0
Friday 27 Jun 2014 07:33

نبی کریمؐ کی 9 میں سے ایک تلوار "العضب"

نبی کریمؐ کی 9 میں سے ایک تلوار "العضب"
رپورٹ: ایس این حسینی
 
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا نام ضرب عضب، پیغمبر اسلام کی ایک تلوار کے نام پر رکھا گیا ہے۔ العضب کے معنی، تیز چلنے والی اور تیز دھار تلوار ہیں۔ پیغمبر اسلام کو یہ تلوار صحابی سعد بن عبادہ الانصاری نے غزوہ اُحد سے قبل تحفے میں دی تھی۔ آپ نے یہ تلوار اُحد میں ابو دجانہ الانصاری کو لڑنے کے لئے دی۔ یہ تلوار اب مصری شہر قاہرہ کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے وابستہ ہر چیز مسلمانان عالم کے لئے متبرک اور مقدس ہے، دنیا کے گوشے گوشے میں عام عجائب گھروں یا کسی مسجد کے منی عجائب گھروں میں آپؐ سے منسوب اشیاء آج بھی موجود ہیں، تاریخی شواہد سے یہ بات ثابت ہے کہ آپؐ کے پاس 9 تلواریں تھیں، جن میں سے 2 انھیں وراثت میں ملیں اور 3 مال غنیمت میں حاصل ہوئیں۔ جبکہ عضب نامی تلوار انھیں تحفے میں ملی تھی۔ ان نو میں سے 8 تلواریں ترکی کے شہر استنبول میں واقع، توپ کاپی نامی عجائب گھر میں محفوظ ہیں، جبکہ صرف ایک یعنی عضب تلوار مصر کی ایک جامع مسجد میں موجود ہے۔

پیغمبر اسلام کی تلواروں کے نام اور تفصیل: 
الماثور: 
اس تلوار کو ماثور الفجر بھی کہتے ہیں اور یہ پیغمبر اسلام کو اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔ اس تلوار کا دستہ سونے کا اور اطراف سے مڑا ہوا ہے جس پر زمرد اور فیروزے جڑے ہیں۔ اس تلوار کی لمبائی 99 سینٹی میٹر ہے۔ یہ تلوار پیغمبر اسلام نے بعد میں اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب کو دے دی تھی۔ اب یہ تلوار ترکی شہر استنبول کے عجائب گھر توپ کاپی میں موجود ہے۔ 

الرسّوب:
 
الرسّوب من السیوف کے معنی ہیں، اندر گھس جانے والی تلوار۔ اس کی لمبائی 140سینٹی میٹر ہے۔ اس تلوار کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نسل در نسل منتقل ہوتی، پیغمبر اسلام تک پہنچی۔ اس تلوار پر سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں، جن پر امام جعفر الصادق کا نام کندہ ہے۔ یہ تلوار بھی ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔ 

البتّار: 
البتّار کا معنی السيف القاطع یعنی کاٹ دینے والی تلوار ہے۔ روایات کے مطابق اس تلوار کا اصل مالک جالوت تھا، جس کا نبی حضرت داؤد نے 20 برس کی عمر میں سر قلم کر دیا تھا۔ تلوار پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی ہے جس میں حضرت داؤد جالوت کا سر قلم کرتے دکھائے گئے ہیں۔ تلوار پر ایک ایسا نشان بھی بتایا جاتا ہے جو تراشیدہ چٹانوں کی وجہ سے منفرد شہرت حاصل کرنے والے اردن کے بترا نامی شہر کے تقریباً دو ہزار قدیم باشندے اپنی ملکیتی اشیا پر بنایا کرتے تھے۔
اس تلوار کو سیف الانبیا یعنی نبیوں کی تلوار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس پر انبیاء حضرات داؤودؑ، سلیمانؑ، ہارونؑ، یسعؑ، زکریاؑ، یحییٰؑ، عیسیٰؑ اور پیغمبرِؑ اسلام علیہم السلام کے نام کنندہ ہیں۔ اس تلوار کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اسی تلوار سے دجال کا مقابلہ کریں گے۔ 101 سینٹی میٹر لمبی یہ تلوار پیغمبرِ اسلام کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مالِ غنیمت میں حاصل ہوئی اور اس وقت یہ توپ کاپی میں محفوظ ہے۔ 

الحتف:
 
حتف کے معنیٰ ہیں مارنا، حتف السیف یعنی مار دینے والی تلوار۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس بنی اسرائیل کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل محفوظ چلی آ رہی تھی۔ یہ بھی پیغمبر اسلام کو بنو قینقاع سے مالِ غنیمت میں حاصل ہوئی۔ روایات کے مطابق یہ تلوار حضرت داؤود نے خود بنائی تھی۔ وہ لوہے کا سازو سامان اور ہتھیار بنانے میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ یہ تلوار البتّار کی طرز پر ہی بنی ہوئی ہے لیکن سائز میں بڑی ہے۔ تلوار کی لمبائی 112 سینٹی میٹر اور چوڑائی آٹھ سینٹی میٹر ہے۔ یہ تلوار بھی اب توپ کاپی میں محفوظ ہے۔ 

القلعی: 
خوبصورت میان والی یہ تلوار بھی البتّار اور الحتف کی طرح پیغمبر اسلام کو یثرب کے قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس تلوار کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام کے دادا عبدالمطلب نے اس تلوار کو اور ہرنوں کے سونے سے بنائے گئے دو مجسموں کو چاہِ زمزم سے نکلوایا تھا اور یہ کہ انھیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سسرالی قبیلے نے دفن کیا تھا۔ القلعی کے نام کی وجہ اس کا شام، ہندوستان یا چین کے سرحدی علاقے سے تعلق ہونا بعید نہیں، جبکہ محققین کا ایک حلقہ یہ دلیل بھی دیتا ہے کہ قلعی ایک قسم کی دھات کا نام ہے جو دیگر دھاتی چیزوں کو چمکانے یا ان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے۔ اس تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے۔ اب یہ تلوار بھی ترکی کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ 

الذوالفقار:
 
اس تلوار کی شہرت دو دھاری ہونے اور اس پر بنے ہوئے دو نوک والے نقش و نگار کی وجہ سے ہے۔ مصدقہ روایات کے مطابق یہ تلوار جنگِ بدر میں پیغمبرِ اسلام نے علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کو اس وقت عطا کی، جب لڑائی کے دوران یکے بعد دیگرے امام علیؑ کی کئی تلواریں ٹوٹیں اور بار بار نئی تلوار تبدیل کی۔ بالآخر اللہ تعالی کی جانب سے نبی کریم پر یہ تلوار نازل ہوئی، اور جب اگلی مرتبہ امام علیؑ نے تلوار کا مطالبہ کیا تو نبی کریمؐ نے اسے جنگ بدر ہی کے دوران اسے علیؑ کو عطا کیا۔ اور جو پھر کبھی نہ ٹوٹی، اکثر حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تلوار انکے خاندان کے پاس نسل در نسل منتقل ہوتی رہی، اور قیامت کے قریب جب رسول اللہ کے بارہویں نائب برحق جو انہی کے نسل سے ہونگے، امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے، تو انکے دست مبارک میں یہی تلوار ہوگی، تاہم اسکے متعلق بھی یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس وقت یہ توپ کاپی عجائب گھر میں ہی میں رکھی ہوئی ہے۔ 

المِخذم: 
اس کے بھی معنیٰ ہیں، کاٹ دینے والی۔ اس تلوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علی ابنِ ابی طالب کو شامیوں کے ساتھ ایک معرکے میں مال غنیمت کے طور پر ملی تھی۔ تاہم دوسری رائے یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام ہی نے یہ تلوار علی ابنِ ابی طالب کو خود دی تھی جو ان کے ہاں نسل در نسل رہی۔ اس تلوار پر زین العابدین کے الفاظ کنندہ ہیں۔ اس تلوار کی لمبائی 97 سینٹی میٹر ہے اور یہ تلوار بھی توپ کاپی میں رکھی گئی ہے۔ 

القضیب:
 
قضیب کے معنیٰ ہیں کٹی ہوئی شاخ یا بغیر سدھائی ہوئی اونٹنی۔ یہ تلوار پتلی اور بہت کم چوڑائی والی ہے۔ یہ تلوار پیغمبر اسلام کے پاس تو ضرور رہی لیکن اس سے کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ تلوار پر چاندی سے ‘‘لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب’’ کے الفاظ کنندہ ہیں۔ تلوار ہمیشہ پیغمبرِ اسلام کے گھر میں موجود رہی۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمیوں کے عہد میں اس تلوار کو استعمال کیا گیا تھا۔ تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور اس تلوار کی میان کسی جانور کی کھال کی بنی ہوئی ہے۔ یہ تلوار بھی ترکی کے توپ کاپی عجائب گھر، استنبول میں محفوظ ہے۔ 

العضب:
 
العضب کے معنی ہے تیز چلنے والی، تیز دھار والی تلوار۔ پیغمبر اسلام کو یہ تلوار انکے صحابی اور قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ الانصاری نے غزوہ اُحد سے قبل بطورِ تحفہ دی۔ آپ نے جنگ اُحد میں یہی تلوار ابو دجانہ الانصاری کو لڑنے کے لئے عطا فرمائی۔ یہ تلوار مصر کے شہر قاہرہ کی مشہور جامع مسجد، مسجد الحسین بن علیؑ میں محفوظ ہے۔
خبر کا کوڈ : 395434
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش