0
Wednesday 16 Jul 2014 06:58

مسلمان ممالک کیجانب سے اسرائیل کی حمایت امت مسلمہ کے خسارے کا باعث ہے، احمد رضا قصوری

مسلمان ممالک کیجانب سے اسرائیل کی حمایت امت مسلمہ کے خسارے کا باعث ہے، احمد رضا قصوری
صاحبزادہ احمد رضا قصوری کا شمار پاکستان کے مشہور و معروف وکلاء اور سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ آپ آل پاکستان مسلم لیگ کے چیف کوآرڈینیٹر ہیں۔ فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اسلام آباد میں منعقدہ فلسطین فاونڈیشن پاکستان کی آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر اسلام ٹائمز نے صاحبزادہ احمد رضا قصوری کا انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔


اسلام ٹائمز: Monroe Doctrine کے مقابلے میں آپ نے Madina Doctrine لانے کی بات کی، اسے کس طرح عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔؟
احمد رضا خان قصوری: یہ مشکل نہیں ہے، جیسے او آئی سی کی میٹنگز ہوتی رہتی ہیں۔ او آئی سی کی میٹنگ خانہ کعبہ میں طلب کریں، تصور یہ کیا جائے کہ اس میٹنگ کی صدارت اللہ تعالٰی کر رہا ہے۔ سارے ممبران احرام باندھ کر بیٹھ جائیں اور پھر وہاں سے یہ اعلانیہ جاری کیا جائے، جو مدینہ ڈاکٹرائن کہلائے گا۔ اس کی رو سے کسی بھی مسلمان ملک یا مسلمان کمیونٹی، چونکہ ہندوستان مسلمان ملک نہیں ہے لیکن وہاں مسلمان کمیونٹی کثیر تعداد میں موجود ہے، کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کو مسلم امہ کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ اگر مسلمان یہ اقدام اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں اور ایک دفعہ اللہ کا نام لیکر کھڑے ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی طاقت جارحیت کا مظاہرہ کرسکے۔ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی کل تعداد 197 ہے، جن میں سے 56 مسلمان ممالک ہیں، مسلمانوں کا دنیا میں اثر و رسوخ ہونا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: مسلمان ممالک آپس میں یکساں حکمت عملی نہیں رکھتے، حتٰی کہ چند ممالک اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں، اس بارے کیا کہیں گے۔؟

احمد رضا خان قصوری: اگر مسلمان ممالک مختلف سمتوں میں چل نکلیں گے، کہ کوئی تو اسرائیل کی مخالفت کر رہا ہے اور کوئی حمایت کر رہا ہے تو اس انداز میں مسلم امہ خسارے میں رہے گی، مسلمانوں کو چاہیے کہ مشترکہ حکمت عملی کے تحت مسلم امہ کے تحفظ، بقا اور سلامتی کے لئے آگے بڑھیں۔ مسلمان ممالک کو اللہ تعالٰی نے وسائل سے نوازا ہے، تیل، گیس، سونا، کاپر دنیا کی ہر چیز مسلمان ممالک میں پائی جاتی ہے اور اب تو اگلی نسل پڑھی لکھی آرہی ہے، جس میں پی ایچ ڈیز بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے دوسری تجویز دی کہ سکیورٹی کونسل میں ایک مستقل رکنیت مسلمانوں کو دی جائے، اس کیلئے کیا حکمت عملی اپنائے جائے، اور کیا یہ ممکن ہے۔؟
احمد رضا خان قصوری: جی یہ ممکن ہے، اب دیکھیں انڈیا والے سکیورٹی کونسل کی سیٹ ڈیمانڈ کر رہے ہیں، وہ صرف کشمیر ایشو کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں، ورنہ وہ لے جائیں، وہ (بھارت) یو این سکیورٹی کونسل میں ایک مستقل سیٹ کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اب دیکھیں مسلمان ون فورتھ ہیں، ان کی یو این سکیورٹی کونسل میں کوئی نمائندگی ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کی دھمکی دینی چاہیے کہ اگر یو این نمائندگی نہیں دے گا تو مسلمان اپنی اقوام متحدہ علیحدہ بنا لیں گے۔ اب مسلمانوں کو ملنے والی سیٹ کے لئے ایک طریقہ کار ہے، یہ سیٹ کسی ایک ملک کو نہیں ملے گی، یہ سیٹ مسلم امہ کو ملے گی، مسلم امہ کی نمائندگی او آئی سی کر رہی ہے۔ او آئی سی میں چیئرمین شپ ہر سال تبدیل ہوتی ہے۔ اب جو بھی او آئی سی میں چیئرمین ہوگا وہ سکیورٹی کونسل میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی کرے گا۔ وہ اپنے ملک کی بجائے مسلم امہ کی نمائندگی کرے گا۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے کہا کہ تمام مسلمان خانہ کعبہ کے گرد اکٹھے ہوجائیں تو کیا حج کے موقع پر تمام مسلمان اکٹھے نہیں ہوتے، اس موقع پر کوئی ایسا اقدام کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔؟

احمد رضا خان قصوری: دراصل حج کو صرف اور صرف عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے، اسلام کے تین ستون ہیں، ایمانیات، عبادات اور معاملات۔ اب معاملات اصل ہیں جو کہ امت مسلمہ کو تشخص دیتے ہیں۔ مسجد میں خطبہ کے دوران معاملات کی بات ہمارا مولوی بھی کم کرتا ہے۔ حج کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاملات پر بحث کی جائے۔ مسلم امہ کو درپیش مسائل پر بات کی جائے، ان کا حل ڈھونڈا جائے، لیکن بدقسمتی سے یہ نہیں ہو رہا۔ حالات ایک جیسے نہیں رہتے، میری باتیں مستقبل کی باتیں ہیں، میں جو کہہ رہا ہوں یہ مستقبل میں پوری ہونگی۔
خبر کا کوڈ : 399610
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش