0
Sunday 20 Jul 2014 14:33

روزہ اور خود اعتمادی

روزہ اور خود اعتمادی
تحریر: فدا حسین بالہامہ سرینگر

خارجی تحّمل:
روزہ کے لاتعداد جسمانی، نفسیاتی اور روحانی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ روزہ دار کی خود اعتمادی کو تقویت بخشتا ہے۔ اسکے باطن میں چھپی روحانی طاقت کے خزانے کو آشکار کردیتا ہے۔ چنانچہ جب ایک مسلمان ماہِ رمضان کے دوران مختلف موسموں میں مختلف تکالیف برداشت کرکے صبر و رضا کی انمول نعمت سے آشنا ہوتا ہے تو آشنائی اسے روحانی قوت درک کرنے اور اسکا صحیح استعمال کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ جون جولائی کی گرمی میں جب چند گھڑیوں بعد ہی انسان کو پانی کی طلب محسوس ہوتی ہے روزہ دار دن بھر پیاس کی شدت کو برداشت کرکے گویا بزبانِ حال کہتا ہے کہ زندگی کا سفر رضائے الہٰی کے تحت طے کر سکتا ہوں خو اہ صحرائے زیست میں پیاسا بھی رہنا پڑے۔ کڑاکے کی سردی میں جب دیر تک بستر سے باہر آنے کو جی نہیں چاہتا ہے روزہ دار سحر کو ہی اٹھ کر بادِ سحر گاہی کے سرد جھونکوں سے ایک طرف اپنے دل میں روشن ایمانی شعلوں کو تیز تر کر دیتا ہے اور دوسری طرف ہوائے خزاں سے عبدیت کے چمنستان میں عبادت کے پھولوں کو مہکانے کے لئے بادِ نوبہار کا کام لیتا ہے۔ الغرض جتنے بھی صبرآزما مراحل سامنے آ جاتے ہیں روزہ دار کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

داخلی فتح یابی:
خواہشاتِ نفسانی کو قابو کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ داخلی محاذ آرائی یعنی نفس کے ساتھ جنگ بہت ہی کٹھن مرحلہ ہے لیکن ماہِ رمضان ان تمام خواہشوں کو لگام دینے کا ماحول و موقع فراہم کرتا ہے۔ نفسِ امارہ کی یورش کا مقابلہ کرنے کیلئے روزہ ایک کار آمد ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے فتح یابی ایک مسلمان کا نصیب بن جاتی ہے۔ چنانچہ ماہِ رمضان میں روزہ دار اپنے تمام اعضا و جوارح کو حکم الٰہی کے تابع بنا دیتا ہے۔ لہٰذا نفس کی سرکشی کے تمام امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ نفس روزہ دار کی آنکھوں کو محرمات کا نظارہ کرنے پر اُکساتا ہے مگر وہ یہ کہہ کر کہ ہم روزہ دار ہیں انکارکر دیتا ہے۔ یہی نفس زبان کا غلط استعمال کرکے اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بھی روزہ داری کی بناء پر اسکی فرمانبرداری سے قاصر ہے۔ اسی طرح ہر ممدومعاون سے منفی جواب پا کر نفس کی ہار ہوتی ہے۔ اس طرح یہ روزہ دار فطری طور سمجھتا ہے کہ ظاہر و باطن پر میری ہی حکومت ہے، ہر اعضاء پر میرا ہی کنٹرول ہے۔ میرے خالق کی مرضی کے عین مطابق ہی میرا ظاہری اور باطنی نظام چلتا ہے۔ میرا اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا یہاں تک کہ تمام حرکات و سکنات عبادت میں شامل ہے۔ اس سے بڑھ کر خود اعتمادی کا مقام کیا ہوگا۔

خصوصی ہدف:
انسان کو اپنی صلاحتیوں پر اُسوقت بھرپور اعتماد حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے کچھ مخصوص فرائض کی انجام دہی میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مثلاً انجینئر (Engineer) کو کسی بڑے پروجیکٹ کی تکمیل پر فطری طور اپنے اوپر اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹر کا آپریشن (Operation) کامیاب ہو جائے تو یہ کامیابی اسکی ڈاکٹری کے لئے باعثِ اعتماد تصور کی جائے گی۔ ریسرچ سکالر کوئی مشکل اور اچھوتی تحقیق پیش کرے۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان مسابقاتی امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کرے تو انہیں اپنے باصلاحیت ہونے کے یقین میں اضافہ ہو گا۔ ٹھیک اسی طرح مومن خلوصِ نیت کے ساتھ کسی عمل کی انجام دہی پر خوداعتمادی کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ روزے کی صورت میں بندوں کیلئے اپنے رب کی طرف سے مخصوص ہدف (Special Task) مقرر ہوا ہے۔ اس مخصوص ہدف کو پورا کرنے کی بارہا تاکید فرمائی گئی ہے۔ اس کے متعلق حدیث قدسی میں آیا ہے کہ "روزہ میرے لئے ہیں اور میں ہی اسکا اجر دوں گا" لہٰذا جو بھی سعادت مند بندہ اپنے رب کے مقرر کردہ مخصوص ہدف کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے اُسے لازمی طور بندگی خدا پر فخر ہوگا کیونکہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے دہن کی بدبو بھی خوشبو بن کر معبود کے حضور میں پسندیدہ بن جاتی ہے۔

مہمان خانۂ خدا ایک مضبوط پناہ گاہ:
بے پناہ قدرت و بصیرت کے حامل اللہ سے منسوب ہونا ہی بندۂ حقیر کیلئے نفسیاتی برتری کا ایک اہم محرک ثابت ہو ا ہے۔ انسان اپنی کم مائیگی، فناپذیری، بےبصری، بےبضاعتی، کے احساس سے نفسیاتی سطح پر لازماً ٹوٹ کر بکھر جائے گا اگر اسکے ذہن میں ایک توانا، بصیر و علیم، قادر و قدیم، رحیم و کریم، صاحبِ قدرت و جلالت خدا کے سہارے کا تصّور موجود نہ ہو۔ قرآن کریم نے سمندر کے گرداب کی گرفت میں آنے والے، اور تمام ظاہری سہاروں سے منقطع ہونے والے انسان کے بارے میں کہا ہے کہ تمام ناپائیدار سہاروں سے مایوس ہو کر اس کی نظرِ امید بالآخر کہاں پر جا کے ٹھہرتی ہے؟ سورۂ یونس کی آیت نمبر ۲۲ میں خداوند متعال فرماتا ہے، "کہ خدا وہ ہے کہ جو تمہیں خشکی اور سمندر میں سیر کراتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں تھے اور پاکیزہ ہوائیں چلیں اور سارے مسافر خوش ہو گئے تو اچانک ایک تیز ہوا چل گئی اور موجوں نے ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا اور اس خیال سے کہ چاروں طرف سے گھر گئے ہیں دین میں خلوص کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے لگے کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو ہم یقیناً شکر گذاروں میں ہو جائیں گے"۔ متذکرہ آیت میں اگرچہ بظاہر ان لوگوں سے خدا مخاطب ہے جن کا سمندری سفر کے دوران تباہ کن طوفان سے واسطہ پڑا ہو لیکن آیتِ مذکورہ کا اس قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہونے والے افراد سے راست اور عیاں تعلق ہونے کے علاوہ ایک عمومی پہلو (general aspect) بھی ہے جس کا تعلق یکساں طور پر تمام اولادِ آدم سے ہے لہٰذا ایک پیچیدہ اور عمیق نفسیاتی مسئلے کو آسان اور عام فہم تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ معمولی سے معمولی فہم و ادراک رکھنے والے انسان کو اسکے اعلٰی مفاہیم سے روشناس کرایا جائے۔ اصل میں سمندر انسانی حیات کا استعارہ ہے اور اسکا بلا خیز موجوں کی زد میں آ جانا اسکی ہر اس مجبوری اور بےاختیاری کی جانب بلیغ اشارہ ہے جس کا زندگی کے قدم قدم پر اسے سامنا ہوتا ہے خاص طور سے جب کبھی یہ ناتوانی اور بےاختیاری اپنے عروج تک پہنچے اور نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ در پیش ہو، اس مرحلہ پر انسان کا ذہن وجدان لازمی طور پر ایک برتر و والاتر ہستی کی جانب راجع ہوتا ہے۔ موّحد تو موّحد ایک منکرِ خدا کافر و زندیق بھی اس صورت حال میں چارو ناچار اسی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جزوی طور مایوسی کے بھنور سے نجات پانے والا بنی آدم اپنی سرشت سے مجبور ہو کر اپنے رب کے غیبی کرم کو بھول جائے اور پھر سے ظاہری سہاروں اور اپنی نیرومندی کا ڈھونڈورا پیٹنے لگے۔

