0
Saturday 31 Mar 2012 21:38

عرب لیگ کا تئیسواں سربراہی اجلاس خواہشات و تمنائیں

عرب لیگ کا تئیسواں سربراہی اجلاس خواہشات و تمنائیں
 تحریر: محمد علی نقوی

 تمام تر دھمکیوں اور سازشوں کے بعد بلآخر عرب لیگ کا تئیسواں سربراہی اجلاس بغداد میں شروع ہو گیا ہے، عرب سربراہی اجلاس کی میزبانی سے عراق کو روکنے کی کوششوں کے تحت بغداد کو بدامن ظاہر کرنے کے لئے دھماکے کئے گئے، صیہونی میڈیا نے بھی اپنا حصہ ڈالا، لیکن اس کا نتیجہ دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کی رسوائی کی سوا اور کچھ نہیں نکلا بلکہ عراق کے وزیراعظم نوری مالکی کا عزم اور بھی بڑھا۔
 
عراق سے امریکی فوج کے انخلا اور اس ملک پر تین ہزار ایک سو اٹھاسی دنوں تک جاری رہنے والے فوجی قبضے کے باضابطہ خاتمے کے اعلان کے بعد بھی تقریباً پندرہ ہزار امریکی فوجی عراق میں امریکہ کے طویل وعریض سفارتخانے کی حفاظت جیسے بہانوں سے عراق میں موجود ہیں جن کے وجود کے باعث دہشتگردی کے خاتمے اور بدامنی سے نجات کا تصور محال ہے، لیکن عراقی سکیورٹی فورسز کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے متعدد مشکلات اور مسائل کے باوجود ملک کی سکیورٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے کر عرب سربراہی اجلاس کے انعقاد کو ممکن بنا دیا اور دارالحکومت بغداد میں عرب سربراہی اجلاس کا انعقاد بلاشبہ ان کی خوداعتمادی اور مہارت کی غمازی کرتا ہے۔
 
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نبیل العربی نے سربراہی اجلاس سے پہلے کہا تھا کہ بغداد میں عرب لیگ سربراہی اجلاس کے انعقاد سے عراق علاقے میں طاقت کے توازن کا مرکز بن جائے گا۔ عراقی حکام نے بھی اس اجلاس کو عراق کے لئے کامیابی قرار دیا، کیونکہ بعض عرب ممالک نہیں چاہتے تھے کہ بغداد میں عرب لیگ کا اجلاس منعقعد ہو۔ کہا جا رہا ہے کہ اس اجلاس میں فلسطین، شام، یمن اور دہشتگردی کے خلاف جدوجہد نیز عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی روک تھام پر غور کیا جائے گا۔
 
بغداد میں عرب لیگ کے تئیسویں اجلاس کی عالمی اور علاقائی اہمیت یوں بڑہ جاتی ہے کہ یہ عرب ممالک میں عوامی تحریکوں اور چار ڈکٹیٹروں کی حکومت گرنے کے بعد منعقد ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب سربراہی اجلاس میں زیربحث موضوعات بالخصوص فلسطین اور شام کے موضوعات اسکی اہمیت میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ عراق میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کا انعقاد نہ صرف عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کے لئے اہم قدم ہے بلکہ علاقے کے بحران کے سلسلے میں تبادلہ خیال کرنے نیز علاقائی وبین الاقوامی سطح پر عرب لیگ کے کردار کو فروغ دینے کا بھی بہترین موقع ثابت ہو سکتا ہے۔
 
گذشتہ برسوں میں عرب لیگ کے کردار پر ایک نظر ڈالنے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عرب لیگ اختلافات اور آراء میں تضاد نیز تسلط پسند طاقتوں کے زیراثر ہونے کی وجہ سے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہيں کر سکی ہے۔ درحقیقت عرب ليگ وقت کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ایک کمزور تنظیم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ عرب لیگ نے انیس سو ستر میں تیل کے بحران میں موثر کردار ادا کرنے کے علاوہ اب تک عرب ممالک کے کسی بھی مسئلے میں موثر کردار نہيں کیا۔ مثال کے طور پر مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں عرب لیگ پوری طرح ناکام ثابت ہوئی، حالانکہ اس کے وجود میں آنے کا بنیادی ہدف مسئلہ فلسطین تھا۔ اس وقت عالم عرب کے لئے سب سے بڑا چیلنج، فلسطین کا مسئلہ ہے، جو پوری مسلم امہ کے لئے بھی چیلنج بنا ہوا ہے۔

تاہم موجودہ عرب سربراہوں کی سیاسی وابستگیوں کے پیش نظر یہ بعید نظر آتا ہے کہ بغداد اجلاس میں اس موضوع پر کوئی سنجیدہ بات ہو سکے۔ ظاہراً جس موضوع کو بغداد اجلاس میں سنجیدگی سے اٹھائے جانے کی توقع ہے وہ شام کا موضوع ہے۔ شام کے حوالے سے قطر اور سعودی عرب، مغرب کی اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانہ چاہتے ہیں جس کے تحت صدر بشاراسد کی حکومت گر جائے اور وہاں ایک ایسی حکومت قائم ہو جائے، جو صہیونی حکومت کے لئے صدر حسنی مبارک کی جانشین ثابت ہو۔
 
اگرچہ اس معاملے میں صدر بشار اسد کی حکومت نے اپنی فہم فراست سے اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے اور بشار اسد نے حمص میں بابا عمرو کے علاقے کے دورہ کر کے اور کوفی عنان کو ہر طرح کے تعاون کا یقین دلا کر امریکہ سمیت اپنے علاقائی مخالفین کو سخت مایوس کر دیا ہے۔ بابا عمرو کے علاقے کو شامی فوج نے کئی ہفتے کے بعد شرپسندوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا ہے اور اب اس علاقے کی رونقیں پہلے کی طرح لوٹ آئی ہیں۔ صدر بشار اسد کے بابا عمرو کے علاقے کے اچانک دورے کی خبر پر، الجزیرہ اور العربیہ ٹی وی چینلز اپنی بوکھلاہٹ نہ چھپا سکے، لہذا انہوں نے جو مسلسل اس علاقے میں بدامنی سے متعلق خبریں دے رہے تھے، حمص میں صدر بشار اسد کے قافلے پر فائرنگ کی من گھڑت خبریں نشر کرنا شروع کر دیں۔
 
بہرحال بغداد میں عرب سربراہی اجلاس میں شام کا موضوع خاصا گرم رہنے کی توقع ہے، تاہم صدر بشار اسد کی مضبوط پوزیشن کو دیکھتے ہوئے اس اجلاس میں شام کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے جانے کے آثار کم ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ درحقیقت لیبیا پر نیٹو کے حملے کی حمایت میں پیش پیش رہنے اور شام پر دباؤ ڈالنے میں مغربی ممالک کا ساتھ دینے سے ثابت ہو گیا کہ عرب لیگ ،علاقے میں مغربی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں برابر کی شریک ہے۔ اس میں کوئی شک نہيں کہ قطر اور سعودی عرب جیسے بعض عرب ممالک کی جانب سے مغرب کے سامنے سر تسلیم خم کرنا عرب لیگ کے بے اثر ہونے کا بنیادی سبب اور عرب ممالک کے درمیان حقیقی اتحاد کی راہ میں اصلی رکاوٹ ہے۔
 
بعض سازشی عرب حکومتوں کی جانب سے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی دھمکیاں یا اس اجلاس میں نہایت نچلی سطح پر نمائندہ وفود بھیج کر تئیسویں سربراہی اجلاس کو کمزور کرنے کی کوشش مغرب کے سازشی مقاصد پر عمل درآمد کے مترادف ہے، لیکن اس اجلاس میں موجود عرب لیگ کے ارکان کی اکثریت عالمی معاملات میں عرب لیگ میں آزادانہ، تعمیری اور مثبت تحرک پیدا کرنے کے عزم کی خواہاں ہے اور یہ مسئلہ عرب لیگ کے بعض اراکین کے، تفرقہ آمیز، اورخودسرانہ کارکردگی سے واضح بیزاری کا اعلان ہے۔
 
اس حقیقت کے پیش نظر عراقی حکومت کے ترجمان علی الدباغ نے تاکید کی ہے کہ عرب ممالک کو صحیح فیصلوں کی ضرورت ہے اور اب تک کے غلط فیصلوں کی وجہ سے فلسطین اور بیت المقدس کا مسئلہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ عرب سربراہی اجلاس سے قبل وزراء کی سطح پر ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نوری مالکی کا کہنا تھا کہ عراق کو امید ہے کہ بغداد سربراہی اجلاس کے اچھے اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ عرب سربراہی اجلاس کے شرکاء عرب دنیا کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی راہ حل تک پہنچ جائيں گے۔ نوری مالکی کی خواہشات اور تمنائیں اپنی جگہ لیکن اس اجلاس سے لمبی چوڑی امیدیں وابستہ کرنا صحرا میں سایہ دیوار کی خواہش کے مترادف ہے۔
خبر کا کوڈ : 149301
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش