0
Sunday 26 Oct 2014 19:41

پیغام حسین (ع) لیکر منبر پر جانیوالے حسینی پیغمبر کو کردار حسین (ع) میں ڈھلنا ہو گا، زوار بسمل

پیغام حسین (ع) لیکر منبر پر جانیوالے  حسینی پیغمبر کو کردار حسین (ع) میں ڈھلنا ہو گا، زوار بسمل
زوار حسین بسمل کا تعلق احمد پور شرقیہ، ضلع بہاولپور سے ہے، قوم کی بھرپور نمائندگی کرنے والے ملی شاعر اور دانشور ہیں، شروع میں سکول نہیں گئے، قاصد کی سیٹ پر سرکاری نوکری کرتے تھے، اسی دوران تعلیم سے لگاو کے باعث تین سال سرکاری سروس کرنے کے بعد دوسری کی کتابیں خریدیں اور دو سال میں دس جماعتیں پاس کیں، 1983ء میں میٹرک کلیئر کیا، اسی طرح ایف اے اور پھر فاضل عربی کا کورس مکمل کیا، شاعری کا ذوق دلانے میں علامہ قاضی شبیر علوی اور ملک فرخ عباس کو اپنے محسنوں میں سمجھتے ہیں، گذشتہ دنوں اسلام ٹائمز نے ملی شاعر کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: انصاف کا قتل کرنے والوں کے خلاف آپ کی ایک نظم نے کافی شہرت حاصل کی ، سب سے پہلے وہ سنائیں۔؟

زوار بسمل: انصاف تیرے کے چرچے ہیں اور خون آلودہ دھرتی ہے
ہر نگری سوگ میں ڈوبی ہے فریاد کناں ہر بستی ہے
یہاں پانی مہنگا بکتا ہے اور خون کی بولی سستی ہے
ہم لوگ کیا جانیں بادل کو ہم پر تو آگ برستی ہے
تاریخ سدا دہرائے گی یہ تیری جانبداری بھی
گر سچ پوچھیں تو نادم ہے کردار تیرے سے ناری بھی
کہیں رینٹل پاور پر نوٹس کہیں ایک طمانچے پر نوٹس
گر بات کریں تنقید کی تو اس بات کے اوپر دھر نوٹس
ہے جب تک تو اس کرسی پہ تاریخ کے پیٹ میں بھر نوٹس
بے جرم جو خون بہاتے ہیں اک روز تو بھیج ادھر نوٹس
اک آن میں جو ویران ہوئے ان شہروں کی روداد بھی سن
وہ جن کی آنکھ کا نور گیا ان ماوں کی فریاد بھی سن
میرے دیس کا سینہ چھلنی ہے ہر زخم دہائی دیتا ہے
جو سو سو فرد کا قاتل ہے تو اس کو رہائی دیتا ہے
افسوس تو چارہ گر نہ تھا ہم تجھ کو چارہ گر سمجھے
تو دل کی دنیا لوٹ گیا ہم لوگ تجھے دلبر سمجھے
یہ گھر برباد جو ہوتے ہیں اے کاش تو اپنے گھر سمجھے
یہ دہشت گرد تو دین کو بھی ہیں کرتے برباد تو گر سمجھے
تو آنکھ تو ٹیڑھی رکھتا ہے دل سیدھا کر لے دل اپنا
انصاف تیرا انصاف سے ہو تو کچھ حال کہے بسمل اپنا
کیا تجھ کو معلوم نہیں قانون ہے سارا جنگل کا
انبار لگے ہیں لاشوں کے آیکھ تو منظر جنگل کا
دے لاکھ تو ساتھ لٹیروں کا ہے ساتھ تیرا پل دو پل کا
ہر دور میں جیت ہے کربل کی ہر دور میں نام ہے کربل کا
شبیر کے نوکر کربل کی پہچان رہیں گے محشر تک
شبیر کے مقصد پر ہم تو قربان رہیں گے محشر تک
ہر دور میں ہم مجبور نہیں مختار بھی ہم میں ہوتے ہیں
تاریخ نہ جن کو بھول سکے کردار بھی ہم میں ہوتے ہیں
سفین کا منظر دیکھ ذر ا جرار بھی ہم میں ہوتے ہیں
کرار کے ماننے والے ہیں کرار بھی ہم میں ہوتے ہیں
ہر دور میں دین کی قسمت کو ہم لوگ سنوارا کرتے ہیں
ہم ایک تبسم سے دشمن کے لشکر مارا کرتے ہیں
اک بات تڑپتی تھی دل میں وہ بات ہے آج جوانوں سے
شبیر کے ان حبداروں سے کربل کے ان پروانوں سے
حق مانگنے سے کب ملتا ہے حق چھین لو ان ایوانوں سے
انصاف کی آس لگاتے ہو ان آدم خور انسانوں سے
وہ قوم کے سورج ہوتے ہیں جو قوم کے دیپ جلاتے ہیں
بسمل قوم کی دھڑکن میں وہ لوگ سدا رہ جاتے ہیں

اسلام ٹائمز: یہ نظم کہ جس میں آپ نے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے ایک نام نہاد منصف کی بات کی اور ناانصافیوں کا پردہ فاش کیا، اس نظم کے لئے آپ کو تحریک کہاں سے ملی۔؟

زوار بسمل : میرے سامنے ہزارہ کمیونٹی کا سو سو لاشہ پڑا تھا، جنہیں انصاف نہیں مل رہا تھا، شیعہ ٹارگٹ کلنگ مسلسل ہو رہی تھی جو اب بھی جاری ہے، اور ادھر چیف جسٹس کہتا تھا کہ میں بہت بڑا انصاف لیکر آیا ہوں، اور انصاف کر رہا ہوں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر از خود نوٹس لے رہا تھا، ایم پی اے کے طمانچہ مارنے پر نوٹس، بابر اعوان نے کہہ دیا میں لکھ واری بسم اللہ کراں اس پر نوٹس توہین کا آ گیا ، ادھر جب اتنی لاشوں کے انبار پڑے تھے، یہ افتخار چوہدری نوٹس نہیں لے رہا تھا، اس وقت اندر کا ایک درد تھا، ایک تڑپ تھی، جو مجھے مجبور کر رہی تھی کہ ایک ملی شاعر ہونے کے ناطے میں اپنی ذمہ داری نبھاوں، چونکہ شروع دن سے یہ نظریہ ہے کہ شاعر قوم کا ترجمان ہوتا ہے۔ قوم کا درد صحیح انداز میں بیان کرنے والا شاعر ہوتا ہے۔ سزائے موت پر عمل روکنے والوں کو وہ قاتل نظر نہیں آتے جو کئی کئی گھر اجاڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی زندگی بچانے کے لئے کام کرنے والی تنظیموں بھی دہشت گرد ہیں۔

اسلام ٹائمز: سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔؟

زوار بسمل: سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے میں انسانی حقوق کی بعض نام نہاد تنظیموں نے فعال رول ادا کیا دراصل یہ تنظیمیں امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈا پر چلتے ہوئے دہشت گردوں کی پشت پناہ ہیں، یہ دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے تاکہ وہ کھل کر گھناونی کارروائیاں بلا خوف و خطر جاری رکھیں، اگر دہشت گردوں کو پھانسی کی سزائیں دے دی جائیں، سزائے موت پر عمل درآمد ہو جائے تو آنے والی نسلوں سے دہشت گرد نہیں ملیں گے۔ پچھلے دنوں چند این جی اووز کے لوگ میرے پاس آئے ، میں نے ان سے بھی کہا کہ سب سے بڑے دہشت گردوں کی سزائیں آپ رکواتے ہیں۔ اس ملک کی طرف سے امن کا درس دینے آتے ہیں جو جس ملک پر چاہتا ہے چڑھ دوڑتا ہے اور ان کا قتل عام شروع کر دیتا ہے یہ کہاں کی انسانیت ہے، بات یہ ہے کہ اگر حقیقی امن دینا میں قائم ہو جائے تو امریکہ و اسرائیل کی اسلحہ کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔ یہ تمام اسلحہ مسلمانوں پر چلتا ہے، فلسطین، شام ہر خطہ میں مسلمانوں پر یہ اسلحہ چلایا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ کو آگ و خون میں نہلانے کے بعد داعش پاکستان کا رخ کر رہی ہے، ساری صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

زوار بسمل: داعش سی آئی اے کے چند تربیت یافتہ لوگوں کو گروہ ہے، امریکہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم داعش پر بمباری کر رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ بمباری کر رہا ہے تو وہ بڑھ کیسے رہے ہیں۔ داعش کونسا اسلام لانا چاہتے ہیں، انبیاؑ کے مزارات پر بمباری کر کے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ نبی خدا انبیا الٰہی جن کے تذکرے قرآن میں موجود ہیں، سورۃ یونس قرآن میں موجود ہے، انکے مزار کو بموں سے اڑا دیا گیا، داعش کی حمایت کرنے والے کس اسلام کے دعویدار ہیں۔ دنیا کے سامنے اسلام کو بدنام کرنے کی گھناونی سازش کی جارہی ہے۔

اسلام ٹائمز: منبر حسینی جو پیام امام مظلوم (ع) پہنچانے کے لئے بہترین میڈیا ہے اسے کس انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔؟

زوار بسمل: منبر حسینی سے وہی پیغام جانا چاہیئے جو حسین (ع) مدینہ سے لیکر چلے تھے، جو پیغام پہنچانے کے لئے امام حسین علیہ السلام نے مدینہ چھوڑا، مکہ چھوڑا، اور چلتے ہی کہا تھا کہ انی خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی میں مدینہ سے اپنی جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکل رہا ہوں، اور پھر کہا کہ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ حلال محمد کو حرام اور حرام محمد (ص) کو حلال کیا جا رہا ہے۔ تو مولا (ع) کے یہ دو جملے پوری کائنات پر بھاری ہیں۔ پہلا جملہ یہ کہ میں اصلاح کے لئے جارہا ہوں، کہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ حسین (ع) حکومت کے لئے نکلے تھے، پھر واضح کیا کہ کس لئے نکل رہا ہوں، یزید نے اصل دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، تو بتا دیا کہ دین حقیقی کی ترویج کے لئے نکل رہا ہوں۔ منبر حسینی سے پیغام پہنچانے والے مطالعہ سے عاری ہیں، وہ امام حسین علیہ السلام کے مشن کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے، پیغام دینے والے کو پیغمبر کہتے ہیں، اب جو بھی منبر حسین (ع) پر آرہا ہے وہ حسینی پیغمبر ہے، پیغمبر کے کردار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کس کا بھیجا ہوا ہے۔ جتنے رسول خدا آئے انہوں نے اپنے کردار سے بتایا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ ان کے کردار میں کہیں جھول نہیں تھی لوگوں نے پیغمبر مان لیا، اور ایک پیغمبر حسین جو پیغام حسین (ع) لیکر منبر حسین پر جا رہا ہے، اسے پہلے خود کو کردار حسین (ع) میں ڈھالنا چاہیئے، منبر پر نماز کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، جو نماز کی بات کرے اسے حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور منبر کے قریب جانے نہیں دیا جاتا، اسے دعوتیں ملنا بند ہو جاتی ہیں۔ درد دل رکھنے والے اہل علم لوگ بھی یہ رویہ دیکھ کر تبلیغ چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک سازش کے تحت امام حسین (ع) کے پیغام کے بالکل برعکس کام کئے جا رہے ہیں، جس جس کام سے امام حسین علیہ السلام منع کرنا چاہتے تھے اسے عام کیا جا رہا ہے۔ بات ہے تو اندر کی لیکن کیا کریں شرابیں پی کر لوگ منبر پر جا رہے ہیں۔ پی ہوئی ہوتی ہے وہیں نشوں میں مدہوش ہو جاتے ہیں۔ ہوش نہیں ہوتا منہ سے کیا نکل رہا ہے اور ہم کہہ کیا رہے ہیں۔ شراب پی کر جو پڑھ رہے ہوں کہ شرابی کے دربار میں علی (ع) کی بیٹی گئی، اس کی بات میں کیا اثر ہو گا، کیا اس کو درد ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ایک رائے پائی جاتی ہے کہ محرم کی مجالس پر ایک خطیر بجٹ صرف کیا جاتا ہے، جس سے قوم کے لئے کئی یونیورسٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔؟

زوار بسمل: عزاداری ریاکاری کا شکار ہو چکی ہے۔ بانی، پڑھنے والے اور سننے والوں میں اب خلوص نہیں رہا، تینوں ریاکاری کا شکار ہو چکے ہیں، عزادار، نوحہ خوان، حد تو یہ ہے کہ ایک نوحہ خوان کا حلقہ لگا ہو تو دوسر ا نوحہ خوان اس کے اندر کھڑا ہونا گوارہ نہیں کرتا، ایک پڑھنے والا اسٹیج پر پڑھ رہا ہوتا ہے دوسرا نیچے تسبیح پڑھ رہا ہوتا ہے خدا کرے اس کی مجلس نہ لگے، تسبیحات پڑھ رہے ہوتے ہیں اور دم کر رہے ہوتے ہیں۔ بانی کہتا ہے کہ میرے جلسہ میں لوگ زیادہ آئیں میرا نام بڑھ جائے، بانی کی نگاہ مجمع پر ہوتی ہے مجمع کی نگاہ نعروں پر ہوتی ہے۔ اگر ہم کروڑ روپیہ اس کام پر لگا رہے ہیں تو کم از کم پچیس لاکھ تو فلاحی کاموں کے لئے رکھ لیا جائے، ایک چوتھائی دفاعی کاموں کے لئے رکھا جائے، کروڑوں کا امام بارگاہ بنا ہوا ہے، کروڑوں کا جلسہ ہو رہا ہے لوگ آئے ہوئے ہیں اور ان کے تحفظ کا کوئی سامان نہیں مہیا کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 416593
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش