0
Saturday 8 Feb 2014 17:49

کیا اسرائیل ایک یہودی قوم ہے؟

کیا اسرائیل ایک یہودی قوم ہے؟
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)



کیا اسرائیل ایک یہودی قوم ہے؟ کیا امریکہ ایک امریکی قوم ہے؟ اس سوال سے مراد یہ ہے کہ کیا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل ایک یہودی قوم ہے کہ جہاں صرف یہودی بستے ہیں اور کسی اور قوم کو وہاں زندگی بسر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے یا پھر یہ جگہ یہودیوں کی ملکیت ہے؟ اسی طرح امریکہ ایک امریکی قوم ہے؟ طول تاریخ کا مطالعہ بھی کیا جائے تو شاید اس بات کا جواب نفی میں ہو کیونکہ امریکہ کا دریافت ہونا اور پھر Red Indians کا قتل عام اور نسل کشی ایسے واقعات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ کیا اسرائیل ایک یہودی قوم ہے؟ اور کیا امریکہ ایک امریکی قوم ہے؟۔ حال ہی میں امریکہ اور عالمی طاقتوں کے ایران اور شام کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا چرچہ عالمی میڈیا میں اس قدر چمک رہا ہے کہ دوسری طرف فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مذاکراتی عمل کا کہیں تذکرہ ہی نہیں ہے کہ جہاں غاصب اسرائیلی انتظامیہ کوششوں میں مصروف عمل ہے کہ کسی طرح فلسطینی اتھارٹی غاصب اسرائیل کو تسلیم کر لے اور غاصب اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ کئی ایک ایسے اہم مسائل ہیں جس کا سامنا فلسطینیوں کو کرنا پڑ رہا ہے، جن میں سب سے اہم ترین فلسطینی سرزمینوں پر صیہونیوں کا غاصبانہ تسلط اور صیہونی آباد کاری سرفہرست ہے۔ اسی حوالے سے نیویارک ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے امریکی انتظامیہ پر دبائو بڑھایا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر لے۔

دوسری طرف فلسطینی حلقے غاصب اسرائیلی مطالبے کے سامنے شدید مزاحمت کر رہے ہیں کیونکہ غاصب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ 1.6ملین عربوں کو نقصان پہنچا دیا جائے یا پھر اس طرح کہیے کہ لاکھوں فلسطینیوں کے حق واپسی پر آنکھیں بند کر لی جائیں اور اس بات پر خاموشی اختیار کر لی جائے کہ آئندہ فلسطین سے بےدخل کئے جانے والے لاکھوں فلسطینیوں کے حق واپسی کے لئے آواز نہیں اٹھائی جائے گی۔ نیویارک ٹائمز میں شائع رپورٹ میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کے بارے میں الگ طریقے سے بات چیت کی جا سکتی ہے تاہم انہوں نے فلسطینیوں کو اقلیت کے طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے جو یقیناً فلسطینیوں کے حق کو غصب کرنے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ اسی طرح کی بات مرحوم فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی حیات میں بھی کی گئی تھی کہ فلسطینی مہاجرین کے مسئلے کو علیحدہ گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جائے گا تاہم اس حوالے سے یاسر عرفات کو ایک بھاری امداد کی یقین دہانی بھی کروائی گئی تھی، اور اس حوالے سے مبصرین نے اس رائے کو معیاری قرار دیا تھا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر فلسطینی کیوں اپنے ہی گھر سے محروم رہیں اور اپنے ہی گھروں میں واپس آنے کے لئے ایک غاصب صیہونی ریاست کی اجازت کے محتاج رہیں؟

بہر حال 1978ء میں امریکی انتظامیہ کی طرف سے مصر اور اسرائیل کو مذاکرات کرنے اور علاقے میں امن قائم رکھنے کی غرض سے بھاری رقم کی ادائیگی کی جاتی رہی، یہی وجہ ہے کہ امریکی اسرائیل اور فلسطین امن مذاکرات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ خطے میں غاصب صیہونی ریاست کا وجود دراصل یہودیوں کی ایک ریاست بنانا ایک بہانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے بلکہ غاصب اسرائیل کا مقصد خطے کے وسائل اور خطے کی ریاستوں پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے، اسرائیل کے ان ناپاک مقاصد حصول کی خاطر امریکہ نے ہمیشہ غاصب اسرائیلی عزائم کی حمایت کی ہے اور مالی مدد کے ساتھ ساتھ مسلح تعاون بھی کیا ہے۔ اس حوالے سے خود امریکی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکہ نے گذشتہ چھ دہائیوں میں سیکڑوں بلین ڈالر اسرائیل کے لئے خرچ کئے ہیں جبکہ اسی طرح سیکڑوں بلین ڈالرز کا جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی بھی اسرائیل کو فراہم کی ہے۔ واضح رہے کہ غاصب اسرائیل نے ساری کی ساری جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ اور جان لیوا ہتھیار صرف اور صرف عربوں اور بالخصوص فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ سرزمین فلسطین انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے کہ جہاں پر انبیاء تشریف لاتے رہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سونپے گئے فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل رہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سمیت عیسائیوں کے مقدس ترین مقامات سرزمین فلسطین پر موجود ہیں جن میں قدیمی مساجد، کلیسا، چرچ شامل ہیں اور ان سب کے درمیان بیت المقدس ہے کہ جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور صیہونیت مخالف یہودیوں کے لئے بھی قابل احترام ہے۔ اس سرزمین پر موجود ان قدیم آثار اس بات کا ثبوت ہیں کہ فلسطین ہمیشہ سے فلسطین رہا ہے کہ جہاں پر مختلف مذاہب کے ماننے والے زندگی بسر کرتے رہے ہیں نہ کہ صرف یہودیوں کی سرزمین ہے، تاہم یہاں پھر وہی سوال دہرایا جائے گا کہ کیا اسرائیل ایک یہودی قوم ہے؟ سرزمین فلسطین کا نام ہمیشہ تاریخ میں موجود رہا ہے اور اس سرزمین پر بسنے والے سب فلسطینی حیثیت میں زندگیاں بسر کرتے رہے لیکن سنہ1948ء میں اسی سرزمین پر ایک غاصب اور ناپاک ریاست کو قائم کیا گیا جسے اسرائیل کا نام دیا گیا ہے اور اس ریاست کو بنانے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کے لئے ایک الگ ریاست ہونی چاہئیے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہودیو ں کے لئے الگ ریاست کیوں ہونی چاہئیے؟ اور اگر ہونی بھی چاہئیے تو پھر سرزمین فلسطین پر کیوں؟ امریکہ میں، یورپ میں اور دنیا کے کسی اور مقام پر کیوں نہیں ہونی چاہئیے؟ اگر یہودیوں کے لئے ایک الگ ریاست کا قیام ضروری ہے تو پھر فلسطین میں کیوں؟۔

بہرحال فلسطینیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ غاصب اسرائیلی ریاست کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے خواہ اقوام متحدہ فلسطینیوں کے حقوق کو سلب کر لے یا پوری دنیا فلسطین کے عوام کے حق کو غصب کرنے کے لئے آمادہ ہو جائے لیکن فلسطین کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور فلسطین پورا فلسطینیوں کے لئے ہے، جس پر صرف اور صرف فلسطینیوں کا حق ہے، اور اسی طرح فلسطینیوں نے اپنے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر دہراتے ہوئے کہا ہے کہ 48ء کے بعد کے تمام فلسطینیوں کو فلسطین واپس لایا جائے اور فلسطین میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ 48ء کے بعد فلسطین میں لا کر بسائے جانیوالے یہودیوں کو فلسطین میں رہنے دیا جائے اگر وہ فلسطین نامی ریاست میں رہنا چاہیں یا پھر انہیں واپس وہاں بھیج دیا جائے کہ جہاں سے انکو عالمی سامراجی قوتیں 48ء کے وقت اور اس کے بعد بحری جہازوں میں بھر بھر کر لائی تھیں، خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے حوالے سے جو جہاں سے آیا ہے وہ وہاں واپس لوٹ جائے۔ یعنی تمام فلسطینی فلسطین اور تمام یہودی اپنے اپنے ان ممالک میں جہاں سے ان کو لا کر فلسطین میں بسایا گیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 349417
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش