0
Tuesday 1 Jul 2014 20:57

تکفیری حملوں میں شدت اور پاکستان میں دہشتگردی کا طوفان

تکفیری حملوں میں شدت اور پاکستان میں دہشتگردی کا طوفان
تحریر: علی ناصر الحسینی

موجودہ حالات میں تکفیری اپنی سفاکانہ کارروائیوں کے ذریعے مختلف ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ تکفیری گروہ کا نشانہ شیعہ ممالک، شخصیات، مقامات اور مراکز بنے ہوئے ہیں اور ایسا تاثر بن رہا ہے کہ شیعہ و سنی لڑائی نے پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے مگر حقائق کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس پراپیگنڈہ اور تاثر بنانے میں مغربی میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا کردار بڑا واضح اور نمایاں ہے۔ مختلف ممالک میں دہشت گردانہ حملے کرنے والے، مزارات مقدس کو شہید کرنے اور قبور ہائے انبیاء کو مسمار کرنے والوں کو سنی شدت پسند یا جنگجو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع کہیں بھی باہم برسرِ پیکار نہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے مقدسات کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ استعمار کے آلۂ کار، صیہونزم کے تربیت یافتہ اور امریکی کانگریس اور سعودی تیل کے بجٹ پر پلنے والے خوارج اسلام کی شکل کو بدنما کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی ڈوریاں امریکی سی آئی اے ہلاتی ہے۔ شام میں انہیں بدترین شکست ہوئی ہے اور سعودی، امریکی، قطری، ترکی اور اردن جیسے ممالک کی انویسٹمنٹ ضائع ہوتی دیکھی جا رہی ہے۔ اب ان لوگوں نے اپنی قبروں کے لیے عراق کے ان علاقوں کو چنا ہے جہاں اہل سنت کثرت سے آباد ہیں۔ یہ لوگ کربلا، نجف، سامرہ پر قبضہ کے خواب اور مقصد لے کر سامنے آئے ہیں، مگر ان کی درگت بنانے کے لیے عراق کی مرجعیت نے ملت عراق کو ان سے برسرِ پیکار ہونے اور جہاد کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، جس کے بعد لاکھوں عراقی نوجوان مقدسات اسلامی کے دفاع کے لیے خود کو پیش کرچکے ہیں۔ انشاءاللہ تعالٰی امام وقت کی نصرت سے مجاہدین اسلام ناب محمدی اور فرزندان کربلا و عاشورا انہیں جلد ان کی اوقات یاد کروا دیں گے بلکہ جن ممالک کی مدد اور سازش سے یہ تکفیری گروہ سامنے آیا ہے، ان کی سرزمینوں پر انہیں دھکیل دیا جائے گا، جس کے بعد وہ تماشہ جو عراق یا شام میں لگانے کی خواہش کی گئی ہے انہی ممالک میں دیکھا جائے گا۔

شام و عراق کے بعد پاکستان وہ ملک ہے جہاں یہ تکفیری گروہ گذشتہ تیس برسوں سے اپنی کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں ان کی کارروائیوں کے نتیجہ میں اب تک ہزاروں شیعیان علی ؑ شہادتوں سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ تکفیریوں کا مرکز وزیرستان آج کل فوجی آپریشن کی زد میں ہے اور وسیع پیمانے پر افواج پاکستان ان کو جہنم کی راہ دکھا رہی ہیں مگر ہمارے ملک میں ان تکفیریوں کی جڑیں بہت مضبوط اور ان کے سرپرست دفاعی اداروں کی قربتوں کا لطف اُٹھانے والے ہیں، اسی وجہ سے اب تک ان کا زور اور اثر ختم نہیں ہوسکا۔ حالیہ دنوں میں اگر ہم ان کی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو سانحہ تفتان نے ہمارے قلوب کو زخمی کر دیا ہے، جہاں 9 جون کو ایران سے آنے والے زائرین کو نشانہ بنایا گیا اور سفاکیت و درندگی کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق ایران سے آنے والے زائرین بارڈر(تفتان) پر قائم دو شیعہ ہوٹل المرتضٰی اور ھاشمی ہوٹل میں قیام پذیر تھے اور ان کی گاڑیاں بھی ہوٹلز کے باہر کھڑی تھیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق زائرین کا سامان بھی گاڑیوں پر لوڈ تھا کہ دہشت گرد پہنچ گئے اور فائرنگ شروع کردی، بم پھینکے اور ہوٹل کے اندر گھس کے خودکش حملہ بھی کردیا۔ جو لوگ تفتان بارڈر گئے ہیں اور وہاں انہیں رات گذارنے کا تجربہ ہوا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بارڈر پر یہی دو ہوٹلز اہل تشیع کے ہیں، جو کسی نعمت سے کم نہیں تھے، ان ہوٹلز کا عملہ شیعہ اور نسبتاً بااخلاق اور معاون ہوتا تھا۔ بارڈر پر زائرین مجبوری کے باعث رہتے ہیں وگرنہ کسی کا پروگرام نہیں ہوتا۔ یہ علاقہ مکمل طور پر دشمنان تشیع اور متعصب بلوچوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ یہاں جند اللہ، لشکر جھنگوی اور دیوبندی مکتب کی مذہبی سیاسی جماعتیں فعال ہیں۔ حساس بارڈر ہونے کے باعث یہاں پاکستانی حساس اداروں کا بھی وسیع نیٹ ورک ہے، جن کی نگاہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی۔ جن ہوٹلز پر حملے کیے گئے تھے یہ تفتان کے مرکزی بازار اور مارکیٹوں میں ہیں، یہ مارکیٹیں اور بازار ایرانی مصنوعات اور اشیاء سے بھرے پڑے ہیں۔ تفتان بارڈر پر پاکستانی امیگریشن آفسز میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں پانی پینے کے قابل نہیں، پانی پینا ہو تو ایران کی طرف سے لایا جاتا ہے اور اس پسماندہ ترین علاقے کے عوام پر ایران کا یہ احسان کیا کم ہے کہ یہاں بجلی بھی ایران کی طرف سے مفت فراہم کی جاتی ہے۔

یہ بات نہایت تشویشناک ہے کہ بلوچستان میں زائرین مسلسل دہشت گردوں کے حملوں کا شکار ہیں۔ ان حملوں کے خلاف پوری دنیا میں دھرنے دیئے گئے اور پاکستان کی تاریخ کا منظم ترین احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ سو سو لاشیں سامنے رکھ کر پرُامن احتجاج کیا گیا ہے، پاکستان کے تمام اہم روڈز اور شاہراہیں بند کی گئی ہیں مگر قتل و غارت، دہشت گردی و آگ و خون کا یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔ ماضی کی حکومتوں سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک اس اہم ترین مسئلہ کو اہمیت نہیں دے رہے اور نہ ہی قریب قریب میں حکمرانوں کی ترجیح دکھائی دیتی ہے کہ اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ نہایت افسوس ناک امر یہ ہے کہ جب اس طرح کے سانحات رونما ہوتے ہیں تو حکمران روایتی انداز میں بیان دیتے ہیں، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے مگر کوئی عملی اقدام نہیں اُٹھایا جاتا۔ اس بار تو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے انتہائی احمقانہ بیان دیا، جس سے یہ تاثر سامنے آرہا تھا کہ جیسے ان واقعات کی ذمہ داری بائی روڈ جانے والے زائرین پر عائد ہوتی ہے۔ نہ وہ بائی روڈ جائیں نہ یہ واقعات ہوں اور انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ حکومت اتنے طویل راستے کو محفوظ نہیں بنا سکتی۔ ممکن نہیں کہ کوئٹہ سے تفتان تک کے طویل راستے کو دہشت گردوں سے محفوظ بنایا جاسکے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ حکمران اتنے طویل راستے کو محفوظ نہیں بنا سکتے اور وہ حکمران تو بالکل اس قابل نہیں جو ملک کے اہم ترین ائیر پورٹس، ملکی دارالخلافہ اور حساس مقامات کو دہشت گردوں کی پہنچ سے محفوظ نہیں رکھ سکے۔ اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو حق حکمرانی نہیں، جب عوام کے مال و جان اور اہم ملکی مراکز کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تو گھروں کو جائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ راستہ محفوظ بنانا ممکن نہیں تو آپ نے متبادل کیا دیا ہے۔ آپ نے کراچی سے فیری سروس کے آغاز کی جھوٹی طفل تسلی دی، اس کو عملی کیوں نہیں کیا جا رہا؟ آپ تحفظ نہیں دے سکتے تو زائرین کے لیے بائی ائیر کے سستے پیکج متعارف کروائیں، تاکہ غریب لوگ جو اتنے خطرات کو مول لے کر زیارت کے لیے جاتے ہیں، انہیں بائی ائیر جانے میں دقت نہ ہو۔

بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ اس میں لشکر جھنگوی کے وہ عناصر ملوث ہیں جن کے روابط پاکستان کے بعض اداروں سے ہیں۔ اس لیے کہ بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے اس صوبے میں خفیہ اداروں اور فورسز کا وسیع نیٹ ورک قائم ہے جو ایک ایک بندے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود یہاں لشکر جھنگوی، جند اللہ اور دیگر دہشت گرد گروہ منوں اور ٹنوں کے حساب سے بارود و اسلحہ لے کر جہاں چاہتے ہیں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بات بہرحال ملکی سلامتی کے اداروں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر ان میں ایسے عناصر نہیں ہیں جو تکفیری دہشت گردوں کی سرپرستی نہیں کر رہے تو ان دہشت گردوں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ وہی انصاف جو پورے بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں سے کیا جاتا ہے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اتنے برسوں سے اس خطے میں مسلسل ایک مکتب کے پیروکاروں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ان واقعات کو کھلے عام تسلیم کیا جاتا ہے، اخبارات و الیکٹرانک میڈیا میں فیکس و فون کرکے تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ کارروائی انہوں نے کی ہے، پھر انہیں پکڑنے میں کون سی چیز مانع ہے؟

زائرین پر حملے اور قومی قیادتیں ایک پہلو:۔
جب بھی زائرین پر حملے ہوتے ہیں تو بائی روڈ قافلے روک دیئے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ کاروان کانوائے کی صورت میں صوبائی انتظامیہ کی اجازت اور سکیورٹی میں روانہ کئے جاتے ہیں۔ جس کے بعد ہماری قومی جماعتیں اور قیادتیں اس ظلم کے خلاف کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے کے بجائے اس بات میں جت جاتی ہیں کہ حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ قافلوں کا سلسلہ جاری رکھیں اور انہیں سکیورٹی فراہم کریں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ قومی جماعتیں اس بات کے کریڈٹ کو اپنے نام لگوانے کے لیے اس قدر زور لگاتی ہیں کہ جیسے اس کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی نہیں اور اس حوالے سے ایک اور شخصیت کا موقف یہ رہا ہے کہ اس سلسلے (بائی روڈ سفر) کو کچھ عرصہ کے لیے مکمل روک دیا جائے۔ زائرین کی آڑ میں اس خطے کے اسمگلرز، ٹرانسپورٹرز اور دیگر بہت سے طبقات جو تجارت کرتے ہیں اور اسمگلنگ جاری رکھے ہوئے ہیں ان کو سبق مل جائے گا، جس پر وہ خود ان عناصر کو بے نقاب کریں گے، جو ان کے مالی مفادات کو زک پہنچانے میں کوشاں ہیں۔

بات کرنے کا مقصد کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں بلکہ اس صورتحال کو قوم کے سامنے لانا ہے کہ ملت کی قیادتیں اس حساس، اہم ایشو پر کس قدر تقسیم ہیں اور اس تقسیم کا نقصان ملت کس شکل میں اٹھا رہی ہے، اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ قوم کے بزرگان، علماء، عمائدین، تنظیموں اور اداروں کو اس پر مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے اور مشترکہ موقف اختیار کرکے حکومتوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ ان غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اس اہم عوامی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات اُٹھائے۔ اگر اتحاد و وحدت اور مشترکہ موقف اختیار کرکے ہم نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو اس طرح کے واقعات و سانحات ہوتے رہیں گے۔ معصوم و بے گناہ زائرین و مومنین دہشت گردوں کی دہشت و بربریت کا شکار ہوتے رہیں گے۔ ظلم کی یہ آندھیاں یونہی چلتی رہیں گی۔ تکفیری ہم پر مسلط ہوجائیں گے۔ خدانخواستہ ہم آنے والی نسلوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے۔

ماہِ جون میں ہونیوالے ملک کے مختلف حصوں میں اہم سانحات اس طرح ہیں

یکم جون:
کراچی، سید احمد علی زیدی ولد سید عابد علی زیدی کو لیاقت آباد ڈاکخانہ کے پاس فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔
3 جون:
 کراچی، ساجد علی جعفری کو عزیز آباد بنگوریہ گوٹھ کے علاقے میں فائرنگ سے شہید کر دیا گیا۔
7 جون:
 کراچی، سید فضل حسین زیدی کو جاوید ہسپتال جہانگیر آباد کے نزدیک فائرنگ سے شہید کردیا گیا، جبکہ جے ڈی سی کی ایمبولینس پر فائرنگ سے اہل سنت ڈرائیور راحیل خان کو شہید کر دیا گیا۔
9 جون:
 کراچی، ناظم آباد میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے دو بھائی محمد نذیر اور محمد بشیر شہید
9 جون:
 تفتان، ایران سے آنے والے زائرین پر دہشت گردوں کا خودکش حملہ 29 شہید، 3 مومنین کا تعلق کوئٹہ جبکہ 26 کا تعلق ضلع کوہاٹ سے تھا۔
14 جون:
کراچی، گلستان جوہر میں ایک دکان پر بیٹھے قیصر علی زیدی ولد ابن رضا اور شعیب علی ولد عاقل علی شہید کر دیئے گئے۔ پی آئی بی کالونی میں بھی دکان پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے شیعہ جوان شہر یار عباس شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔
16 جون:
ہنگو، فرھاد علی ولد عاصم علی شہادت سے ہمکنار، 30 اپریل کو فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔
16 جون:
کراچی، اکرم علی ولد ضامن علی عزیز آباد کالونی میں ایک دکان پر فائرنگ سے شہید
26 جون:
کراچی، گلستان جوہر میں شیعہ نوجوان اکبر حسین دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئے۔
30 جون:
کراچی، سرجانی ٹاؤن میں کے ڈی اے فلیٹس کے قریب دہشت گردوں نے فائرنگ سے شیعہ نوجوان مظہر نقوی کو شہید کر دیا۔
خبر کا کوڈ : 396712
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش