0
Monday 21 Apr 2014 20:36

دہشت گردی کے تین اوزار، غیر قانونی سمز، ہتھیار اور گاڑیاں

دہشت گردی کے تین اوزار، غیر قانونی سمز، ہتھیار اور گاڑیاں
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پاکستانیوں سے متعلق دنیا میں زیادہ مشہور چیزیں ایسی ہیں جن سے ملک و قوم کے متعلق منفی تاثر قائم ہوتا ہے۔ ریاستی اور حکومتی عناصر کی کرپشن اور غفلت عیاں ہے۔ سوئی سے لیکر جہاز تک، ہر شے کی درآمد میں کرپٹ حکام کا کمیشن ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر میں بھی بدعنوانی کا راج ہے۔ ملک کو درپیش مسائل میں بدامنی اور دہشت گردی سرفہرست ہے۔ قانونی اور انتظامی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک غیر مصدقہ ٹیلی فون سموں، غیر قانونی ہتھیاروں اور دو نمبر موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کا کاروبار بند نہیں ہوتا، جرائم کی روک تھام ناممکن ہے۔

سی ٹی اے سی نامی ادارے نے پاکستان میں قانون کی خلاف ورزیوں، تشویشناک حد تک جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے متعلق تحقیق میں بتایا ہے کہ خراب صورتحال کی وجہ جرم اور بغیر لاِئسنس والے ہتھیار، غیر قانونی گاڑیاں اور نامعلوم ایس آئی ایم ایس (سمز) جیسے جرم کے کل پرزوں کے درمیان خطرناک گٹھ جوڑ ہے۔ اس ابتری میں بنیادی طور پر انہی عناصر کا کلیدی کردار سب سے خطرناک ہے۔
سی ٹی اے سی کے جمع شدہ اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر جاری ہونیوالی سمز، غیر رجسٹر شدہ گاڑیوں اور غیر قانونی ہتھیاروں کے پھیلاو سے متعلق صورتحال نہایت بھیانک ہے، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی یہ عام بد انتظامی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہتھیاروں کے معاملے کو ہی دیکھئے کہ جو جرائم کے تین مہلک ترین اوزاروں میں سے ایک ہے۔ سی ٹی اے سی کے مطابق صرف ہمارے پارلیمنٹیرینز کو ہی 70000 اسلحہ کے لائسنس جاری کئے گئے ہیں اور اسطرح ہماری قومی اسمبلی دنیا کی سب سے زیادہ مسلح قانون ساز اسمبلی ہے۔ ان میں سے بہت سے لائسنس تو ممنوعہ بور کے ہیں لیکن انھیں غیرقانونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 2300 ملیشیا نجی طور پر کام کر رہی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 256 کے خلاف ہے لہٰذا ان کا وجود ہی غیرقانونی ہے۔

یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں۔ تمام گروپوں کا دعویٰ ہے کہ یہ فقط تحفظ کے لیے ہیں لیکن انھیں مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں علاقہ غیر کی طرح بندوبستی علاقوں میں بھی کرائے کے قاتل زیادہ پیسے نہیں لیتے۔ بینکوں پر ڈاکے، گاڑیاں اور موبائل فون اسنیچنگ ایک الگ مثال ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سمز کے اجراء کی اجازت ایک ضابطے کے تحت  دے رکھی ہے لیکن عملی طور پر خلاف ضابطہ سمز حاصل کرنا بھی کوئی مشکل نہیں، جسکی وجہ سے اسکے مالکوں کا پتہ چلانا ناممکن ہے۔ سی ٹی اے سی کے مطابق 40000 افغانیوں کے پاس پاکستان کی سمز ہیں، جن کے کوائف کسی کو معلوم نہیں۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ قانونی طور پر رجسٹرڈ فون استعمال کرنے والوں کے ذاتی کوائف کو  فون کمپنیاں اجنبیوں کو سمز دینے کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ یہی حال موٹر گاڑیوں کے معاملے میں بھی ہے۔

سی ٹی اے سی کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی، بغیر رحسٹرڈ، اسمگل کی ہوئی اور ڈیوٹی دیئے بغیر، غیر ملکی اور جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں ہماری سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں۔ حکومت اور پولیس کے پاس خود ان قانون توڑنے والوں کی تعداد کا ریکارڈ موجود نہیں۔ سی ٹی اے سی کے اندازوں کے مطابق 30 فی صد گاڑیاں جن کی نمبر پلیٹ سبز رنگ کی ہیں جعلی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس، پی ٹی اے اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا ان کے کوائف کو چھپا کر یہ ادارے ان کے ذریعے ہونے والے جرائم اور دہشت گردی سے چشم پوشی نہیں کر رہے ہیں؟ اگر تحقیقات ہوتیں تو بہت سی ٹارگٹڈ ہلاکتوں، بم دھماکوں، بھتہ خوری اور دہشتگردی کے واقعات کو روکا جا سکتا تھا لیکن یہ ان حالات میں کیوں کر ممکن ہے جبکہ ہتھیاروں، کاروں اور موبائل فون کے مالکوں کا جو انھیں جرائم کے لئے استعمال کرتے ہیں، پتہ معلوم نہیں کیوںکہ ان کی باضابطہ رجسٹریشن موجود نہیں؟

اگر بڑے پیمانے پر قانون شکنی کے واقعات کی جانب آنکھیں بند کرنے کی وجہ بدعنوانی اور بےحسی ہے تب بھی اس کی اصلاح ممکن ہے۔ سی ٹی اے سی نے چند ٹھوس تجاویز پیش کی ہیں، جو معقول بھی ہیں اور موثر بھی۔ اول یہ کہ ہتھیاروں کو واپس لینے کے لئے ایک کمیشن قائم کیا جائےجو تمام آتشیں اسلحہ کے لائسنس منسوخ کر دے اور انھیں باضابطہ بائیو میٹرکس کے ساتھ دوبارہ جاری کرے۔ دوئم یہ کہ پی ٹی اے کو چاہیئے کہ وہ سمز اور آئی ایم ای آئیز کو رجسٹر کرنے کی یقین دہانی کرائے جو اس کے لئے ممکن ہے بشرطیکہ وہ غنڈہ گردی کی طاقتوں کے دباو میں نہ آئے اور تجارتی مفادات کو پیش نظر نہ رکھے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خود حکومت ہی حد سے زیادہ بدعنوان ہو۔ افلاس، ناخواندگی اور بیروزگاری بھی جرائم کی وجوہات بن رہی ہیں لیکن جرائم کی اصلی وجہ پولیس سسٹم کی ناکامی ہے، جو مجرموں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سنگین ترین جرائم دولتمند اور طاقتور افراد پولیس کے تعاون سے کرتے ہیں، مجرم سر سے پیر تک مسلح ہوتے ہیں جبکہ سول سوسائٹی کے متاثرہ حصوں کی جانب سے اس کی مزاحمت، اسے ایک غیر مساوی جنگ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ بے شک اس کا حل فقط حکومت کے پاس نہیں بلکہ اسکے لیے قومی سطح پر قانون پر عمل کرنے کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 374798
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش