1
0
Thursday 25 Sep 2014 12:10

سرزمین انقلاب کا مقدس سفر (3)

سرزمین انقلاب کا مقدس سفر (3)
تحریر: سید آفتاب حیدر نقوی

پروگرام کو بروقت اور منظم رکھنے کے لئے آپکو کافی محنت کرنا پڑتی ہے، البتہ یہاں دوستوں اور بالخصوص مسئولین کے احساس ذمہ داری کی تعریف نہ کی جائے تو زیادتی ہوگی کیونکہ پروگرام کو صحیح انداز میں چلانے کے لئے مجھے کسی خاص تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کاشف بھائی نے میرا کافی بوجھ ہلکا کیا، البتہ ذکی بھائی کو بوجھل کرنے کی جتنی کوششیں کی گئیں وہ ناکام ثابت ہوئیں اور آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بیمار پڑگئے۔ خدا انہیں صحت دے۔ انہی دوستوں کے تعاون کی بدولت ہی ممکن ہوا کہ میں ایک دن انہیں قم میں چھوڑ کر تہران میں مہدویت کی عالمی کانفرنس میں شریک ہوسکا۔ قم میں موجود دوستوں میں سے برادر جواد ہمدانی، برادر اصغر کاظمی اور دوسرے دوستوں کا بھرپور تعاون ہی اس بات کا باعث ہوسکا کہ ہم قم سے خاطر خواہ استفادہ کرسکے۔

فوکو یاما (Francis Fukuyama)، ہنٹنگٹن (Huntington) اور بہت سے دوسرے نظریہ پردازان امریکہ کے نام اور ان کے نظریات ایران میں تواتر سے سننے کو ملے تو ایرانیوں کی سطح علمی، سیاسی بصیرت، جہاں بینی، دشمن شناسی اور حکمت عملی کو دل کھول کے داد دینے کو جی چاہا۔ جو دو نام اوپر ذکر کئے گئے ہیں، یہ ان چند ایک مدبرین میں سے ہیں کہ جن کے نظریات کی روشنی میں وائٹ ہاؤس دنیا جہان کے لئے لائحہ عمل تیار کرتا ہے۔ ہم بحیثیت پاکستانی امریکہ سے نفرت تو کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں اور کیا منصوبہ رکھتے ہیں کہ اس کے توڑ کے لئے کوئی اقدام کریں۔ آخر خالی مردہ باد امریکہ کہنے سے ذمہ داری تو پوری نہیں ہوتی۔ مغرب میں وہ آپ کو سب کچھ تعلیم دیں گے طب، انجنئرنگ، اقتصاد، کاروبار، سائنس اور بہت کچھ، لیکن قطعاً آپکو اسٹریٹجی یا حکمت عملی نہیں سکھائیں گے۔ حکمت عملی یعنی کہ کیسے دنیا میں نفوذ پیدا کرنا ہے اور کیسے ان عوامل پر اثر انداز ہونا ہے کہ جو دنیا کو چلاتے ہیں۔ یہ الفاظ تھے استاد قوامیان کے جو اسٹریٹجیک اسٹڈیز میں ایک نام رکھتے ہیں۔ 

قم میں ہماری ورکشاپ اس طرح سے دو حصوں میں تقسیم تھی، ایک عقائد و سیرت و احکام جیسے دینی موضوعات اور دوسرے سیاسی موضوعات۔ دین و سیاست کا یہی امتزاج آئی ایس او کا حسن ہے کہ جسے خوبصورتی سے اس ورکشاپ میں نمایاں کیا گیا تھا۔ لیکچروں کی بوریت دور کرنے کے لئے کچھ گھومنے پھرنے کا بندوبست بھی تھا لیکن یہ سیر ایسی ہوتی تھی کہ جس کا سب سے لازمی عنصر لیکچر ہوا کرتا تھا، لیکن بعض لیکچرز کافی دلچسپ بھی ہوتے تھے جیسے کتابخانہ آیت ﷲ مرعشی نجفی کے لائبریرین کا انسان اور کتاب میں مماثلت بیان کرنا کہ انسان کا بھی نام ہوتا ہے اور کتاب کا بھی۔ دونوں کی عمر ہوتی ہے، دونوں سفر کرتے ہیں، دونوں ہدایت یا گمراہی دیتے ہیں، دونوں کے لئے باغ ہوتے ہیں اور دونوں کے لئے قید خانے۔ کتاب کا زندان یہ ہے کہ کوئی شخص کتابوں کو اکٹھا کر لے اور ان سے نہ خود استفادہ کرے اور نہ کسی اور کو استفادہ کرنے دے۔ البتہ اس لائبریری کو انہوں نے کتابوں کے ایک باغ سے تشبیہ دی۔

آیت ﷲ مرعشی نجفی کا کتابخانہ اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ مالی وسائل کسی کام کی کامیابی کے لئے بنیادی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ کتابخانہ آیت ﷲ نے نہایت کسمپرسی کے عالم میں بنایا تھا اور کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی کتاب کو خریدنے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں تھے تو صاحب کتاب کے مرحومین کی قضا نمازیں پڑھ کے انہوں نے اس کے بدلے میں وہ کتاب حاصل کی۔ کوہ خضر، مسجد جمکران، موسسہ نور اور حرم حضرت معصومہ قم میں موجود قبور کی زیارت یہاں کے اہم پروگرامات میں شامل تھے۔ آخری رات مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے برادران نے کھانےکا اہتمام کیا ہوا تھا، جہاں ان کے ساتھ اچھی گپ شپ ہوئی۔ قم کی طرف سے تہران داخل ہوں تو پہلے امام خمینی کا مزار پڑتا ہے۔ خمینی جس نے مسلمانوں کو زندگی دی۔ اقبال کے فلسفہ خودی کو عملی شکل دی۔ اسلام کو آج کے دور سے ہم آہنگ ایک نظام دیا۔ خمینی ﷲ کی وہ نشانی تھے کہ جس کی روشنی سے ایک جہان منور ہوگیا۔ مرقد منور پر حاضری اور نماز کے بعد امام صادقؑ یونیورسٹی کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ ایک تخصصی یونیورسٹی ہے کہ جو ایران کو مختلف شعبوں میں قیادت فراہم کرتی ہے۔ یہاں سے میلاد ٹاور کی سیر کے لئے روانہ ہوئے۔ برج میلاد دنیا کے بلند میناروں میں سے ایک ہے کہ جہاں سے پورے تہران کے نظارہ کے ساتھ ساتھ وہاں پر رکھے گئے فن پاروں اور ورثہ کے ذریعہ ایران سے ایک گہری آشنائی ملتی ہے۔

تہران کے باقی پروگرام میں اہل بیت یونیورسٹی، سابق ساواک کا ہیڈ کوارٹر، سابق امریکی سفارتخانہ، شہداء میوزیم، دفاع مقدس میوزیم کا دورہ اور کچھ شخصیات سے ملاقات کے ساتھ حلقہ معرفت کا تعارف شامل تھا۔ آئی ایس او پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ چند سالوں سے اہل بیت یونیورسٹی تہران کے لئے داخلہ جات انجام دے رہی ہے اور اسی سلسلہ میں وہاں یونیورسٹی کے مسئولین کے ساتھ نشست بہت مفید رہی۔ دوران گفتگو اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی کہ جب ایک مسئول نے امریکی صدر کو آقا (آغا) اوبامہ کہ کر مخاطب کیا تو دوست اپنی مسکراہٹوں پر قابو نہ پاسکے۔ بعد میں مجھ سے استفسار ہوا کہ آقا رہبر تو ٹھیک ہے لیکن آقا اوباما ہضم نہیں ہوتا۔ تو میں نے وضاحت کی کہ مسٹر اوباما کا فارسی ترجمہ آقا اوباما کے علاوہ کچھ ممکن نہیں، اور پھر یہ انتہائی اعلی اخلاق کا مظاہرہ ہے کہ آپ دشمن کو بھی صحیح نام سے اور تمیز سے مخاطب کریں۔ یہیں پر گفتگو میں انہوں نے سخت خبر اور نرم خبر میں فرق واضح کیا اور بتایا کہ کس طرح مغربی میڈیا خبروں کی ملمع کاری اور جھوٹ کی آمیزش سے دنیا کے اذہان کو بدلتا ہے۔ 

مشھد مقدس واپسی کے سفر میں ہمارا آخری پڑاؤ تھا۔ یہاں امام علی رضاؑ کی زیارت اور ان سے راز و نیاز کے علاوہ کچھ اور پروگرامات بھی تھے، لیکن بہت ہلکے کہ دوست زیادہ وقت امام کے پاس گذار سکیں۔ حرم میں موجود میوزیم کے علاوہ نزدیک ہی ایک کتابخانہ تخصصی امام علی کہ جو ایک شخص کی ذاتی جمع پونجی سے بنایا تھا کو دیکھنے کا موقع ملا۔ کتابخانہ کے مالک نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کے ترکہ میں سے ایک تہائی اس مقصد کے لئے وقف کر دیا تھا۔ کتابخانہ تخصصی اس لئے کہتے ہیں کہ اس کتابخانہ میں تمام کی تمام کتابیں اور دیگر مواد صرف حضرت علیؑ سے متعلق ہے۔ ایک دن نیشاپور کے لئے مخصوص تھا۔ نیشاپور وہ جگہ ہے کہ جہاں مشہد کی طرف اپنے سفر کے دوران امام رضاؑ نے معروف حدیث سلسلۃ الذھب بیان کی تھی۔ خواجہ اباالصلت اور خواجہ مراد جیسے امام کے صحابی بھی اسی جوانب میں دفن ہیں۔

25 دن ایسے گذرے کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ واپسی کے لئے مشہد ائیر پورٹ پہنچے تو دوست سمجھ رہے تھے کہ ابھی سختیاں ختم ہوگئی ہیں لیکن وہ سختی ہی کیا جو ختم ہوجائے۔ دوستوں کو لاہور ائیر پورٹ پہنچنے سے پہلے سارے دورہ کی رپورٹ اور اپنے تائثرات لکھنے کا کام تفویض کیا گیا، جو الحمد للہ کافی دوستوں نے اچھے انداز سے انجام دیا۔ لاہور ائیر پورٹ پر مرکز کے برادران استقبال کے لئے موجود تھے، جو ہمیں مرکزی دفتر لے کر آئے، جہاں ایک مختصر سی تقریب کے بعد دوست اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
خبر کا کوڈ : 406891
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

خواجہ ابا صلت اور خواجہ مراد کے مزارات مقدسہ مشہد سے قریب ہیں، نیشاپور میں نہیں۔ آفتاب بھائی تصحیح فرمالیں۔ نیشاپور میں قدمگاہ امام رضا، چشمہ، اور اس سے ہٹ کر قریب قریب میں امام زادہ محروق، ان کے ساتھ ایک اور امام زادہ، شیخ فرید الدین عطار اور عمر خیام کے مزارات ہیں۔
ہماری پیشکش