وہ سب پر عیان ہیں، ان سازشوں میں سے ایک یہ ہے کہ امت مسلمہ خصوصاً مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے درمیان تفرقہ اور اختلافات پھیلانا ہے اور امت مسلمہ کے ان مسائل کو جنم دینا ہے جو جذباتی دنیا تک محدود ہیں اور شریعت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں، دشمن کی کوشش یہ رہتی ہے کہ ان ایام میں مجالس اور عزاداری میں ایسے کام انجام دیئے جائیں جن کی وجہ سے یہ مجالس اور عزاداری شیعوں تک محدود رہے اور دوسرے مکاتب کے لوگ ان سے استفادہ نہ کرسکیں اور جس کی وجہ سے دشمن اسلام کو مکتب اہل بیت علیہم السلام پر انگلیاں اٹھانے کا موقع ملے اور وہ اپنے زہریلے پروپیگنڈہ کے ذریعے مکتب اہل بیت علیہم السلام کو بدنام کرے اور عزاداری سیدالشھداء علیہ السلام کو داغدار بنائے۔

اسلام ٹائمز: عزاداری اور مقصد حسین (ع) کے فراموش کرنے میں کیا عوامل کارفرما ہیں، اور اس پر علماء کرام کی ذمہ داریاں کیا ہوسکتی ہیں۔؟َ

مولانا علی جان: عزاداری اور اصل مقصد حسینی علیہ السلام کے فراموش کرنے کے مختلف عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں، پہلا عامل: گروہ بندی ہے، گروہ بندی کے بارے میں قرآن کا فرمان ہے {{خدا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کرو، تنازعہ اور اختلاف پیدا نہ کرو کہ سست ہوجاؤ گے اور تمہاری قدرت ختم ہوجائے گی، سورہ انفال ۴۶}}
قوم اور ملت کے لئے اختلافات اور گروہ بندی زہر کی طرح ہے، ایک قوم کو برباد اور ویران کرنے کے لئے اختلاف کا بیج کافی ہے، اگر یہ بیج کسی ملت اور قوم میں بویا گیا ہو اور اس زمین نے اس بیج کو قبول کیا تو زمین برباد ہوجائے گی، وہ ملت نیست و نابود ہوجائے گی، ہماری قوم میں یہ بہت بڑی مشکل ہے کہ اس میں گروہ بندی نے جنم لیا ہے۔

دوسرا عامل: مفاد پرست لوگوں نے امت کو ایسے مسائل میں الجھایا جن کی وجہ سے امت مسلمہ خصوصاً مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو حسینی مقاصد اور اہداف سے دور رکھا گیا اور لوگ بھی انہی مسائل میں الجھ گئے ہیں اور اس طرح لوگ دین سے بے خبر رہ گئے، اس طرح دشمنِ اسلام کے اہداف کی تقویت ہوئی، تیسرا عامل: فروعات کو واجبات پر ترجیح دی گئی ہے، آج ہماری قوم کا مزاج اتنا بگڑ گیا کہ جہاں بھی دیکھئے فروعات کی جنگ ہے اور مفاد پرستوں نے قوم کو اس طرح ان فروعات میں جکڑ کے رکھا کہ لوگ حقیقت دین سے کوسوں دور ہوگئے ہیں، ہمارے اس قوم میں آئے دن نئے نئے معجزات کو وجود میں لایا جاتا ہے اور لوگ بھی آسانی سے ان حرکات و خرافات کو معجزہ کے طور پر قبول کرتے ہیں، اب لوگوں کو پتہ ہی نہیں معجزہ کس کو کہتے ہیں، اس کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور معجزہ کس کو دیا جاتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں مستحبات کو حد سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور واجبات کو آہستہ آہستہ فراموش کیا جا رہا ہے، مکروہ ہات سے بچنے کی کوشش ہوتی ہے جبکہ حرام کام کو مباح شمار کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بھی ایک عامل ہے جس کی وجہ سے حسینی مشن اور عزاداری کے مقاصد کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

چوتھا عامل: علم کا فقدان، سب سے بڑی رکاوٹ جو بنی ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ تعلیم (Education) کے حوالے سے ہماری قوم کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ہر طرف سے ہم اس وقت educated نہ ہونے کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تک تعلیم کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، تب تک ہم کسی بھی چیز میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں، فلسفہ عزاداری کو سمجھنے کے لئے تعلیم کی اہم ضرورت ہے، عزاداری اور حسینی مقاصد کو سمجھنے کے لئے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے۔ علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسا لائحہ عمل اختیار کریں جس کی وجہ سے ان دونوں عاملوں کے نقصانات اور اس عظیم خسارہ کا ازالہ کرسکے اور یہ کام تب تک ممکن نہیں ہے، جب تک علماء اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نہیں انجام دیں گے، اس وقت سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ علماء اپنی ذمہ داریوں کو انجام نہیں دیتے ہیں یا اگر دیتے ہیں تو انفرادی صورت میں انجام دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی دوسرے علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جو علماء واقعاً قوم کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، وہ اجتماعی طور پر اپنا لائحہ عمل مرتب کریں۔ ہم لوگ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کے اہداف اور مقاصد بیان کرتے وقت امام حسین علیہ السلام کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر کرتے ہیں، لیکن خود بھول جاتے ہیں کہ ہمیں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے، علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں کو گروہ بندی اور فرقہ پرستی کے نقصانات سے آگاہ کریں اور دین کے حقیقی چہرے کو لوگوں کے سامنے پیش کریں اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو اجاگر کیا جائے، جب تک علماء سیرت اہل بیت علیہم السلام کو نہیں اپناتے اور لوگوں کے سامنے اس سیرت کو پیش نہیں کرتے، تب تک اس قوم کی کوئی مشکل حل نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم دشمنان دین کی بے انتہا کوششوں کے مقابلے میں صرف کچھ ایام فعال کردار ادا کرتے ہیں، اور دس دن یا ایک ماہ ایکٹیو رول ادا کرکے باقی ماندہ سال ساکت اور خاموش امتی ثابت ہوتے ہیں اور اس طرح ہم دشمن کے خاکوں میں رنگ بھرے کا کام انجام دیتے ہیں۔؟

مولانا علی جان: جی ایسا ہی ہے، دشمن ہمیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا چاہتا ہے، دشمن 50 سال کے بعد کیا ہونے والا ہے اور کیسے ہوگا اور کس طرح ہوگا اس حوالے دشمن اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک لحظہ کے لئے غافل نہیں رہتے، یہاں تک اپنا آرام بھی انہی ناپاک عزائم پر قربان کرتے ہیں، پالیسی بناتے ہیں، پروگرامنگ بناتے ہیں، بڑی پلاننگ کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، اس کے مقابلے میں ہم خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، ہم اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فکر نہیں رکھتے، ہمارا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہے، ہم لوگ دن بدن پیچھے جا رہے ہیں، آگے بڑھنے کی تو بات ہی نہیں، قوم ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہو رہی ہے، ہماری زندگی کچھ اس طرح ہے کہ ہمیں حال کے بارے میں پتہ نہیں ہو رہا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور ہم کیا کر رہے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ جب ہمارے پاس آئندہ کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں ہوگا، جب ہمارے پاس کوئی پروگرامننگ نہیں ہوگی تو یہ وہی کام ہے، جس کو دشمن چاہتا ہے اور اس طرح ہم دشمن کی مدد کر رہے ہیں، پتہ نہیں علماء کرام کب اپنی ذمہ داری ادا کریں گے اور ہم لوگ بیدار ہوجائیں گے، اس وقت ہمارے سر سے پانی گزرنے والا ہے، کسی کو قوم کی فکر نہیں کہ لوگوں کو جگائیں، اس خواب غفلت سے اور انہیں منزل مقصود کی طرف راہنمائی کرے اور یہ تب تک ناممکن ہے جب تک ہمارے قوم کے ذمہ دار افراد اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کیلئے اتحاد و وحدت کو عملی جامہ پہنا کر عملی اقدامات نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: تقلید اور عزاداری دو اہم شعبے اور مراکز ہیں، جن سے مکتب تشیع کے تمام مسائل حل ہوسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے، تقلید سے ہمارے بعض لوگ ناآشنا اور روح عزاداری سے کوسوں دور، کیا راہ حل آپ کو نظر آرہا ہے۔؟

مولانا علی جان: تقلید اور عزاداری، دیکھئے تقلید کو اچھی طرح بیان نہیں کیا گیا ہے، بعض حضرات نے اس میں سر توڑ کوشش کی ہے کہ اس مسئلہ کو معاشرے میں واضح کرے اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے، لیکن دوسری طرف ہمارے اس معاشرے میں تقلید کا جنازہ نکالا جاچکا ہے، جب تک ہم لوگوں کو اچھی طرح نہیں سمجھا پائیں گے کہ تقلید کیوں ضروری ہے اور تقلید کے بغیر کوئی کام صحیح نہیں پے۔ تقلید روح دین ہے، تقلید نے ہی آج تک دین اسلام کو زندہ رکھا ہے، تقلید دین کا محرک ہے، جب یہ محرک ہی کمزور پڑ جائے تو دین معاشرے میں کیسے زندہ رہے گا، ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ لوگوں کو بتائیں کہ تقلید کیوں ضروری ہے، عزاداری کے حوالے سے یہ کہنا چاہوں گا کہ الحمد للہ لوگ عزاداری میں بھرپور شرکت کرتے ہیں، اپنا وقت بھی دیتے ہیں، پیسا بھی دیتے ہیں، حتی جان دینے کی لئے بھی تیار ہیں، اب یہ علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کو کس قسم کی راہنمائی کرنا چاہتے ہیں، کیسے ان کو دین میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں، کیسے ان کو فلسفہ عزاداری سمجھاتے ہیں اور لوگوں کو کس سمت میں لے کے جانا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں علماء کو اس میں سخت محنت کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کو عزاداری اور دین کے مقاصد کو اچھی طرح سمجھا سکیں۔ اگر ہم ان دو مسائل کو لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوگئے تو کشمیر کی سرزمین پر شیعہ ایک زندہ قوم کی مانند رہے گی، آج وہی قوم کامیاب ہے جس قوم کے درمیان ولایت، تقلید اور عزاداری کے اہداف اور مقاصد زندہ ہیں، آج دشمن اسلام کو حقیقی عزاداری سے خوف طاری ہوجاتا ہے، دشمن سمجھتا ہے کہ عزاداری کے ذریعہ یہ لوگ اپنے تمام مشکلوں پر قابو پاسکتے ہیں، لیکن مسلمان اس چیز کو نہیں سمجھ پاتے ہیں بلکہ ہر انسان کو اپنے حقیقی کمال تک پہنچنے کے لئے انہی دو چیزوں کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 419400
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
بہت خوب
marhaba . allaha hamay suratal mustaqeem par gamzan karay.

"read Delhi in the personal bio data of Movlana as Azad Kashmir"
ہماری پیشکش