2
0
Saturday 29 Mar 2014 00:13

عمار یاسر اور اویس قرنی رضوان اللہ علیہم سے دشمنی

عمار یاسر اور اویس قرنی رضوان اللہ علیہم سے دشمنی
تحریر: سید اسد عباس تقوی

دنیا میں آئے روز بہت سے ایسے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں، جن کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ جب اسی طرح کی کوئی خبر کانوں میں پڑتی ہے تو عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ اگرچہ بری خبریں سن سن کر ہمارے اعصاب اتنے مضبوط ہوچکے ہیں یا ان واقعات پر ردعمل ظاہر کرنے کی ہماری قوت اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ بڑے سے بڑی خبر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کوئٹہ میں سو افراد ایک ساتھ قتل کیے جائیں یا پارا چنار کے راستے پر مسافروں کو اتار کر ان کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔، بلتستان جاتے ہوئے کسی بس سے ایک خاص مسلک کے لوگوں کو اتار کر بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا جائے یا کوئی خاتون تھانے کے سامنے خود سوزی کرکے جل مرے۔ غریب اپنی غربت سے تنگ آکر اپنی اولاد کا گلا گھونٹ دے یا اپنی عزت کو بازار میں نیلام کر دے، ہمارے لیے بہت ہی عام سی باتیں بن چکی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم ان واقعات پر اظہار تاسف کرتے ہیں اور پھر زندگی کا پہیہ اپنی ڈگر پر چل پڑتا ہے۔ 

اسی قسم کا ایک اندوہناک واقعہ گذشتہ جمعرات شام میں پیش آیا۔ شام میں لڑنے والے تکفیری جنگجوؤں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت عمار یاسر رضی اللہ عنہ اور حضرت اویس قرنی کے مزارات جو رقہ کے علاقے میں واقع ہیں، کو دھماکے سے نقصان پہنچایا۔ یہ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ مزار کا بیرونی حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا جبکہ اندرونی حصے کو بھی نقصان پہنچا۔ شام میں یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ سال ان تکفیریوں نے صحابی رسول حضرت حجر بن عدی کے مزار پر حملہ کیا اور ان کی قبر کشائی کی۔ اسی طرح انہوں نے دھمکیاں دیں کہ ہم آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزارات بالخصوص رسول خدا (ص) کی نواسی حضرت زینب (س) کے مزار پر حملہ کریں گے اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو ہم نے حجر بن عدی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مزار کے ساتھ کیا۔

بدن کانپ اٹھتا ہے یہ سوچ کر کہ رسول اکرم (ص) کی نواسی نے ان تکفیریوں کا کیا بگاڑا ہے۔ سیدہ سکینہ (س) بنت حسین علیہ السلام نے ان تکفیریوں کو کیا نقصان پہنچایا کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود ان ہستیوں کے مزارات خطرات کا شکار ہیں۔ ابھی چند سال قبل ان تکفیری دہشت گردوں نے فرزندان رسول (ص) امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے مزارات کو مسمار کیا۔ یہ تکفیری فکر فقط شام یا عراق میں ہی نہیں، دنیا کے ہر کونے میں اولیاء اللہ کے مزارات کی دشمن ہے۔ مزارات سے دشمنی اور ان کی توہین کا سلسلہ تاریخ اسلام میں کچھ نیا نہیں۔ ایک روایت کے مطابق امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسی بے حرمتی کے خوف سے ایک اپنی زوجہ اور دختر رسول (ص) سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا کی چالیس قبور بنائیں۔ بنی امیہ کے دور میں قبر شکنی کا عمل جاری رہا، پھر بنی عباس کے دور میں ابتدا بنی امیہ سے منسوب قبور کو مسمار کیا گیا اور پھر نوبت خانوادہ رسول (ص) تک آن پہنچی۔ تاریخ کہتی ہے کہ متعدد بار امام حسین (ع) کے مزار کو مسمار کرنے کی کوشش کی گئی ۔

قبور کے مسمار کرنے کا یہ سلسلہ ابتدا سیاسی وجوہات کی بنا پر تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسے مذہبی معاملہ بنا دیا گیا اور پھر ایک تحریک کی شکل میں مزارات کو مسمار کرنے کا آغاز ہوا۔ آج خدا کے رسول (ص) کی سرزمین پر آپ کو کسی بھی صحابی، امام یا تابعی کا مزار نہیں ملے گا۔ نہ جانے رسالت مآب (ص) اور ان کے ساتھ مدفون اصحاب کی قبور کس طرح اس مذہبی تحریک سے بچ گئیں۔ آج دنیا بھر میں جہاں بھی اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین یا آل رسول علیہم السلام کے مزارات کی توہین کا معاملہ سامنے آتا ہے، کے پیچھے یہی فکر کار فرما ہے۔

شورش کاشمیری اس فکر پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شرک کو بنیاد بنا کر مسلم اکابرین کے مزارات کو مسمار کرنا کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں بہت سی اقوام آباد ہیں۔ ہر قوم اپنے اکابرین کے مزارات اور ان کی یادگاروں کا تحفظ کرتی ہے، جو کہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک اثاثہ ہوتی ہیں۔ ان اقوام میں عیسائی اور یہودی بھی شامل ہیں، تاہم ہم نے نہیں دیکھا کہ اسلام سے دور، ان اقوام نے ان صاحبان مزار کی پوجا شروع کر دی ہو۔ اگر اسلام سے بے بہرہ اقوام جنہیں ہم گمراہ بھی تصور کرتے ہیں، نے اپنے اکابر کی پوجا شروع نہیں کی تو مسلمانوں سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ جن مزارات پر ادب و احترام سے حاضری دیتے ہیں، ان کی پوجا شروع کر دیں گے۔

حضرت عمار یاسر اور حضرت اویس قرنی رضوان اللہ تعالٰی علیہما مسلم دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ رسول خدا (ص) کے یہ دونوں جلیل القدر اصحاب رسالت مآب (ص) کے سچے عشاق اور پیروکار تھے۔ اویس قرنی کی رسالت مآب (ص) سے محبت اور زہد و تقویٰ کی داستانیں عام ہیں۔ رسالت مآب اویس قرنی کے بارے میں فرماتے تھے:
"قرنی کی طرف سے نسیم بہشت آرہی ہے، اے اویس قرنی، میں تجھے دیکھنے کے لیے سخت مشتاق ہوں، آگاہ رہو، جو بھی اس سے ملاقات کرے گا، میرا سلام اس تک پہنچانا۔‘‘
آپ کے زہد کے بارے میں رسالت مآب (ص) نے فرمایا:
"میری امت میں کچھ ایسے افراد ہیں، جو لباس کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسجد میں حاضر نہیں ہوسکتے ہیں اور ان کا ایمان لوگوں سے مدد طلب کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے، ان افراد میں سے اویس قرنی ہے۔"

اسی طرح عمار یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اکرم (ص) کے قریبی رفقاء اور پہلے پہل اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے۔ آپ کے والدین اسلام کے پہلے شہداء ہیں۔ آپ کے بارے میں رسالت مآب کی ایک حدیث کتب احادیث میں یوں درج ہے:
خالد العرنی نے کہا میں اور ابو سعید خدری، حذیفہ کے پاس آئے اور ہم نے کہا ابوعبد اللہ (حذیفہ) وہ حدیث جس کو تم نے فتنہ کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے، ہمارے لئے بیان کیجئے۔ حذیفہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:
"قرآن کے پیچھے چلتے رہو وہ جہاں بھی جائے۔ ہم نے کہا جب لوگوں میں اختلاف ہوجائے تو پھر کس کے ساتھ ہونا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا، اس جماعت کو دیکھو جس میں سمیہ کا بیٹا ہے اور اسی جماعت کے ساتھ چپکے رہو۔"
حذیفہ کہتے ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابن سمیہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا کیا تم اسے نہیں جانتے ہو؟ میں نے کہا آپ اسے معین کر دیجئے، آپ نے فرمایا: "عمار بن یاسر" میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ آپ نے عمار سے کہا "اے ابو یقظان تم اس وقت تک نہیں مروگے جب تک تمہیں ایک باغی جماعت قتل نہ کر دے۔" (اس روایت کے متعدد طرق صحیح السند ہیں)
اللہ اور اس کے رسول (ص) کے پیاروں کے مزارات کی بے حرمتی کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے بھلا کیسے برداشت ہوسکتی ہے۔ کجا یہ کہ ان مزارات کو شرک کی آڑ میں دھماکوں سے اڑا دیا جائے۔ خداوند کریم سچے اصحاب رسول (ص) کے دشمنوں کو ہدایت دے اور وہ جو ہدایت کے قابل نہیں ہیں،ا نہیں نیست و نابود فرمائے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 366913
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سوال یہ ہے ان تنخواہ داروں سے جو طالبان اور القاعدہ یا ان کے ذیلی ادارہ کو مجاہدین کہتے ہیں۔ وہ صرف اس سوال کا جواب دیں۔
جناب اویس قرنی کوں تھے؟
جواب دیں، منور حسن، پروفیسر ابراہیم اور سمیع الحق جواب دیں، کون کیا ہے؟
Aala
ہماری پیشکش