1
0
Tuesday 20 May 2014 19:15
حامد میر پر حملے کے بعد

کراچی دہشتگردوں کے نرغے میں(2)

کراچی دہشتگردوں کے نرغے میں(2)
تحریر: عرفان علی 

حامد میر اور عامر میر اپنے والد صاحب پر فخر کرتے ہیں ۔لیکن ان کی خدمت میں عرض ہے کہ برادر ذرا ٹھہریں ، خود کو دیکھیں اور اپنے والد گرامی کو۔ پروفیسر وارث میر کہاں اور طالبان سے قربت کہاں؟ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر وہ وارث میراث پدر کیوں کر ہو

اس کے ساتھ ساتھ حامد میر سے یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ جب انہیں ریاستی و غیر ریاستی دونوں عناصر سے خطرہ تھا تو اس حملے کے بعد صرف ریاستی عناصر کا ہی میڈیا ٹرائل کیوں کیا گیا۔ انہیں کالعدم دہشت گرد تکفیری گروہوں پر اتنا اعتماد کیوں ہے؟ ہٹ لسٹ میں وہ تنہا شامل نہیں کئے گئے بلکہ ان کے علاوہ بھی کئی نام شامل ہیں، کسی نے بھی فوج یا آئی ایس آئی پر الزام نہیں لگایا۔

جو طالبان کرنل امام کو مار سکتے ہیں وہ حامد میر کو کیوں نہیں مار سکتے؟ جس کالعدم لشکر جھنگوی نے اپنے ہی شمس الرحمان معاویہ کو مار دیا، وہ حامد میر پر حملہ کیوں نہیں کرسکتے؟ اس حسن ظن کی وجہ بھی وہ قوم کو بتا دیں۔ان پر جس شہر کراچی میں حملہ ہوا، اس میں بھی طالبان کے گروہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا ہے تو وہ دوسروں پر کیوں رحم کھائیں گے! خود فریبی سی خود فریبی ہے۔ بہرحال اس پر سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ قوم نے جیو نیوز چینل کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے، لیکن اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ جیو نیوز کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، کوئی اور طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ جنرل صاحب جیو نیوز کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیں۔ یہی اس مسئلے کا ایک منطقی حل ہے۔

اب جیو نیوز انتظامیہ اور خود حامد میر اس حقیقت پر توجہ دیں کہ نیو یارک ٹائمز کے ڈیلکن واش اور سلمان مسعود کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم لشکر جھنگوی نے اپنا ایک دہشت گرد رپورٹر کے طور پر جیو نیوز میں بھرتی کروایا، ان کی سازش تھی کہ جیو کے ایک ٹاک شو کے میزبان اور ایک نیوز ایڈیٹر کو قتل کر دیں، لیکن وہ دہشت گرد پکڑا گیا اور سازش ناکام ہوگئی۔ پاک بحریہ کے پی این ایس مہران حملے میں بھی جیو کا ایک ملازم ملوث تھا اور جیو نیوز کے رپورٹر ولی بابر کے قتل میں بھی جیو نیوز ہی کے کم از کم ایک ملازم ہی کا ہاتھ تھا۔ یہ انکشافات بھی جیو نیوز کے ایک حاضر سروس اور ایک سابق منیجر نے کئے ہیں۔ اس رپورٹ کی اشاعت سے پہلے ہی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے جو 14 سوالات بیان کئے ہیں، قوم ان کے جواب کی منتظر ہے۔ یہی کہ انہیں کوئٹہ کی کوریج چھوڑ کر کراچی فوری طور پر کس نے بلایا تھا، ان کی سکیورٹی کس کے ذمے تھی، کتنے لوگوں کو ان کی آمد اور روٹ کا علم تھا وغیرہ وغیرہ۔ (توہین اہلبیت(ع) میں بھی یہی تکفیری ٹولہ ملوث ہوسکتا ہے۔)

یہ کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ ہیں، جنہوں نے پولیس افسر شفیق تنولی کو شہید کیا اور ان کے ایک گروہ نے ذمے داری قبول کی۔ مسجد و امام بارگاہ یثرب کے نمازیوں سے بھری گاڑی کو ہدف بنا کر ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کیا، جس میں وہ تو خوش قسمتی سے بچ گئے لیکن 5 شہری شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ کراچی میں بعض پولیس افسران کی غلط روش نے دہشت گردوں کو تقویت دی ہے۔ چوہدری اسلم کی سکیورٹی کے فول پروف انتظامات نہیں تھے، اسی لئے وہ دہشت گردوں کے لئے ترنوالہ ثابت ہوئے۔ شفیق تنولی کو عہدے سے ہٹایا گیا اور ان کے رینک میں تنزلی بھی کی گئی۔ ان دو پولیس افسران کو دہشت گردوں کے خلاف عملی اقدامات کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ مقتول کے بھائی نے ڈی آئی جی عبدالخالق شیخ کو شفیق تنولی کے قتل کا ذمے دار قرار دیا۔

کالعدم دہشت گرد تکفیری گروہوں نے تحریک طالبان پاکستان کا نام سال 2007ء میں اختیار کیا، لیکن اس کے حامی مختلف ناموں سے پاکستان بھر میں دہشت گردی کرتے رہے ہیں۔ سپاہ صحابہ نے اب اپنا نام اہلسنت والجماعت رکھ لیا ہے، مگر وزارت داخلہ کی فہرست میں یہ نام بھی ممنوعہ تنظیم قرار دیا گیا ہے۔ اسی گروہ کی ایک ذیلی شاخ کا نام کالعدم لشکر جھنگوی ہے، جس کے بانیوں میں سے ایک ملک اسحاق، احمد لدھیانوی کا نائب ہے۔ اسی گروہ کا ایک بدنام زمانہ کردار اکرم لاہوری ہے، جو کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن سے پکڑا گیا تھا۔ اسی گروہ کا ایک حافظ احمد بخش ایڈووکیٹ کراچی میں جرائم کی سنگین وارداتیں کرتا تھا اور ڈکیتیوں اور بے گناہ افراد کو یرغمال بناتے وقت خود کو شیعہ ظاہر کرتا تھا۔

اس سال ان تکفیری گروہوں نے اولیائے خدا کے ان مزارات کو جہاں سنی بریلوی افراد جایا کرتے تھے، اپنا ہدف قرار دیا۔ وہاں جانے والے زائرین کو قتل کیا۔ مثال کے طور پر اس سال جنوری میں سپرہائی وے پر سہراب گوٹھ کے قریب ایوب شاہ بابا کے مزار کے متولی سمیت 6 زائرین کو قتل کرکے ایک خط چھوڑا کہ جو آئے گا وہ مارا جائے گا۔ اس کے دو دن بعد چوہدری اسلم پر حملہ کیا گیا۔ جنوری میں ہی رینجرز پر حملے ہوئے، جس میں تین اہلکار شہید ہوئے۔ رزاق آباد پولیس ٹریننگ اسکول پر بھی تکفیری دہشت گردوں نے حملہ کیا، جس میں کئی اہلکار شہید ہوئے۔ 2011ء میں 53، سال 2012ء میں 122 اور 2013ء میں 172 پولیس اہلکار قتل کئے گئے۔

گلشن بونیر لانڈھی، سہراب گوٹھ، اتحاد ٹاؤن، منگھو پیر، کواری کالونی سمیت کئی پختون علاقے کالعدم طالبان کے نرغے میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تکفیریوں کے 30 گروہ شہر میں سرگرم ہیں۔ فوجی آپریشن اور ڈرون حملوں کے خوف سے سوات، مہمند، محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے طالبان نے کراچی کا رخ کیا۔ فرائیڈے ٹائمز کے ضیاء الرحمان کے مطابق پنجابی اور مہاجر طالبان بھی ہیں۔ یہ ایک حیرت انگیز اتفاق ہے کہ ہائی پروفائل مقدمات کے مرکزی کردار مقابلوں میں مار دیئے جاتے ہیں۔ سانحہ عباس ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کی خبر کے دوسرے دن اس کے مارے جانے کی خبر آئی۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی پروین رحمان کو منگھو پیر روڈ پر قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے کہا قاری بلال ملوث ہے اور وہ بھی مقابلے میں مارا گیا۔ طالبان گروپوں کے باہمی اختلافات بھی ایک حقیقت ہے۔ آپریشنل کمانڈر شیر خان کو منگھو پیر میں، سور بابا، ورغوم کے، اسپن بابا اور مصرے کو سہراب گوٹھ میں اور میر حاتم محسود کو گلشن بونیر لانڈھی میں طالبان ہی نے قتل کیا تھا۔

ایک دلچسپ لیکن عبرت ناک واقعہ خود پولیس کے ایک ایس ایچ او نے بیان کیا۔ تقریباً دو سال قبل قصبہ، غوثیہ روڈ پر مسجد طیبہ میں شب درس میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انہوں نے چھاپہ مارا۔ قاری فضل نامی امام مسجد سمیت 10 دہشت گردوں کو پکڑ لیا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں انہیں محسوس ہوا کہ انہوں نے دہشت گردوں کو گھیرے میں نہیں لیا بلکہ دہشت گردوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا تھا۔ انہوں نے اضافی نفری طلب کی، لیکن رینجرز اور پولیس کی جانب سے کوئی بیک اپ نہیں ملا اور معاملہ یہ ہوا کہ مذاکرات کے ذریعے پولیس نے اپنے ایس ایچ او کو بچایا اور دہشت گردوں کو آزاد کر دیا۔

ایک جانب یہ صورت حال ہے تو دوسری جانب یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یزیدی دہشت گرد ان علاقوں میں بھی شیعہ نسل کشی میں آزاد اور بے لگام ہیں کہ جو علاقے ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ ہیں۔ فیڈرل بی ایریا بلاک 16، 18، گلبہار و ناظم آباد یا لیاقت آباد میں بھی اگر شیعہ مسلمانوں کو ہدف بنا کر قتل کرنا آسان ہوگیا ہے تو عام شیعہ مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ سوال آنا بھی خلاف عقل و منطق نہیں کہ پھر ایم کیو ایم کی قیادت کیا کر رہی ہے؟ ان کے مضبوط گڑھ میں یزیدی کالعدم دہشت گرد گروہ کیسے آزادانہ نقل و حرکت کر رہا ہے؟ کیا نقادوں کی اس تنقید کا کوئی جواب ہے کہ کالعدم یزیدی ٹولے کو ایم کیو ایم کے بعض سرکردہ افراد کی آشیرباد حاصل ہے۔؟ ماضی میں بھی ایم کیو ایم کے بعض افراد پر اسی نوعیت کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد کو ان الزامات کا نوٹس لینا چاہئے۔

جس طرح فوج کے لیفٹننٹ فہد رضا وزیرستان میں شہید ہوئے، اسی طرح کراچی میں پولیس اور رینجرز کو بھی جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ ایسا اس لئے ہے کہ اسلام آباد میں موجود حکومت کو یہ احساس ہی نہیں کہ دہشت گرودں سے مذاکرات نے ان کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں۔ وہ راجہ بازار میں بھی پھٹ سکتے ہیں اور راولپنڈی کے تاجروں سے بھی بھتہ لے سکتے ہیں، جو وہ لے رہے ہیں۔ کراچی کے معاملات میں پی پی پی کی نااہل سندھ حکومت ذمے دار ہے۔ نواز شریف اس لئے ڈر گئے کہ طالبان نے دھمکی دی کہ اگر ان کے ساتھیوں کو سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل کیا گیا تو و ہ نواز لیگ کی دو بڑی اہم شخصیات کو قتل کر دیں گے۔ لیکن آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور قائم علی شاہ کہاں کھڑے ہیں۔ 18 اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر جو خودکش دھماکے کئے گئے تھے، اس کا ماسٹر مائنڈ بھی لشکر جھنگوی کا مولوی عبدالرحمان اوٹھو عرف عبدالرحمان سندھی تھا، لیکن اس دہشت گرد گروہ کی مدر آرگنائزیشن کو کراچی سمیت پورے سندھ میں جلسے جلوسوں اور تکفیری نظریات کے پرچار کی کھلی اجازت ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ دہشت گرد شیر ہیں، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران شتر مرغ بنے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 384293
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام
واقعی خوب صورت بات کہی کہ دہشتگرد شیر نہیں، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران شتر مرغ بنے ہوئے ہیں۔
ہماری پیشکش