انسان کی اس ناشکری اور روباہی کی خصلت کو سورہ یونس کی اگلی آیت میں ظاہر کیا گیا ہے۔ "اس کے بعد جب اس نے نجات دیدی تو زمین میں ناحق ظلم کرنے لگے۔ انسانو! یاد رکھو تمہارا ظلم تمہارے ہی خلاف ہو گا یہ صرف چند روزہ زندگی کا مزہ ہے اس کے بعد تم سب کی بازگشت ہماری طرف ہی ہو گی‘"۔(سورہ یونس آیت نمبر ۲۳) حاصلِ کلام یہ کہ کمزور و ناتواں انسان ہر لمحہ ایک قادر و توانا خالق کی پناہ کا طالب ہوتا ہے اور ماہ مبارکِ رمضان میں جب بندۂ حقیر اپنے عظیم پروردگار کا مہمان بن جائے تو اسے اپنے محفوظ ہونے کا احساس کس درجہ بلند ہو گا؟ دوسری جانب وہ اس معبود حقیقی کے بے پناہ احسانات سے بھی صرفِ نظر نہیں کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کے تیرِ عداوت کا ہدف ہے اور اس کی زندگی چاروں اطراف سے خطرے میں ہے اور اپنی زندگی کو بچانے کے لئے مارا مارا پھر رہا ہے، اسی حالت میں اسے اچانک حاکمِ وقت کے یہاں مہمان ہونے کا موقع مل جائے، جہاں تک اس کے دشمن کی رسائی ممکن نہ ہو تو اس کا اپنے تحفظ کے تئیں اپنا اعتماد پھر سے بحال ہو گا۔ اب جو بندہ مہمانِ پروردگار بن جائے اس کا سفینۂ حیات تلاطم خیز موجوں میں بھی کیونکر ڈگمگائے۔ یہاں تک کہ اس کی جان موت کے کھٹکے سے بھی بےچین نہیں ہو گی۔

ہمتِ مرداں مددِ خدا:
خود اعتمادی انسانی حیات کا لازمی جز ہے۔ بغیر اسکے زندگی میں پیش آنے والے امتحانوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا ناممکن ہے۔ زندگی کے ہر گام پر خود اعتمادی کا ساتھ ناگزیر ہے اسی سے انسان کی عمومی اور مخصوص صلاحیتوں میں نکھار آ جاتا ہے۔ خود اعتمادی کا دارومدار دوعناصر پر ہے (۱) خارجی امداد (۲) ذاتی صلاحیت و محنت! مادی اور روحانی ترقی کی حصولیابی کے لئے انسان ذاتی طور ناقص ہے۔ نظام حیات کو چلانے اور اسمیں توازن برقرار رکھنے پر عقل انسانی پوری طرح قادر ہوتی۔ تو خداوند کریم کو عالمِ انسانیت کی رہنمائی کی خاطر انبیاء و مرسلین مبعوث فرمانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ واضح ہوا کہ کوئی بھی عمل صالح اپنی کوشش اور خدا کے توفیق کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ماہِ رمضان میں ایک روزہ دار ذاتی استعداد کے مطابق جہاں صبح و شام نیک اعمال میں محو اور مشغول رہتا ہے۔ وہاں بیرونی امداد کے بطور اُسے اپنے معبود کی جانب سے کچھ اس طرح کا روح پرور ماحول نصیب ہوتا ہے کہ جسمیں تمام شیاطین قید کر لئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر لئے جاتے ہیں۔ جنت کے تمام دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے۔ فضاء میں مسلسل یہ صدائیں گونجتی رہتی ہیں کہ ہے کوئی مانگنے والا جسکو عطا کروں، ہے کوئی توبہ کرنے والا جسکی توبہ میں قبول کروں، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا جسکی مغفرت کروں۔

عادت سے چھٹکارا:
کہا جاتا ہے کہ "اگر تم سے کہا جائے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ پر آ گیا اس پر یقین کرو برعکس اس کے کہ کسی نے اپنی عادت ترک کر دی"۔ بری عادت کو ترک کرنا کچھ زیادہ ہی مشکل ہے۔ یہ روزہ ہی ہے جو روزہ دار کی خود اعتمادی کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی عادتوں کو ترک کرکے صرف حکمِ الٰہی کا پابند ہو کر رہ جاتا ہے۔ عادت کو ترک کرنے کیلئے مستحکم ارادے کی ضرورت ہوتی ہے رمضان المبارک میں ارادوں کے استحکام کی مشق ہوتی ہے جس سے ایک روزہ دار مسلسل تیس روز تک گزرتا ہے۔ اپنے معمولات میں یکسر تبدیلی لانا اور پھر اس پر ایک ماہ تک لگاتار ڈٹے رہنا عزم بالجزم کا متقاضی ہے اور اس تقاضے کو جو مرد مومن بخوبی پورا کرے اس کے لئے بہت ہی آسان ہے کہ وہ اپنی غیر مستحسن عادتوں کو مستقلاً ترک کر دے۔
تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
(علامہ اقبالؒ)

خبر کا کوڈ : 400518
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش