2
0
Sunday 23 Mar 2014 17:26

لبنان میں دہشتگرد کون اور دہشتگردی کس کی مدد سے؟

لبنان میں دہشتگرد کون اور دہشتگردی کس کی مدد سے؟
تحریر: سجاد حسین آہیر
(قم المقدسہ)


19 فروری 2014ء کو لبنان میں ایرانی سیاسی اور ثقافتی مراکز کے سامنے یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں نے بیروت کو لرزا دیا اور 19 نومبر 2013ء کو لبنان میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے ہونے والے دھماکوں کی یاد تازہ کر دی۔ اگر لبنان میں آخری تین ماہ میں ہونے والے دھماکوں اور دہشت گردی کی وارداتوں پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ واقعات زیادہ تر یا تو جنوبی لبنان، بیروت کے ان علاقوں میں جہاں اہل تشیع اور حزب اللہ کے حامی زندگی گزار رہے ہیں، رونما ہوئے ہیں یا شمال اور شمال مشرقی علاقوں، جہاں پر حزب اللہ کی طرف جھکا رکھنے والے افراد رہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ انتہا پسند جو شام میں شامی فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں، حزب اللہ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، کیونکہ حزب اللہ شام میں فوج کی حمایت کے لیے عملاً وارد ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ 24 جنوری 2014ء کو قطر میں خبر رساں ایجنسی الجزیرہ نے دہشت گردوں کے ایک گروہ جبھۃ النصرہ کا ایک بیان نشر کیا کہ لبنان میں حزب اللہ کے تمام مراکز پر حملے ہوسکتے ہیں، پس تمام سنیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ان مراکز کے ارد گرد جانے سے اجتناب کریں۔

یہ بات واضح ہے کہ 70 سے زیادہ ممالک سے تعلق رکھنے والے، تکفیری گروہ حزب اللہ کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، تاکہ وہ اپنی قدرت اور طاقت کو شام میں منوا سکیں، وہ بھی ان حالات میں جب شام کی فوج ان تکفیری گروہوں کو شام میں حزب اللہ کی مدد سے شکست دے چکی ہے۔ پہلے دھماکوں کے بعد ایک سعودی نژاد اور مشہور دہشت گرد ماجد الماجد جو دہشت گردوں کا سربراہ تھا، لبنان میں گرفتار ہوگیا۔ تہران اور بیروت کے درمیان معاہدہ ہوا کہ ایران کے ماہرین کی ایک ٹیم لبنان میں اس دہشت گرد کی تفتیش کے لیے موجود رہے گی۔ اسی اثناء میں اس کی مشکوک موت کی خبر پھیل گئی اور سعودی عرب نے اپنے شہری کی میت کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور لبنانی حکومت نے تفتیش سے پہلے ہی اس کی لاش سعودی عرب کے حوالے کردی۔ اس سے قبل لبنان کی انٹیلی جنس کا سربراہ کہ جو سعودی عرب کے اتحادیوں میں سے تھا، ایک بم دھماکے میں مارا گیا اور بہت ساری اطلاعات و معلومات اس کے ساتھ ہی دفن ہوگئیں، اگر ان معلومات تک دسترس حاصل ہوجاتی تو شاید یہ ایک خفیہ کوڈ کی طرح بہت سے حقائق سے پردہ اٹھا دیتیں اور حریری کے قتل سے لے کر شام کے موجودہ حالات تک کی کڑیاں مل جاتیں۔

یہ بات بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ دہشتگرد گروہ لبنان کی فوجی اور سکیورٹی کی کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور لبنان کے شیعہ نشین مناطق میں دہشت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب کی پشتیبانی بھی دہشتگردوں کو حاصل ہے، تاکہ وہ لبنان میں ماجد کے قتل اور اسکی دہشت گردی سے منسلک انکشافات کو روک سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور آل سعود ہمیشہ مشرق وسطٰی میں ہر طرح کی ناامنی اور کشیدگی کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟ اور امریکہ بھی شام، لبنان اور عراق میں دہشتگرد گروہوں کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ اس کے پیچھے کیا اہداف پوشیدہ ہیں؟ 1932ء میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ ہوا، جس کے تحت امریکہ نے ضمانت دی کہ سعودی عرب کی سرزمین پر آل سعود کی حکومت باقی رکھی جائے گی اور سعودی عرب اس کے بدلے میں اسے تیل فراہم کرے گا۔ آل سعود تمام سلفی گروہوں کی حمایت کرتا ہے، چاہے وہ جہادی ہوں یا غیر جہادی۔ اس لیے کہ سعودی عرب میں اکثریت وہابیوں کی ہے اور وہ اہل سنت و تشیع کو قبول نہیں کرتے۔ سعودی عرب ان سلفی گروہوں کی حمایت کرکے کوشش کر رہا ہے کہ تمام عرب ممالک میں سلفیت کی موجودگی کو یقینی بنا کر نیٹ ورک کو پھیلائے، کیونکہ صرف اسی صورت میں آل سعود کی حکومت باقی رہ سکتی ہے اور اس سلسلے  میں امریکہ کا سکوت ایک فطری امر ہے۔ اس لیے کہ پوری دنیا میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حامی امریکہ ہے اور جب تک امریکہ کا اسلحہ سعودی عرب اور یہ سلفی گروہ خریدتے رہیں گے، وہ اسی حالت پہ باقی رہے گا۔ دہشتگردوں کی حمایت کرنے سے امریکہ کا اہم ترین ہدف اسلامی ممالک کو جدا جدا کرنا ہے اور اپنے اس لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سعودی عرب اور قطر کو استعمال کر رہا ہے، اسی لیے ان کے تمام اقدامات کی حمایت کرتا ہے۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ منطقہ میں ایران کے نفوذ سے سعودی عرب کس حد تک پریشان ہے اور اس اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے علاقے میں ناامنی پھیلانا چاہتا ہے، اسی لیے ان علاقوں میں دہشتگردی کی کارروائیاں کروا رہا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ شام اور عراق، ایران سے بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں، اسی لیے کوشش کر رہا ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں کو تبدیل کرکے ایران کے نفوذ کو کم کرسکے اور ساتھ ساتھ وہابیت کو پھیلانا چاہتا ہے، تاکہ اہل سنت اور اہل تشیع کا مقابلہ کرسکے۔ اس لیے سعودی عرب دہشتگرد تنظیموں کی حمایت جاری رکھے گا۔ نیز یہ بھی ہدف ہے کہ ایران کے مقابلے میں اہل سنت کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی جائے، کیونکہ سنی مسلمان بھی ایران کی اسلامی حکومت کو تقدس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے سعودی عرب شدید خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ سعودی عرب مصر میں سلفی گروہ کی بھی اس لیے امداد کر رہا ہے، تاکہ مصر اور ایران کے روابط میں رکاوٹیں کھڑی کرے۔ مصری وہابی ایران کے ساتھ تعلقات کے شدید مخالف ہیں، اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ اگر دونوں ممالک نزدیک آجائیں تو منطقہ میں ایک اہم تبدیلی وجود میں آسکتی ہے۔

اسی طرح لبنان میں دہشتگردی کی جدید اور تازہ کارروائیوں کے پیچھے سعودی عرب اور اسرائیل کا ہاتھ ہے، اگر لبنانی سیاستدان مسائل کو سمجھ نہ پائے تو ان کا ملک گرداب اور بھنور میں پھنس سکتا ہے کہ جس سے نکلنا بھی مشکل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل لبنان کا ازلی دشمن ہے اور وہ اس سے ہر ممکنہ استفادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لبنان میں مستقیم یا غیر مستقیم دخالت کرتا ہے، یہ طے شدہ ہے کہ لبنان میں پہلا ہدف حزب اللہ ہے اور اس کی وجہ حزب اللہ کی استقامت و مقاومت ہے سعودی عرب کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ شام میں حزب اللہ نے تکفیری گروہوں کا مقابلہ کیوں کیا ہے، جس کے نتیجے میں سعودی پٹھووں کو ناکامی ہوئی ہے۔ دوسری طرف حزب اللہ کی بار بار کامیابیاں عرب دنیا میں حزب اللہ کو ہیرو بنا چکی ہیں، جس سے آل سعود کی برتری کو خطرہ ہے، اور ساتھ ساتھ حزب اللہ کا تعلق وہابیت کے مخالف مکتب فکر سے ہے۔ جس کی برتری کو ہضم کرنا آل سعود کے بس کی بات نہیں ہے۔

اسی وجہ سے لبنان کے خلاف سعودی عرب نے اپنے پالتو دہشتگردوں کے ذریعے ملک کے اندرونی حالات کو خراب اور ناامنی ایجاد کرکے سب سے پہلا یہ کام کیا ہے کہ لبنانی فوج کو تین بلین ڈالر کی پیشکش کی ہے۔ اس عمل سے یہ بھی ممکن ہے کہ لبنانی فوج کی اسلحہ کے حوالے سے مدد کرکے حزب اللہ کو کمزور کرنا مقصود ہو۔ اسرائیلی ٹی وی نے بھی اسی بات کی تائید کی ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ کی اس پیشکش پہ اسرائیلی ٹی وی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ اس کا پھل اسرائیل کی گود میں گرے گا۔ لبنانی صدر نے اس امداد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی امداد ہوگی، لبنان کے صدر نے کہا ہے یہ امداد سعودی عرب، فرانس کے حوالے کرے گا، تاکہ وہ فوج کی ضرورت کے مطابق لبنان کو اسلحہ فراہم کرے۔ پہلے اگر اس طرح کی کوئی قرارداد ہوتی تھی تو اسرائیل، چیخ اٹھتا تھا کہ اس سے منطقہ کی امنیت خراب ہوگی، لیکن اب اتنی بڑی امداد کا وہ بھی خوشی سے استقبال کر رہا ہے اور اس نے طاقت کا توازن بگڑنے کی کوئی بات نہیں کی۔

لبنانی صدر نے اپنی تقریر میں نعرہ لگایا کہ ''سعودی عرب، لبنان زندہ باد'' یعنی ان نعروں میں بھی سعودی عرب کا نام لبنان سے پہلے لیا ہے، بہت سارے لوگ اس بات پر تعجب کر رہے ہیں کہ معلوم یہ ہوتا تھا کہ یہ مقرر سعودی عرب کا ایک وزیر ہے نہ کہ لبنان کا صدر۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی امداد کے بارے غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس حساس دورانیہ میں مدد کا کیا مقصد ہے۔؟ کیا ایسی حکومت تشکیل دینا مراد ہے جس میں حزب اللہ کا عمل دخل نہ ہو۔؟ اس رقم کی ادائیگی کے بدلے میں سعودی عرب کی یہ شرط ہے کہ ایسی حکومت تشکیل دی جائے کہ جو ریاض کے مطالبات اور نظریات کے مطابق ہو اور آئندہ لبنان کی سیاست ریاض کے ہاتھوں میں ہو۔؟ سعودی عرب اور اس کے حلیف اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعودی عرب اور فرانس کا یہ نیا کھیل لبنان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، اس لیے کہ لبنان کے سیاسی گروہ اس بات کی شدت سے مخالفت کریں گے۔ لبنانی صدر نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے جو رقم فرانس کو ادا کی ہے، ہمیں پیرس سے امید ہے کہ اس کے مراحل کو جلد طے کیا جائے گا۔ لبنانی صدر اور ریاض کے درمیان آخری ملاقات میں یہ شرط بھی رکھی گئی کہ یہ مدد صرف لبنان اور حزب اللہ کی مقاومت کے خلاف استعمال کی جائے اور اس سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سودے بازی میں سعد الحریری کا بھی عمل دخل ہے کہ جو دو سال سے لبنان سے باہر ہے اور اس کی آمد و رفت ریاض اور پیرس میں ہے۔ ادھر لبنانی صدر کی گفتگو کے بعد سعد حریری نے بھی اس کی تائید کی ہے۔

کلی طور پہ کہا جاسکتا ہے کہ لبنان کے اندر دہشتگردی کی حالیہ لہر کے پیچھے ہدف یہ ہے کہ اس ملک میں خانہ جنگی ہو اور مقاومت و قدرت ضعیف ہو، اگر لبنانی عہدیداروں نے دقت سے کام نہ لیا، جیسا کہ سلیمان نے بڑے فخر سے اعلان کیا ہے کہ میں کئی دہائیوں کی کوشش کے بعد کامیاب ہوا ہوں کہ شاہ عبداللہ سے رابطہ کروں اور فوج کی مضبوطی کے لئے استثنائی مدد طلب کروں، میرے لیے مسرت کا باعث ہے کہ میں یہ بات ملت لبنان تک پہنچا رہا ہوں، تو لبنان دوسری قدرتوں کے لیے اکھاڑا بن جائے گا کہ جو کبھی بھی ملت لبنان کے فائدے میں نہیں ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا۔ اس لیے کہ بم دھماکہ سے دو دن پہلے تکفیری گروہ عبداللہ عزام کے سرپرست سراج الدین نے ایک ریکارڈنگ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ بیروت میں بمب دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا، تاکہ لبنان کی وحدت ملی کو نابود کرسکیں اور شام میں اپنی شکست کا لبنان میں ازالہ کرسکیں، نیز یہ کہ شام میں موجود تکفیری گروہوں کو حوصلہ دے سکیں۔ اگرچہ یہودی و صیہونی اور تکفیری گروہوں میں ظاہراً کوئی رابطہ نظر نہیں آ رہا، لیکن سعودی سربراہان کی صیہونیوں سے ملاقاتیں اور سعودی انٹیلی جنس کا لبنان کو دھمکی دینا اور شام میں تکفیری گروہوں کی ناکامی، یہ سب اس حقیقت پر دلیل ہیں کہ ان دونوں کا مشترکہ مفاد یہ ہے کہ لبنان کی وحدت ملی کو مخدوش کیا جائے اور حزب اللہ پر قدرت مند ترین اور سب سے بڑا سیاسی گروہ ہونے کا الزام لگایا جائے۔ یہ وہ ہدف ہے کہ جس کے پیچھے کئی سالوں سے صہیونیستی اور اس منطقہ کے شیخ ہیں۔

لبنان کے جنوب و شمال میں ہونے والی جنایات ہوں یا عراق کے کئی شہروں میں ہونے والے واقعات، ان سب میں سعودی عرب کا ہاتھ نمایاں ہے اور اس بات میں کس قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ سعودی عرب کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ معصوم لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ آل سعود کی دہشتگردوں کی پشت پناہی کا اصلی ترین ہدف اپنی حکومت کا تحفظ کرنا ہے۔ آج سعودی عرب پوری معصوم بشریت کے خون میں اپنے ہاتھ رنگنے کو تیار ہے اور ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ سعودی عرب ان جنایات کو مخفی نہیں رکھ سکتا۔
خبر کا کوڈ : 364933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ آہیر صاحب
Bohat khob _where sad
ہماری پیشکش