1
0
Friday 19 Jul 2013 04:02

اتحاد و وحدت کا جمعہ

اتحاد و وحدت کا جمعہ
تحریر: محمد علی نقوی

عراق میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اتنی شدت آچکی ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اس ملک میں داخلی جنگ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ عراق میں انسانی حقوق کے امور میں اقوام متحدہ کے ایلچی فرانسیسکو موئہ نے عراق میں حالیہ پرتشدد واقعات کو دو ہزار سات کی انتقامی کارروائيوں سے زيادہ خطرناک بتایا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں دہشت گردانہ حملوں نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ عراق کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق روان سال کے پہلے چند ماہ میں دو ہزار پانچ سو سے زيادہ افراد دہشت گردانہ کارروائیوں میں مارے جاچکے ہیں۔ جولائی کا مہینہ ابھی نصف بھی نہیں گزرا ہے اور ان پندرہ دنوں میں تین سو سے زائد افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
 
لبنان، بحرین اور عراق عرب دنیا کے شیعہ اکثریتی ممالک سمجھے جاتے ہیں، ان تینوں ممالک کو تکفیری گروہوں کے ذریعے عدم استحکام کا شکار کیا گيا ہے، ان ممالک میں عراق کو اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ یہاں پر صدام کی استبدادی حکومت کے بعد ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں نوری مالکی کی صورت میں ایک شیعہ حکومت کا قیام عمل میں آيا ہے، جو علاقے کی سلفی اور صیہونی طاقتوں کے لئے قابل برداشت نہیں ہے۔ عراق میں جب سے یہ جمہوری نظام سامنے آیا ہے، بعض داخلی اور خارجی طاقتیں اس نظام کو کمزور کرنے کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔
 
عراق میں جاری دہشت گردی میں دو بنیادی عوامل کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پہلا عامل خطے میں جاری مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے کی سازش ہے۔ عراق میں جب سے نوری المالکی اقتدار میں آئے ہیں، عراق کے مختلف صوبوں میں سنی شیعہ جنگ شروع کرنے کی سازش تیار کی گئی، عراق میں شیعہ سنی صدیوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں، ان کے درمیان کبھی کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں رہا، لیکن سعودی عرب نے مالکی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے جہاں صدام کی بعث پارٹی کو مضبوط کیا، وہاں انتہا پسند مذہبی گروہوں کو بھی بھرپور مالی اور عسکری امداد دی، تاکہ مذہبی تفرقہ کو بڑھاوا ملے۔ آج عراق میں مختلف علاقوں بالخصوص شیعہ نشین علاقوں میں ہونے والے دھماکوں کے پیچھے یہی قوتیں کارفرما ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پھیلانا اور انہیں ایک دوسرے کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا، برطانیہ کی قدیمی سازش ہے۔ آج اسی طریقہ کار کو امریکہ نے اپنا لیا ہے۔ 

آج مسلمان ممالک بالخصوص مشرق وسطٰی میں شیعہ سنی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے اور اس میں عرب ممالک کے بعض صیہونی نواز ذرائع ابلاغ سب سے آگئے ہیں۔ مناظروں اور تکفیریت کے نام پر آج پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں جس طرح مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلائی جا رہی ہے، اسکی ماضی میں مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ سامراجی قوتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ خطے کی موجودہ اسلامی بیداری کو صرف اور صرف فرقہ واریت سے ہی کمزور کیا جاسکتا ہے۔ فرقہ وارانہ سرگرمیوں اور مذہبی انتہا پسندی سے جہاں سامراجی مقاصد پورے ہو رہے ہیں، وہاں مسلمانوں کے درمیان داخلی اختلافات بھی بڑھنے کے امکانات ہیں۔
 
شمالی افریقہ اور عرب ممالک میں اسلامی بیداری کے نتیجے میں امریکہ اور سامراجی طاقتوں کے خلاف نفرتون میں جس تیزی سے اضافہ ہوا تھا، اس کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ اور اسکے اتحادی اسلام فوبیا اور ایران فوبیا کو خطے میں رواج دے رہے ہیں۔ آج مصر، لبنان، عراق سمیت کئی مسلمان ملکوں میں شیعہ سنی منافرت پھیلانے کی جو مذموم سازشیں ہو رہی ہیں، ان کا بنیادی ہدف اسلامی بیداری کی لہر کو روکنا اور اس تحریک کے سامنے پل باندھنا ہے۔ 

عراق میں حالیہ دہشت گردی کا ایک پہلو یہ ہے کہ عرب ممالک میں عراق کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اس نے جمہوری نظام کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ صدام کی ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے بعد عراق میں جس طرح پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے اور جمہوری اداروں نے اپنے کام کا آغاز کیا تو یہ علاقے کے عوام کے لئے ایک نمونہ بننا شروع ہوگيا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب سمیت خطے کی دوسری موروثی حکومتوں نے اس نظام کو اپنے لئے خطرہ سمجھا اور مالکی حکومت کو کمزور سے کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہوگئے۔ علاقے کی خاندانی اور موروثی حکومتوں کو اس بات کاشدید ڈر ہے کہ اگر عراق میں جمہوریت کامیاب ہوجاتی ہے تو سعودی عرب، قطر، اردن و غیرہ میں بھی عوام کی طرف سے جمہوری نظام شروع کرنے کی خواہش اور تمنا بیدار ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عراق میں نوری المالکی کی حکومت کو مسلسل دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ 

مصر میں بھی ایک جمہوری تجربہ کیا گیا، لیکن اسے بھی ایک سال بعد سمیٹنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اگرچہ اس میں محمد مرسی اور ان کی جماعت اخوان المسلمین کی ناقص کارکردگی شامل ہے، تاہم مصر کی فوجی حکومت کو سب سے پہلے مبارکباد دینے والے سعودی عرب کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ علاقے میں کسی بھی عرب ملک میں عوامی جمہوریت کامیاب نہ ہونے پائے۔ صدر مرسی اور سعودی عرب کے تعلقات کس سے پوشیدہ ہیں، محمد مرسی نے اپنے انتخاب کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا لیکن مصر میں جونہی محمد مرسی کو اقتدار سے علیحدہ کیا گيا تو سعودی عرب نے نہ صرف سب سے پہلے مصری فوج کو مبارکباد کا پیغام ارسال کیا بلکہ اربوں ڈالر کی امداد بھی فوری روانہ کرنے کا اعلان کیا۔
 
عراق میں آج فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت کا جو بازار گرم ہے، اس میں شام کے حالات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو انتہا پسند شام میں بشار الاسد کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں، وہی عراق میں دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں میں ملوث ہیں۔ نوری المالکی حکومت کا ایک قصور یہ بھی ہے کہ اس نے بشار الاسد کے خلاف نبرد آزما دہشت گردوں کو شام کے لئے ترکی کی طرح عراق سے محفوظ راستہ فراہم نہیں کیا، بلکہ تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق عراق کے کردستان علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی کے دورہ بغداد کے بعد شامی دہشت گردوں کو دی جانے والی لاجسٹک امداد بھی بند کر دی گئی ہے اور ان علاقوں میں دہشت گردوں کے ہتھیاروں کے بڑے بڑے انباروں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ 

شام میں لڑنے والے دہشت گرد عراق کے کرد علاقے کو نہ صرف لاجسٹک سپورٹ کے لئے استعمال کرتے تھے بلکہ ان کے زخمیوں کا علاج بھی اسی علاقے میں کیا جاتا تھا۔ مسعود بارزانی کے نوری المالکی سے کامیاب مذاکرات کے بعد بشار الاسد مخالف دہشت گردوں کا ایک اور اہم ٹھکانہ ان کے ہاتھ سے نکل گيا ہے۔ لہذا وہ اپنی نفرت کے اظہار کے لئے نوری المالکی کی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ آج عراق کے جن صوبوں میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلا کر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں کی جاری ہیں، وہاں بعث پارٹی بھی مذہبی انتہا پسندوں کے شانہ بشانہ نوری المالکی کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ بعض رپورٹوں میں تو یہاں تک آیا ہے کہ ان علاقوں میں صدام کی حمایت میں بھی نعرے لگائے گئے۔ 

بہرحال یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آج مسلمان ملکوں میں مذہبی انتہا پسند امریکہ کے ایجنڈے پرکام کر رہے ہیں۔ القاعدہ ہو یا طالبان، النصرہ ہو یا النور، ان سب کے تانے بانے امریکہ بہادر سے ملتے ہیں۔ امریکہ ان گروہوں سے دوہرے فائدے اٹھا رہا ہے۔ ایک طرف تو ان کی دہشت گردانہ اور سفاکانہ ماہیت کو دکھا کر غیر مسلموں کے اندر اسلام کو بدنام کر رہا ہے تو دوسری طرف اسلامی بیداری کو باہمی اختلافات کے ذریعے اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کے مختلف شہروں میں نماز جمعہ کے دوران مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے فروغ کے لئے سنی شیعہ مسالک کے علماء، دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں نے ایک ہی صف میں نمازیں ادا کیں اور شیعہ سنی وحدت کا عملی مظاہرہ کیا۔ اگر عراق کی طرح دوسرے ممالک میں بھی علماء، دانشوروں اور مذہبی رہنماء اسی طرح کے اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کریں تو دشمن کی تفرقہ پھیلانے والی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 284492
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
شام اور عراق سے دشمنی شیعہ دشمنی ہے۔
ہماری پیشکش